غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 94)

Published On August 7, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 87)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 87)

مولانا واصل واسطی تیسری بات اس عبارت میں جناب غامدی نے یہ لکھی ہے کہ "قران میں اس کے جن احکام کا ذکر ہواہے ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع وتواترپر مبنی روایت سے متعین ہو ں گی ۔ انہیں قران سے براہِ راست اخذ کرنے کی کوشش نہیں جائے گی " ( میزان ص 47) اس بات پر بھی جناب...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 87)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 86)

مولانا واصل واسطی اب دوسری مستثنی صورت کو دیکھتے ہیں: جناب غامدی لکھتے ہیں" دوم یہ کہ کسی معاشرے میں اگرقحبہ عورتیں ہوں توان سے نمٹنے کے لیے قران مجید کی روسے یہی کافی ہے کہ چار مسلمان گواہ طلب کیے جائیں ۔ جو اس بات پر گواہی دیں کہ فلان عورت فی الواقع زنا کی عادی ایک...

خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف

خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف

ابو عمار زاہد الراشدی محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک تازہ مضمون میں انکشاف فرمایا ہے کہ ’’خلیفہ‘‘ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ بعد میں مسلمانوں نے اپنے نظام حکمرانی کے لیے یہ اصطلاح اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے ساتھ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ غزالیؒ ، ابن...

غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر

غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر

ابو عمار زاہد الراشدی جاوید احمد غامدی صاحب ہمارے محترم اور بزرگ دوست ہیں، صاحب علم ہیں، عربی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، وسیع المطالعہ دانشور ہیں، اور قرآن فہمی میں حضرت مولانا حمید الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کے مکتب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان دنوں قومی اخبارات میں غامدی...

علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف

علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف

ابو عمار زاہد الراشدی اول- اس بحث کا پس منظر غالباً عید الفطر کے ایام کی بات ہے کہ محترم جاوید احمد غامدی نے پشاور پریس کلب میں جہاد، فتویٰ، زکوٰۃ، ٹیکس اور علماء کے سیاسی کردار کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ملک کے جمہور علماء کے موقف اور طرز عمل سے مختلف...

غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر الشریعہ کے جنوری ۲۰۰۶ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون کے جواب میں غامدی صاحب کی تائید میں لکھی جانے والی دو تحریریں نظر سے گزریں ، جن کے حوالے سے کچھ گزارشات اہل علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ جناب طالب محسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ...

