غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 91)

Published On August 7, 2024
مذہبی ریاست، سنتِ یورپ سے انحراف

مذہبی ریاست، سنتِ یورپ سے انحراف

ذیشان وڑائچ سیکولرزم کے داعی طبقے کی طرف یہ سوالات مختلف انداز میں اٹھائے جاتے ہیں کہ مذہبی طبقہ واضح کرے کہ آیا پاکستان ایک قومی ریاست ہے یا نہیں ؟ یا یہ کہ کیا اسلام کی رو سے قومی ریاست جائز ہے یا نہیں ؟ آیا قومی ریاست کا کوئی مذہب ہوتا ہے یا نہیں؟ دلیل ڈاٹ پی کے...

غامدى اور عصر حاضر ميں قتال

غامدى اور عصر حاضر ميں قتال

ایک بھائی نے غامدی صاحب کی جہاد کے موضوع پر ویڈیو کا ایک لنک دے کر درخواست کی تھی کہ میں اس ویڈیو کو دیکھ لوں۔ ویسے غامدی کی ویڈیوں دیکھنا میرے لئے انتہائی مشکل ہے لیکن ان بھائی کے اصرار پر میں نے بادل ناخواستہ دیکھ ہی لیا۔ ان کی ویڈیو دیکھنے کے بعد میرا اس بارے میں...

واقعہ معراج، خواب یا حقیقت؟

واقعہ معراج، خواب یا حقیقت؟

یاسر پیرزادہ کسی نے ایک مرتبہ مجھ سے سوال پوچھا کہ کیا آپ واقعہ معراج پر یقین رکھتے ہیں، میں نے جواب دیا الحمدللہ بالکل کرتا ہوں، اگلا سوا ل یہ تھا کہ آپ تو عقل اور منطق کی باتیں کرتے ہیں پھر یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ ایک رات میں کوئی شخص آسمانوں کی سیر کر آئے۔ میرا...

’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘

’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘

بشکریہ ادارہ ایقاظ   سماع ٹی وی کا یہ پروگرام بہ عنوان ’’غامدی کے ساتھ‘‘مورخہ  27 دسمبر 2013 کو براڈکاسٹ ہوا۔ اس کا ابتدائی حصہ یہاں من و عن دیا جارہا ہے۔ ذیل میں[1] اس پروگرام کا ویب لنک بھی دے دیا گیا ہے۔ ہمارے حالیہ شمارہ کا مرکزی موضوع چونکہ ’’جماعۃ...

مولانا مودودی کے نظریہ دین کا ثبوت اور اس پر تنقید کی محدودیت

مولانا مودودی کے نظریہ دین کا ثبوت اور اس پر تنقید کی محدودیت

ڈاکٹر عادل اشرف غامدی صاحب اور وحید الدین خان کا یہ مفروضہ صحیح نہیں کہ مولانا مودودی کا نظریہ دین ایک یا چند آیات سے ماخوذ ہے اور ان آیات کے پسمنظر اور انکی لغت کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے ہم ایک دوسری تشریح اخذ کرتے ہوۓ انکے نظریہ کی بنیادوں کو ہی ڈھا دیں گے! مولانا مودودی...

غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات

غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات

سید ظفر احمد روزنامہ جنگ کی اشاعت بروز جمعرات 22 جنوری 2015ء میں ممتاز مفکر محترم جاوید احمد صاحب غامدی کا مضمون بعنوان ’’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘ شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے اس موضوع پر اپنے فکر کا خلاصہ بیان کردیا ہے جو وہ اس سے پہلے اپنی کئی کتب و...

