غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 96)

Published On August 12, 2024
معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں

معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں

ابو عمار زاہد الراشدی محترم جاوید احمد غامدی کے بعض ارشادات کے حوالے سے جو گفتگو کچھ عرصے سے چل رہی ہے اس کے ضمن میں ان کے دو شاگردوں جناب معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق خان نے ماہنامہ اشراق لاہور کے مئی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں کچھ مزید خیالات کا اظہار کیا ہے جن کے بارے میں...

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط چہارم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط چہارم

(ڈاکٹر حافظ محمد زبیر) امام ابن قیمؒ کا موقف امام صاحب سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ کے قائل نہیں ہیں اور سنت کو ہر صورت میں قرآن کا بیان ہی ثابت کرتے ہیں۔ امام ابن قیمؒ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ متقدمین علمائے سلف تخصیص ‘تقیید وغیرہ کے لیے بھی نسخ کا لفظ استعمال کر...

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر امام شاطبیؒ کا موقف امام شاطبیؒ کا موقف بھی وہی ہے جو کہ امام شافعی ؒ کاہے کہ سنت نہ توقرآن کو منسوخ کرتی ہے اور نہ ہی اس کے کسی حکم پر اضافہ کرتی ہے بلکہ یہ اس کا بیان(یعنی قرآن کے اجمال کیتفصیل‘ مشکل کا بیان‘مطلق کی مقید اور عام کی مخصص) ہے۔امام...

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط دوم

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر قرآن وسنت کا باہمی تعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مُبَیّن(وضاحت اورتشریح کرنے والے) ہیں اور جناب غامدی صاحب بھی اس بات کو مانتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب ’برہان‘ میں قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے عنوان سے اس موضوع پر مفصل گفتگو کی...

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم

کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط اول

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر ہر دور میں انسان اپنے’ ما فی الضمیر ‘ کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبان کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ انسان اپنے خیالات ‘افکار ‘نظریات‘جذبات اور احساسات کو اپنے ہی جیسے دوسرے افراد تک پہنچانے کے لیے الفاظ کو وضع کرتے ہیں۔ کسی بھی زبان...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ہشتم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ہشتم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ایک اور مغالطہ انگیزی اور علماپر طعنہ زنی  غامدی صاحب فرماتے ہیں ’’الائمۃ من قریش مشہور روایت ہے؛ (مسند احمد،رقم 11898 ) اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے ہمارے علما اس غلط فہمی میں مبتلاہو گئے کہ مسلما نوں کے حکم ران صرف قریش میں سے ہوں گے، دراں...