مولانا واصل واسطی

اب ایک دوباتیں جناب غامدی کی بھی ہوجائیں ۔ قران مجید   میں بعض آیات ہیں   جن کو اگر کماحقہ سمجھا جائے   تو پھر بندہ کبھی منکرِحدیث نہیں بنتا ۔ لیکن جب ان آیات کے مطالب میں بندہ ڈنڈی مارتا ہے  یاکم ازکم اس سے کنی کتراکے گذر جاتا ہے   تو پھراس کے لیے انکارِحدیث مشکل نہیں رہتا ۔ ان آیات میں سے ایک آیت سورتِ نحل کی ہے ۔ اور دوسری سورت النساء کی ہے ۔ اور تیسری سورتِ حشر کی آیت ہے ۔ پہلے ہم سورتِ نحل کی آیت پیش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں ” وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیہم ولعلہم یتفکرون “(النحل 44) یعنی   ہم نے قران کوتمہاری طرف اتارا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس چیز کوبیان کرو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے  اور اس لیے کہ وہ غور کریں” اس آیت کی کیا تشریح ہے ؟ ہم اسے جناب غامدی سے سنتے ہیں ۔ انہوں نے اس کے متعلق لکھاہے کہ ” آیت کامدعایہ ہے کہ خالقِ کائنات نے اپنا یہ فرمان محض اس لیے پیغمبر کی وساطت سے نازل کیا ہےکہ وہ لوگوں کےلیے اس کی تبیین کرے ۔ گویا تبیین یابیان پیغمبر  کی منصبی ذمہ داری بھی ہے اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر اس کاحق بھی   جو اسے خود پروردگارِعالم نے دیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبرمامور من اللہ مبین کتاب ہے ۔ پیغمبر اورقران کا یہی وہ تعلق ہے جسے فن اصول کی شہرہِ آفاق کتاب الموافقات کے مصنف امام شاطبی نے اس طرح بیان کیاہے ” ان السنة اما بیان للکتاب او زیادة علی ذالک فان کان بیانا فہوثان علی المبین فی الاعتبار ۔ وان لم یکن بیانا فلایعتبر الابعد ان لا یوجد فی الکتاب ”  یعنی  سنت یاقران کابیان ہوگی یااس پر اضافہ ۔ پس اگر وہ بیان ہے تواس کامرتبہ اس چیز کے مقابلے میں ثانوی ہے جس کا وہ بیان ہے اوراگربیان نہیں ہے تواس کا اعتبار صرف اس صورت میں ہوگا جبکہ وہ چیز جو اس میں مذکور ہے قران مجید میں پائی جائے ” شاطبی کے اس بیان سے واضح ہے کہ سنت ہراس معاملے میں  جس میں قران مجید خاموش ہے   بجائے خودماخذِ قانون کی حیثیت رکھتی ہے ۔ لیکن اگرکوئی چیز قران مجید میں مذکور ہے توسنت صرف اس کی تبیین کرسکتی ہے ۔ اس طرح کے معاملات میں اس سے زیادہ کوئی اختیار سنت کوحاصل نہیں ہے “( برہان 41) دوسری جگہ اپنے مخالفین پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” تدبر کی نگاہ سے دیکھئے اس آیت میں فعل  تبین   اپنے مفعول  مانزل الیہم   کی طرف متعدی ہو کر آیا ہے۔ عربی زبان سے واقف ہر شخص جانتاہے کہ اس صورت میں اس کے معنی نہ مجرد وضاحت کے ہیں   نہ اسے یہاں اس کے مفعول  مانزل الیہم   یعنی قران کے بارے میں وضاحت کے معنی میں لیاجاسکتاہے ۔ عربیت کی رو سے اب اس کے معنی صرف یہی ہوں گے کہ تم لوگوں کےلیے  مانزل الیہم  یعنی قران کی وضاحت کرو ۔ ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ   قران کے بارے وضاحت اور قران کی وضاحت  ان دونوں باتوں میں زمین وآسمان کافرق ہے ۔ اختیار اگر قران کے بارے میں وضاحت کاہے  تو بے شک وہ وضاحت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس کی کوئی منسوخ یااس کا کوئی مدعا جواس کے الفاظ سے ثابت ہے ، متغیرکردیا گیا ہے ۔ لیکن قران کی وضاحت کے معنی بس قران کی شرح کے ہی ہو سکتے ہیں ۔ اورشرح کے بارے میں ہم لکھ چکے ہیں کہ شرح بس شرح ہے “( برہان ص 52)