مولانا واصل واسطی

ایک بات جس کو ہم اپنے احباب کے ساتھ شریک کرنا چاہتے ہیں   اور جو بات آج تک ضروری ہونے کے باوجود نظر انداز ہوتی چلی جارہی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ منکرینِ حدیث کے جواب میں جس طرح تاریخ کی تمام کتابوں کو کھنگالنا ضروری ہے بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ان کی لغوی تحقیقات پر نظر رکھنا اورنقد کرنا ضروری ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ لوگ حدیث کے انکار کےلیے راستہ قران کی لغت میں تحریفات کے ذریعے بناتے ہیں۔ اس لیے  محنتی اور ذی استعداد دوستوں سے گذارش اوراپیل ہے کہ وہ اس طرف بھرپور توجہ فرمائیں  ۔اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمالیں  جناب پرویز نے قران کی آیت ” اضرب بعصاک الحجر ”  کا ترجمہ کیا ہے کہاپنی جماعت اورگروہ کو اس پتھر تک لے جائیں۔ یعنی  عصا سے گروہ وجماعت کو مراد لیاہے   اور ” اضرب” سے لےجانا مراد لیا ہے۔ اس لیے کہ اس کے ساتھ با  تعدیت کےلیے ان کے خیال میں موجود ہے جس سے انہوں نے اسی مفہوم کےلیے استفادہ کیاہے مگر جناب کو یہ خیال نہیں رہا کہ ضرب جب جانے کے مفہوم میں ہوتا ہے اس کے ساتھ  فی    ہوتا ہے ۔ جیسے  ” یضربون فی الارض “وغیرہ ۔ با   کے ساتھ نہ یہ لفظ جانے کے معنی میں آتاہے   اورنہ لے جانے کے معنی میں آتا ہے ۔ مگر جناب نے اس لفظ کو یہ معنی پہنا دیا ہے ۔ اسی طرح بعض لوگوں نے جس میں منکرینِ حدیث کے ساتھ بدقسمتی سے مولانامودودی اورہمارے استاد مولانا گورہررحمن وغیرہ بھی شامل ہیں انہوں نے “ابلیس” کو عربی کے لفظ ابلاس سے  ۔ مایوس ۔ کے معنی میں ماخوذ بتا کر اسے عام کردیا ہے۔ اس سے منکرینِ حدیث نے شیطان کی نفی میں بہت سا فایدہ اٹھایا ہے ۔ مگر ان لوگوں نے اہلِ لغت کی کتابوں کو اس کی تحقیق میں نہیں دیکھا ورنہ وہ جان جاتے کہ اہلِ لغت اسے عجمی بتاتے ہیں ۔ جاراللہ زمخشری جو لغت میں بھی ماہر ہے ،اس نے لفظِ ” ادریس “کی تحقیق میں  ابلیس  کوبھی عجمی اورغیرمنصرف قراردیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں کہ” قیل سمی ادریس لکثرة دراستہ کتاب اللہ عزوجل وکان اسمہ اخنوخ ۔ وہو غیر صحیح لانہ لو کان افعیلا من الدرس لم یکن فیہ الا سبب واحد وہو العلمیة فکان منصرفا فامتناعہ من الصرف دلیل العجمة وکذالک ابلیس اعجمی ولیس من الابلاس کمایزعمون” ( الکشاف ج3 ص 25)  اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ ابلاس عربی سے ماخوذ نہیں ہے ۔ ایسی ہی بات جناب مرتضی زبیدی نے تاج میں لکھی ہے کہ ” وقیل ابلس اذا دہش وتحیر قالہ ابن عرفة ومنہ اشتقاق ابلیس لعنہ اللہ لانہ یئس من رحمةاللہ وندم وکان اسمہ من قبل عزازیل اوہو اعجمی معرفة ولذا لم یصرف قالہ ابواسحاق قلت ولذاقیل انہ لایصح ان یشتق ابلیس وان وافق معنی ابلس لفظا ومعنی وقد تبع المصنف الجوہری فغلطوہ فلیتنبہ لذالک” ( تاج العروس ج4 ص504) ہم نے صرف یہ دو مثالیں پیش کی ہیں  تاکہ احباب کو اس طرف توجہ کرنا ترغیب وتشویق کا باعث بن جائے کیونکہ یہ محاذ بالکل ان کے لیے خالی پڑا ہے ۔ آج ہم ایک دو الفاظ کی لغوی تحقیق کے متعلق ان حضرات کے آراء کا مطالعہ کرکے دیکھتے ہیں ۔ ان میں ایک لفظ ” رمی ” ہے ۔ ان لوگوں کی تحقیق کے مطابق اس لفظ  کا استعمال تب درست ہوگا   جب یہ زورِ بازو یا فلاخن یا ہوا کے ساتھ مستعمل ہو ۔  جناب غامدی کےاستادامام   مولانا اصلاحی اس لفظ کے متعلق تفسیر سورت الفیل میں لکھتے ہیں کہ ” ترمی ” کے فاعل ہمارے نزدیک قریش ہیں   جو۔ الم تر ۔کے مخاطب ہیں ۔ فعل ” ترمی “چڑیوں کےلیے کسی طرح موزوں ہے بھی نہیں۔ چڑیاں اپنی چونچوں اورچنگلوں میں سے سنگ ریزے گرا تو سکتی ہے لیکن اس کو ” رمی ” نہیں کہہ سکتے ۔ رمی صرف اس صورت میں ہوگی جب پھینکنے میں بازو یافلاخن کازور استعمال ہو   یا ہوا کے تند وتیز تھپیڑے اس کے ساتھ ہوں ( تدبرقران ج9 ص 564) ہم عرض کرتے ہیں کہ ” رمی ” جب کسی محسوس اورٹھوس چیزکی متعلق ہو   اورپھراس کے ساتھ  با  کاحرف بھی آجائے تو اس کے مفہوم میں پھر   القاء   کا تضمن بالعموم ہوجاتا ہے ۔ مرتضی زبیدی نے لکھا ہے کہ ” قال ابن السکیت ولاتقل رمی بہا الااذاالقاہا من یدہ” ( تاج العروس ج 10 ص270)  اس سے معلوم ہوا کہ چونکہ پھینکنا پتھروں کا تھا اور پھر  ترمیہم    کے ساتھ  بحجارة   میں  با   کاحرف بھی موجود ہے اس لیے اس میں زورِ بازو یا فلاخن سے پھینکے  کی بات آگئی ہے  ۔ ورنہ اگر کوئی شخص مطلقا  ” رمی ” کے لیے اس بات کا قائل ہو   تو اس کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہوجائیں گے ۔  دیکھئے امرؤالقیس اپنے مشہور قصیدہ میں کہتے ہیں کہ