مولانا واصل واسطی

آج اس سلسلے کی تیسری آیت کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں” وامآتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا “( الحشر 7) یعنی  جوکچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دیں  اس سے رک جاؤ ” اس آیت کو سمجھنے کے لیے چند باتوں کاجاننا بہت ضروری ہے ۔(1) پہلی بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے چوتھے سال بنونضیر کے یہود سے ان کی دشمنیوں اورعہد شکنیوں کی بنا پرجہاد کیا تھا۔ بلکہ ان ظالموں نے انتقام لینے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور مشرکینِ مکہ سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ساز باز کرتے رہے ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی بھی سازش کی تھی ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو محاصرہ کرنے کے بعد جلاوطن کیا  تو ان فساق وفجار کے مدینہ سےنکل جانے اورملک بدرہونے کے بعد مسلمانوں کو کچھ سکون وراحت میسر آیا تھا ۔(2) دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلے میں منافقین یہود کے ساتھ ملے ہوئے تھے ۔ تعاون کابھی انہیں یقین دلایا تھا ۔ اوران کے ساتھ پروپیگنڈاکرنے میں بھی بھرپور ساتھ دے رہے تھے جس کی وجہ سے کچھ مسلمان بھی متاثر ہوگئے تھے ۔ پھر اللہ تعالی نے اس سورت میں ان کوتسلی دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بناپر درختوں کا کاٹنا کوئی فسادنہیں تھا ۔مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ ” قران کی یہ آیت( الحشر 5) مسلمانوں ہی کو مطمئن کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ کفار کومطمئن کرنا سرے سے اس کامقصود ہی نہیں ہے ۔چونکہ یہود اور منافقین کے اعتراض کی وجہ سے یابطورِخود مسلمانوں کے دلوں میں یہ خلش پیداہوگئی تھی کہ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تونہیں ہوگئے ہیں ؟اس لیے اللہ تعالی نے ان کو اطمینان دلادیا کہ محاصرے کی ضرورت کے لیے کچھ درختوں کوکاٹنا ،اور جودرخت محاصرے میں حائل نہ تھے ان کونہ کاٹنا  یہ دونوں ہی فعل قانون الہی کے مطابق درست تھے ( تفہیم القران ج5ص 387) اس سے ہماری بات کی وضاحت الحمد للہ ہوگئی ہے ۔(3) تیسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  وحی خفی  کے ذریعے سے ان کے نخلستان کے کچھ حصے کو کاٹ دیا تھا۔ اورکچھ کو چھوڑ دیاتھا ۔ اس عمل کو یہود اورمنافقین نے مل کر براکہنا شروع کردیا  جیساکہ بخاری مسلم اورمسندِاحمد میں سیدنا عبداللہ بن عمر سے مروی ہے ۔ مگر ان لوگوں نے یہ مشہور کردیاکہ یہ جناب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاذاتی فیصلہ ہے  جو فساد پر مشتمل ہے ۔ وحی یعنی قران کے نصوص پر مبنی نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کبھی کسی کو فساد کرنے کاحکم نہیں دیتا ۔ اللہ نے جب اس کے بعد یہ سورت بطورِ وحی نازل فرمائی تو دیگرباتوں کے ساتھ اس استدلال یا شبہ پر بھی تبصرہ فرمایا کہ یہ جوکچھ رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے   یہ کام انہوں نے اللہ تعالی کے اذن سے کیا ہے ۔ خود اپنی خواہش سے یہ کام نہیں کیا ہے ۔ بعض علماء کرام اسے رسولِ خدا کا اجتہاد کہتے ہیں مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر وہ خطا کے مرتکب ہوتے تو اللہ تعالی ضرور انہیں تنبیہ کرتے ۔ مگر یہاں تو ان کی تصویب کی ہے ۔ اوریہ لازم نہیں ہے کہ ہرحکم قران کے نصوص میں موجود ہو ۔ اس تیسری بات سے مسلمانوں کو دوفائدے حاصل ہوئے ہیں (1) ایک فائدہ یہ ہواہے کہ  وحی  محض قران میں منحصر نہیں ہے جیساکہ ہمارے دور کے منکرینِ حدیث کا موقف ہے ۔ بلکہ قران سے باہر بھی وحی کا وجودثابت ہے ۔ جیساکہ سورتِ حشر اوربعض دیگر سورتوں سے معلوم ہوتاہے  ۔ہم اس وقت اس موضوع پرتفصیل نہیں کرسکتے ۔ یہ بحث اگرکسی جگہ موقع مل گیا تو وہاں کرلیں گے ۔ان شاءاللہ تعالی ۔(2) دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کو اس آیت میں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے احکام وفرامین کو دل کی خوشی اورقبولیت کے ساتھ لیا کرو ۔ چاہے وہ قران میں موجود ہو یا نہ ہو ۔ ان کے بعض احکام کو قبول کرنا اور بعض کو رد کرنا منافقین کا شیوہ اوروتیرہ ہے ۔  اب اس پس منظر کی روشنی میں جب ہم اس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں  توتمام ان آحادیث کا اخذ اورقبول کرنا دین کا اصل الاصول لگتا ہے  کہ جن کے اسناد درست اورصحیح ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ سلفِ طیب نے بھی اس آیت کوتمام امور کےلیے عام رکھاہے ۔ خطیب بغدادی الکفایہ میں سیدناعبداللہ بن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیت کو واشمہ اورمستوشمہ کے احکام تک متعدی کیاتھا ” ان امرءة من بنی اسد اتت عبداللہ بن مسعود فقالت انہ بلغنی انک لعنت ذیت وذیت والواشمہ والمستوشمہ ۔ وانی قراءت مابین اللوحین فلم اجدالذی تقول وانی لاظن علی اہلک منہا ۔ قال فقال لہا عبداللہ فادخلی فانظری فدخلت فنظرت فلم ترشیئا ثم خرجت فقالت لم ار شیئا فقال لہا عبداللہ اما قرءت ۔۔وما اتکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا ۔۔قالت بلی قال فہو ذاک” ( بخاری مسلم ۔ احمد )  مگرافسوس کہ اس زمانےبعض منکرینِ حدیث نے اس آیت کو اس وسیع مفہوم سے نکال کراپنے مزعوم مطلب تک محدود کردیا ہے ۔ مثلا جناب غامدی کی تفسیر وتشریح کو پہلے دیکھ لیں جنہوں اپنے استاد امام  کی تفسیر سے اس آیت کے آخری الفاظ ” ان اللہ شدید العقاب ” کی تفسیرتونقل کی ہے مگر باقی آیت پر بحث کرنے کویکسر نظرانداز کیاہے ۔ جناب نے ایسا کیوں کیاہے ؟ اسکی وجہ ذکی لوگوں پر مخفی نہیں ہے ۔ جناب غامدی ان آخری الفاظ کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ ” یہ تہدید ووعید بتارہی ہے کہ اوپر جووضاحت کی گئی ہے  وہ منافقین کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراض کے جواب میں کی گئی ہے ۔ اس لیے کہ سوال اگرمحض تحقیقِ  مسئلہ کےلیے اورمخلصین کی طرف سے ہوتا تواس تہدید کاکوئی موقع نہیں تھا “( البیان ج5ص 167) جناب غامدی کے  استاد امام  نے اس منقول عبارت کے بعد لکھا اورخوب لکھا کہ”یہاں رسول کایہ درجہ جوواضح فرمایاگیاہے کہ جوکچھ وہ دے وہ لے لو اورجس سے روکے اس سے رک جاؤ ۔اگرچہ اس کاایک خاص محل ہے لیکن اس جوحکم مستنبط ہوتا ہے  وہ بالکل عام ہوگا یعنی زندگی کے ہرمعاملے میں  رسول کے ہرحکم ونہی کی بے چون وچرا تعمیل کی جائے گی ۔اس لیے کہ رسول کی حیثیت  جیساکہ قران میں تصریح ہے اللہ تعالی کے مقرر کیے ہوئے ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے ۔فرمایاہے کہ ۔ وماارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ( النسا64) یعنی ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ۔ گویا اس ٹکڑے کے دومفہوم ہونگے ایک خاص ۔ دوسرا عام ۔ اپنے خاص مفہوم کے پہلو سے یہ اپنے سابق مضمون سے مربوط ہوگا ۔اور اپنے عام مفہوم کے اعتبار سے اس کی حیثیت اسلامی شریعت کے ایک ہمہ گیر اصول کی ہوگی” ( تدبرِ قران ج 8 293)  مولانا اصلاحی کی اس عبارت سے احباب جان گئے ہونگےکہ جناب غامدی نے اس کو بلاوجہ ترک نہیں کیاہے ؟ ۔ زندگی کے ہرمعاملے میں بے چون وچرا رسول کی اطاعت  قبول ہوتی تو پھر وہ آحادیث کے منکرکیوں ہوجاتے ؟ اب ہم اسی آیت کے متعلق مولانا مودودی کی عبارت نقل کرنا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ غامدی ان دوکے عمومی افکارکو ہی اپنے نام سے پیش کرتے ہیں اگرچہ انکارحدیث میں منفرد ہیں ۔وہ لکھتے ہیں ” لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں اس لیے یہ صرف اموالِ فے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے   بلکہ اس کامنشایہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی اطاعت کریں ۔اس منشا کویہ بات اورزیادہ واضح کردیتی ہے کہ جوکچھ رسول تمہیں دے  کے مقابلے میں جو کچھ نہ دے  کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے گئےہیں ۔ بلکہ فرمایایہ گیاہے کہ ” جس چیز سے وہ تمہیں روک دے  ( یامنع کردے ) اس سے رک جاؤ ” اگر حکم کامقصود صرف اموالِ فے  کی تقسیم کے معاملے تک محدود کرناہوتاتو “جوکچھ دے” کے مقابلے میں “جوکچھ نہ دے” فرمایاجاتا ۔منع کرنے سے یاروک دینے کے الفاظ کا اس موقع پرلانا خود یہ ظاہرکردیتاہے کہ حکم کامقصود حضور کے امرونہی کی اطاعت ہے یہی بات ہے جوخود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے ۔حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ” اذامرتکم بامر فائتوا منہ مااستطعتم ومانہیتکم عنہ فاجتنبوہ ” جب میں تمہیں کسی بات کاحکم دوں توجہاں تک ممکن ہواس پرعمل کرو اورجس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو بخاری ومسلم ” ( تفہیم القران ج5 ص 394) یہ بات جو مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی نے لکھی ہے کوئی نئی بات نہیں بلکہ تفسیر کی مسلمہ اصول میں ایک ہے کہ ” العبرةلعموم الالفاظ لالخصوص السبب “خلاصہ یہ ہواکہ قران کی فقط ان چند آیتوں کو بھی اگر کماحقہ پڑھا ، سمجھا   اورمانا جائے توبندہ منکرِحدیث کبھی نہیں بن سکتا ۔ یہی وجہ ہے منکرینِ حدیث سب سے پہلے قرانی آیات میں تحریفات وتاویلات کا دروازہ کھولتے ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…