جناب غامدی کی ان طویل عبارات سے تین باتیں ثابت ہوگئیں ہیں۔(1) ایک یہ بات ہے کہ اللہ تعالی نے قران کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے صرف اس لیے نازل کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لیے اس کتاب کی تبیین کریں  جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منصبی ذمہ داری بھی ہے  اوران شرعی حق بھی ہےگویا وہ مامورمن اللہ مبین ہیں ۔ (2)  دوسری یہ بات ثابت ہوگئی  ہے کہ سنت قران مجید کی جس طرح  تشریح بھی کرتی ہے  اسی طرح قران سے زائد احکام کا اثبات بھی کرتی ہے ۔ اور ان زائد چیزوں کے اثبات میں سنت بجائے خود ماخذِ قانون ہے  کیونکہ ادھر قران فقط خاموش ہے ماسوا کی نفی نہیں کررہا ہے ۔یعنی اس طرح‌ ماخذِ قانون ہے جیساکہ قران مجید قانون کاماخذ ہے ۔ (3) اورتیسری بات یہ معلوم ہوگئی ہے کہ قران کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف تشریح کاحق رکہتے ہیں   اس سے زائد کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ نہ اس کی آیات کو منسوخ کرسکتے نہ اس میں کوئی تغیر و تبدل کرسکتے ہیں   اورنہ اس میں کوئی تحدید وتخصیص کرسکتے ہیں ۔ یہ تیسری بات جناب نے بیان کی تحقیق کرتے ہوئے لکھی ہے   مگر ہمارے نزدیک  یہ بات بوجوہ محلِ نظر ہے ہم بقصدِ اختصار صرف دو وجوہات پر اقتصارکرکے کچھ لکھتے ہیں (1) پہلی وجہ یہ ہے   کہ فرض کرلیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقط شارح کی طرح ہیں مگر شارحین میں بھی بعض لوگ مصنف کے شاگرد اور قریب ہوتے ہیں ۔ ان سے وہ کتاب پڑھی ہوتی ہے ۔ تووہ پھر اپنی شرح میں کچھ اضافی اصول کا بیان کرتے ہیں کہ مصنف نے جو فلان مسئلہ یامسائل کتاب میں تحریر کیے ہیں وہ اس اصول یا ان قواعد پرمبنی ہے ان فلان فلان باتوں میں ان کافلان پررد کرنا مقصود ہے جنہوں فلان فلان اقوال کیے ہیں ۔ اب ان اضافہ جات کو اگر کوئی نام نہاد محقق اس وجہ سے رد کرتا ہے کہ اس نے کتاب کی شرح میں اپنے حدود سے تجاوز کیا ہے   تو یہ اس شارح کا نقص وعیب نہیں ہے بلکہ اس محقق کی بدبختی اور نا سمجھی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالی سے خصوصی تعلق ہے ۔ اگراللہ تعالی انہیں بتائیں کہ فلان فلان مسائل فلاں فلان اصول اور قواعد پر مبنی ہیں اور ان قواعد کا وہ ذکر کریں تو یہ قران سے کوئی الگ چیز نہیں ہے اورنہ اس پر زائد شمارہوں گے اگرچہ بظاہر زائد بھی لگتے ہوں ۔ اگرکوئی شخص اسے شارح بلکہ شارع  کی غلطی قراردیتا ہے تواسے کم ازکم چند مشہورشروح کا مطالعہ کرناچاہئے ۔ ورنہ بندہ صرف ابن یعیش کی شرحِ مفصل ہی دیکھ لے تب بھی ہماری اس بات کو سمجھ سکتا ہے ۔(2) دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ فرض کرو کسی شارحِ کتاب نے ایک کتاب کی شرح کی ہے ۔ اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شارح نے اس میں اضافے کیے ہیں۔ شارح یا اس کے بعض متبعین کا قول یہ ہے کہ شارح نے اس میں کچھ بھی اضافہ نہیں کیا ہے ان کے مقاصد کی وضاحت اورتشریح کی ہے ۔ اب اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ یہ شرح متن کے الفاظ سے زائد ہے؟ مثلا اللہ تعالی نے فرمایا ہے “کہ نماز قائم کرو اورروزہ ادا کرو ” اب شارح اس نمازاور روزہ کے لیےجنابت ، حیض اورنفاس سے طہارت کو شرط کرتا ہے کہ اگرعورت کو حیض اورنفاس ہو  تو وہ نماز اور روزے کو ادانہیں کرسکتی ہے ۔ یا بندہ حالت جنابت میں ہو تو وہ نماز ادا نہیں کرسکتا ہے ۔ یازکات ادا کرنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے   مگر شارح کاکہنا ہے کہ اسے اپنے والدین اوربہن وغیرہ کو نہیں دے سکتے۔ اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ شارح نے ادھر اپنے حدود سے تجاوز کیا ہے یا نہیں کیا ہے ؟مثلا یہ شروط ہمارے نزدیک صریح تجاوز ہے۔ جناب کس دلیل کی بنیاد پر اور کسطرح ان زوائداز شرح چیزوں کو حدودِ شرح میں دکھا سکتا ہے ۔ اسی طرح قران نے صرف استطاعت کو حج کےلیے شرط کیا ہے ۔ شارح نے زاد وراحلہ اورفقہاءنے آنے جانے تک گھرکا خرچہ بھی اس استطاعت میں شامل کیا ہے ۔ ہمارے نزدیک یہ شارح کااپنے حدود سے بالکل تجاوز ہے ۔ فیصلہ کس اصول کے تحت ہوگا ؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ میرے متعین کردہ اصول سے ہوگا   تو آپ کو دیگر فقہاء کرام پر کیا فضیلت ومزیت حاصل ہے ؟ اس لیے اس بات کا کوئی تصفیہ بہت مشکل سے ہوگا ۔ معلوم ہوا کہ جناب نے جو تیسری بات لکھی ہے وہ صرف محلِ نظر ہی نہیں بلکہ صریح غلط ہے ۔ اب اس سورہِ نحل کی آیت کی تشریح جناب غامدی کی تفسیر میں دیکھتے ہیں۔ جناب لکھتے ہیں ” یعنی اس لیے اتاری ہے کہ بے کم وکاست ان تک پہنچادو اور یہ تدبر کے ساتھ اس کا مطالعہ کریں تاکہ اس کی روشنی میں ان حقائق کو سمجھ سکیں جن کو سمجھانا خدا کے پیشِ نظر ہے آیت میں ” لتبین  للناس ” کے الفاظ ائے ہیں۔ ان میں فعل ” تبین ” بالکل اسی طرح آیا ہے جس طرح سورہِ الرحمن کی آیت ” الرحمن ۔ علّم القران ” میں لفظ ” علّم ” ہے ۔ اس سے شرح ووضاحت مراد نہیں ہے جس طرح کہ ” علّم ” سے وہاں شرح ووضاحت  کے ساتھ سکھانا ، پڑھانا مراد نہیں ہے ” ( البیان ج3 ص 22)  برہان کی درج عبارت میں وہ اسی آیت میں ” تبیین ” رسولِ خدا کا فرضِ منصبی اور ان کا شرعی حق قرار دیتے ہیں ۔ یہاں کہتے ہیں اس آیت تبین سے ” شرح ووضاحت ” مراد نہیں ۔انا اللہ وانالیہ راجعون ۔ اقبال نے کیاخوب فرمایا تھا