یظل العذاری یرتمین بلحمہا

وشحم کہداب الدمقس المفتّل

یہاں ” یرتمین ” کا ترجمہ بہت سے شارحین نے “یحاول بعضہن بعضا اللحم شہوة لہ” ( شرح الاشعار الستة الجاہلین ج1ص 33)  شیخ وہرانی نے”یتہادین ” سے  اورشیخ محمد علی نے ” یناول بعضہن بعضا “( فتح الکبیر ج1ص 55) سے کیا ہے ۔ لیکن یہاں اس شعر میں دیکھو نہ تو زورِبازو موجود ہے نہ فلاخن ہے اورنہ ساف وحاصب کی موجود گی کی کوئی بات ہے ۔ اس لیے  ہم کہتے ہیں کہ جو لوگ مطلقا ان چیزوں کو اس لفظ کے لیے شرط کرتے ہیں وہ اسے ہرجگہ ثابت نہیں کرسکتے۔ اب  رمئ جمار   میں نہ تو زورِ بازو ہے اورنہ زورِ فلاخن اور ہوا ہے ۔ اسی طرح ” و مارمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی ” میں ایسی کوئی چیز خصوصا اللہ تعالی کے واسطے موجود نہیں ہے ۔ اسی طرح ” یرمون المحصنات الغافلات ” میں کوئی ٹھوس اور محسوس چیز موجود نہیں ہے ۔ ہاں جب کوئی محسوس اور ٹھوس شے کے متعلق   رمی   کا لفظ آجائے تو پھراس مفہوم کےلینے میں کوئی قباحت موجود نہیں ہے ۔ جناب کی اس عبارت سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس تحقیق کے وقت جناب کے ذہن میں غالبا یہ شعر رہا ہوگا کہ

اعلّمہ الرمایة کل یوم ۔۔۔۔۔۔ فلمّا اشتد ساعدہ رمانی

مگر ہم نے تو اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ ایک بات تو یہ ہے کہ یہ محسوس چیز کے متعلق ہے  اور دوسری بات یہ ہے کہ  ” رمانی ” میں مزعوم اور مذکور مفہوم موجود نہیں ہے  بلکہ دشمنی اورنافرمانی مراد ہے ۔ ہمارے شیخِ اول مولانا محمد عنایت الرحمن صاحب  رحمہ اللہ رحمة واسعة  مولانا مودودی مرحوم کی دفاع میں بالعموم حد سے گذر جاتے تھے ۔ ایک دفعہ دورہِ تفسیر پڑھا رہے تھے ۔ آیتِ قرانی ” والقی الالواح” کا ترجمہ   انہوں نے تختیاں پھینک دی  سے کیا ۔ ان سے عرض کیا گیا حضرت پھر” والقی رواسی فی الارض” کا کیا کریں گے ؟ فرمایا کہ وہاں بھی  پھینکنے   ہی کا ترجمہ کریں گے ۔ عرض کیا گیا حضور قران میں دوسری ” وجعل رواسی فی الارض ” بھی وارد ہے ۔ توانہوں نے جواب میں فرمایا کہ   جعل چونکہ عام فعل ہے   اس لیے وہ بمعنائے   القی ہے ۔القی   بمعنائے جعل نہیں ہے ۔  مگر اس وقت کون ان سے پنگا لے سکتاتھا اس لیے خاموشی میں عافیت سمجھی ۔ مگر بعد میں ہم سمجھ گئے کہ ” القی “کا لفظ    ڈال دینے  اور   رکھنے   کے بارے میں بھی لغتِ عرب اورادب میں وارد ہے ۔ محقق ابن السکیت ابن احمر کا شعر نقل کرتے ہی کہ