تہاجوناخوب بتدریج  وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کاضمیر

اب ذرا اس آیت میں جو تحریف جناب غامدی نے کی ہے  اسے دیکھتے ہیں ۔ جناب نے اسے ” علّم القران ” کی طرح قرار دیاہے ۔ ہم اس متعلق تین باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں ۔ ( 1) پہلی بات یہ ہے کہ سورہِ الرحمن میں ” علّم القران ” کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہوئی ہے ۔ اور اس آیت میں  ” تبین ” کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوئی ہے ۔  اللہ تعالی عطائی طور پر بندوں کو صلاحتیں اور علوم بخشنے پر قادر ہیں ۔ مگر جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کا تصورنہیں کیاجاسکتاہے ۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معہود طریقوں پر تعلیم کا انتظام کرسکتے ہیں   جیساکہ انہوں نے اپنی زندگی میں کیا بھی تھا ۔ اس لیے اس آیت کو اس طرح قرار دینا صریح قران مجید کی تحریف ہے ۔ اگر مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ صرف قران کے الفاظ سکھائیں گے   باقی وہ خود سمجھ سکتے ہیں  تو یہ بات بھی درست نہیں ہے ۔ ممکن ہے ( یہ حسنِ ظن کا تقاضاہے) بعض لوگوں کی طرح جناب غامدی کو بھی سورة القمر کی آیت ” ولقد یسرناالقران للذکرفہل من مدّکر ” ( القمر 17) سے غلط فہمی ہوئی ہو ۔ مگر ہم اس آیت میں لفظِ ” تیسیر ” کی وہ تشریح جناب کے  استاد امام  سے نقل کرتے ہیں جو انہوں نے زمخشری کی الکشاف سے بلا حوالہ نقل کی ہے کہ  لفظِ ” تیسیر ” عربی میں کسی چیز کو کیل کانٹے سے درست کرنے ، پیشِ نظر مقصد کےلیے اس کو اچھی طرح موزوں بنانے اورجملہ لوازم سے اس کو آراستہ وپیراستہ کرنے کے معنوں میں آتاہے ۔ مثلا‌  یسّرالفرس للرکوب  کے معنی ہونگے گھوڑے کو تربیت دے کر  اس کوکھلا پلا کر زین ، لگام ، رکاب  سے آراستہ کرکے سواری کےلیے بالکل ٹھیک ٹھاک کردیا ۔ یہیں سے یہ لفظ کسی شخص کو کسی مہم کے لیے تیار کرنے، اورجملہ لوازم سے مسلح کرکے اس کو اس اہل بنادینے کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ایک جاہلی شاعر کہتاہے ۔

ونعین فاعلنا اذامانابہ

حتی نیسرہ لفعل السید

تدبرقران ج8 ص 53″۔اس سے معلوم ہوا کہ قران خود پوری طرح سمجھ میں آنے والی کتاب نہیں ہے ۔ اس کے معلم اور استاد کی بہرحال ضرورت ہے (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی البیان کی اس عبارت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وارد ” تبین  وتعلیم ” کی تو تاویل کرتے ہیں  مگر غلبہِ اسلام کو نبی صلی علیہ وسلم اور صحابہِ کرام کی ذمہ دار بتاتے ہیں ۔ مولانا مودودی کی فکر پرتنقید کرتے ہوئے انہوں نے آیتِ سورتِ صف” ہو الذی ارسلہ رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکون” ( الصف 9)  کی تشریح میں لکھاہے کہ “قواعدِ عربیت اورنظائر قران کی روشنی میں آیت کاترجمہ یہی ہوسکتاہے ۔ اوراس ترجمے سے واضح ہے کہ غلبہِ دین کے لیے اب کسی شخص کی جدوجہد کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ سورہِ الصف کے مخاطب صحابہِ رسول ہیں   اور اس کاموضوع رسول کی نصرت کےلیے جہاد کی ترغیب ہے ۔ یہ نصرت قران کے مطابق رسول کے ماننے والوں پر اس کاخاص حق ہے ۔( برہان ص 173)  اس آیت میں  ” لیظہرہ ”  کے صیغہ میں وہ مرفوع ضمیر اللہ تعالی کےلیے بھی مان رہے ہیں ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ” آیت کاتجزیہ کیجئے ۔ اس میں ” لیظہرہ ” کی ضمیر مرفوع کامرجع قواعدِزبان کے مطابق اللہ اورضمیرِمنصوب  کا مرجع الہدی یعنی  دین الحق  ہے ۔الدین کلہ  چونکہ ولو کرہ المشرکون کا معطوف علیہ ہے اورالمشرکون کی تعبیر قران مجید میں ہمیشہ مشرکینِ عرب کےلیے اختیار کی جاتی ہے ۔ اس لیے الدین کاالف لام عربیت کی روسے لازما عہدکےلیے ہے ۔ چنانچہ تمام ادیان سے یہاں سرزمینِ عرب کے تمام ادیان مراد ہیں ” ( برہان ص 172)  مگر اس کے باوجود اس اظہار کو صحابہ کی ذمہ داری بتاتے ہیں ۔ لیکن یہاں ” لتبین ” سے وہ ایک مخفی خواہش کی بنیاد پر شرح ووضاحت مراد نہیں لیتے ہیں ۔ (3) تیسری بات یہ ہے کہ ” لتبین”کے مفہوم میں شرح ووضاحت اگر شامل نہیں ہے   تو آپ کو یہ کس طرح معلوم ہوگا   کہ نماز کے جملہ احکام ” اقیموا الصلوة ” کا بیان ہے ؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ سنتِ ابراہیمی کی بنا پر ہم معلوم کرتے ہیں   تو ہم عرض کریں گے کہ پھر آپ کو نماز ، زکات ، روزہ ، حج کے جملہ احکام اس سنت میں دکھانے پڑیں گے ۔ محض دعاوی سے تو مسائل حقائق کی دنیا میں ثابت نہیں ہوتے ۔ یہ خرط القتاد سے بھی مشکل ہے ۔ اوراگر اپ کہتے ہیں کہ ہم  وحی خفی  کی بنیاد پر ان احکام کو مانتے ہیں تب آپ کو یہ بات ماننی پڑے گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو “تبیین ” کا حق اس طرح حاصل ہے جسے دوسرے شارعین و شارحین کو یہ حق حاصل ہوتا ہے ۔وحی خفی کو مان کر اس کا انکار کرنا صرف ایک غبی اور احمق شخص ہی کرسکتا ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…