تروی لقی القی فی صفصف

تصہرہ الشمس فماینہصر

( الاصلاح ص 74) اسی طرح  قران میں بھی القی وضع   کے مفہوم میں وارد ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے” والقت مافیہا تخلت” ( انشقاق 4) دوسری جگہ ” رب انی وضعتہا انثی ” بھی موجود ہے۔ اب ان دو مقامات میں القی  لفظ سے ۔ طرح  ۔ کا معنی بتکلف ہی بن جائے گا ۔ ہم عرض یہ کرنا چاہ رہے تھے کہ بعض لوگ کسی لفظ کا معنی جب متداول لغات میں دیکہتے ہیں ۔ تو اسے اس لفظ کا حقیقی معنی سمجہ لیتے ہیں ۔ بعض متاخرین نے تو خیر سے اپنی کتابوں میں اس بات کا اہتمام بھی کیا ہے کہ لفظ کا پہلے کوئی ترجمہ لکھ لیتے ہیں ۔ پھر کہتے ہیں ” ومن المجاز “۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ جناب آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ فلان اس کاحقیقی معنی ہے اور فلان مجازی معنی ؟ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اس لیے تو متقدمین اہلِ لغت نے معانی بیان کرنے کا اہتمام تو کیا ہے ۔ مگر حقیقی ومجازی معانی کاتعین نہیں کیاہے ۔ زیادہ سے زیادہ ایسی بات کرنی چاہئے کہ اگر اعیان اورمحسوسات میں یہ لفظ وارد ہو تواس کایہ معنی بنتا ہے اوراگرمعانی ومقولات میں وارد ہو تو پھر اس کا یہ معنی بنتا ہے ۔ جیسے ” رمی” کے لفظ میں راغب اصفہانی لکھتے ہیں ” الرمی یقال فی الاعیان کالسہم والحجر نحو ۔۔ ومارمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی ۔۔ ویقال فی المقال کنایةعن الشتم کالقذف نحو ۔۔ والذین یرمون ازواجہم ” ( المفردات 221) راغب کی کتاب میں مستدلات کا نہ ہونا سخت کمی ہے ۔ مگران کے اس طرزوطریقہ سے بات کرنے میں بہت بڑے فائدے ہیں ۔ رمی کا استعمال دیگر معانی میں بھی تشبیہا استعمال ہوتا ہے ۔ رمتنی بداءہا وانسلت ۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے

 رمتنی بسہم ریشہ الکحل ولم یضر

ظواہرجلدی وہو للقلب جارح ۔

جن کو جاننے والے جانتے ہیں ۔ ہم یہ کہناچاہ رہے تھے   کہ جب ساف وحاصب اس وقت اصحاب الفیل پرچلے تھے   توپھرصاف اور واضح بات ہے کہ پرندوں کے گرائے ہوئے سنگریزوں کو بھی ان ہواؤں نے زور سے ان لوگوں پر پھینکا اورمارا ہوگا ۔ تو اس میں آخر کیا استحالہ ہے ؟ عام مفسرین نے اگر یہ لکھا ہے کہ   چڑیاں مٹرکے دانوں کے برابر سنگ ریزے گراتی تھیں   جو ہاتھیوں کے سواروں کے جسموں میں سے گذرکر ہاتھیوں کے جسموں میں گھس جاتے تھے ۔ تو یہ انہوں نے  اس ہوا کے تصور کے ساتھ بیان کیا ہو گا  ۔ رمی   کے لفظ کی بنیاد پر  وہ یہ بات نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ  زورِبازو سے پھینکے ہوئے پتھر کب لوگوں کے جسموں سے گذر کر ہاتھیوں کے جسموں میں گھستے تھے ؟ اگر وہ یہ بات ” رمی ” کے تصور کی بنیاد پر کرتے   تو وہ ان سنگریزوں کے جسموں سے گذرنے کی بات کبھی نہیں کر سکتے تھے ۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ محض جناب کی سخن سازی ہے   جس کا  واقعیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…