غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 99)

Published On August 12, 2024
ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط سوم )

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط سوم )

سید خالد جامعی ایک سائل نے ایک عالم سے پوچھا ’’جو شخص بحالت احرام شکار کرے اس کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ‘‘ [شرعاً حج ادا کرنے والے شخص کے لیے شکار کھیلنا منع ہے] اس نیک سیرت اور صاحب عمل عالم نے جواب دیا: ’’آپ کا سوال مبہم اور گمراہ کن ہے، آپ کو بالصراحت بتانا...

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط سوم )

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط دوم )

سید خالد جامعی جدیدیت پسند مسلم مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عقلی دلائل سے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن محدود عقل قدم قدم پر ٹھوکر یں کھاتی ہے۔ عہد حاضر کے جدید ذہن کو، جو علمی موشگافیوں کا ماہر ہے، نت نئے سوالات سوجھتے ہیں یہ سوالات تحصیلِ علم، حصولِ...

غامدی صاحب: تصوف اور غارحرا کی روایات

غامدی صاحب: تصوف اور غارحرا کی روایات

ڈاکٹر خضر یسین کیا غار حرا اور اس سے وابستہ واقعات پر مروی احادیث واقعتا صوفیاء کی وضع کردہ ہیں اور محض افسانہ ہیں جیسا کہ غامدی صاحب کا مؤقف ہے؟کیا واقعی قرآن مجید کی سورہ والنجم کی آیات ان احادیث کی تردید کرتی ہیں جو صحیح بخاری میں “کیف بدء الوحی” کے عنوان کے تحت...

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط سوم )

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط اول )

سید خالد جامعی غامدی صاحب اس امت کے پہلے محقق مجتہد اور مفکر ہیں جو ایمان بالغیب کی ایک ایسی توجیہہ پیش کرتے ہیں جو اس امت کی تاریخ تہذیب قرآن و سنت اور اسلامی علمیت کے لیے بالکل اجنبی غلط اور ناقابل قبول ہے غیب پر اور تقدیر پر ایمان کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل...

اشراق کا استشراق

اشراق کا استشراق

حافظ محمد ریحان جاید احمد غامدی اور ان کے مکتبہء فکر سے تقریباً ہر پڑھا لکھااور میڈیا سے آگاہی رکھنے والا شخص واقف ہے۔ اسلام کو جدید دور سے ”ہم آہنگ “ کرنے اور ایک ” جدّتِ تازہ “ بخشنے کے حوالے سے اس مکتبہء فکر کی کوششیں اور اس سلسلے میں ایسے حلقوں کی جانب سے ان کی...

کافروں سے مختلف نظر آنے کا مسئلہ، دار الکفر، ابن تیمیہ اور اپنے جدت پسند

کافروں سے مختلف نظر آنے کا مسئلہ، دار الکفر، ابن تیمیہ اور اپنے جدت پسند

حامد کمال الدین دار الکفر میں "تشبُّہ بالکفار" کے احکام کسی قدر موقوف ٹھہرا دینے کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی ایک تقریر پر پچھلے دنوں کئی ایک سوالات موصول ہوئے۔ بلا شبہہ، شیخ الاسلام کا یہ کلام آپؒ کی تصنیف ’’اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم‘‘ میں وارد...

مولانا واصل واسطی

آگے جناب غامدی”نظمِ قران ” کے عنوان کے متعلق خیالات کااظہار کرتے ہیں کہ ” آٹھویں چیز یہ ہے کہ قران کی ہرسورہ کا ایک متعین نظمِ کلام ہے ۔ وہ اللہ تعالی کی طرف سے الگ الگ اورمتفرق ہدایات  کا کوئی مجموعہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا ایک موضوع اور اس کی تمام آیتیں نہایت حکیمانہ ترتیب اور مناسبت کے ساتھ اس موضوع سے متعلق ہوتی ہیں ۔ سورہ کے اس موضوع کو سامنے رکھ کر جب اس کا مطالعہ کیاجاتا ہے ۔اور موضوع کی رعایت سے اس کانظام پوری طرح واضح ہوجاتا ہے  تو ہم دیکھتے ہیں تووہ ایک نہایت حسین وحدت بن جاتی ہے” ( میزان ص 50)  نظمِ قران کے متعلق اس مکتب  کے لوگوں نے بڑے بڑے دعاوی کیے ہیں جیساکہ اگے ان کی عبارتیں آجائیں گی ۔ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے   کہ گویا یہ چیز یعنی نظم ان لوگوں کے ہاں تفسیرِ قران میں اصل الاصول ہے ۔ ہمارے نزدیک یہ بات محلِ نظر ہے ۔ ہم اس حوالے سے چند باتیں اپنے احباب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ جولوگ نظم یا نظام فی القران کے قائل ہیں   ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ دورانِ تفسیر کس بات کو ترجیح دیتے ہیں  ؟شانِ نزول کا اعتبارکریں گے یا پھر ترتیبِ مصحفی کا ؟ اس لیے کہ پہلے جناب غامدی نے قران کے طالب علموں کے لیے بطورِ نصیحت لکھا ہے کہ” قران کی شرح وتفسیر میں جوچیزیں اس رعایت سے اس کے ہرطالب علم کے پیشِ نظر رہنی چاہیں  وہ یہ ہہیں :  اولا اس کی ہرسورہ میں تدبرکرکے اس کازمانہِ نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت کے انہیں مراحل کے لحاظ سے اس طرح متعین کرنا چاہئے کہ اس کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جاسکے کہ مثال کے طور پر وہ زمانہِ انذار میں نازل ہوئی ہے   یازمانہِ ہجرت وبراءت اورجزاوسزا میں ۔ اور اسکی ہرآیت کا مدعا اسی پس منظرمیں سمجھنا چاہئے” ( میزان ص 49) اچھا جی! ہم نے قران کی سورہِ مائدہ کے زمانہِ نزول میں تدبر کر کے اس کا موقع چھٹاسال ہجرت یااس سے پہلے کازمانہ قرادیا ہے ۔ اب اس میں ایک آیت ہے ” الیوم احل لکم الطیبت وطعام الذین  اوتواالکتاب حل لکم وطعامکم  حل لہم والمحصنت من المؤمنات والمحصنت من الذین اوتوالکتاب من قبلکم آذااتیتم اجورہن محصنین غیر مسافحین ولامتخذی اخدان ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ وہو فی الاخرة من الخاسرین “( المائدہ 5) اب اس آیت سے نظم کے بعض قائلین نے یہ سمجھ لیا ہے کہ چونکہ قران مجید نے اس نکاح اور طعام کو ” الیوم “کے تحت رکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب توحیدکا غلبہ ہو تب اہلِ کتاب کے عورتوں سے نکاح جائز ہوگا ۔ ورنہ ممکن ہے کہ مسلمان مردان عورتوں کے شرک سے متاثر ہوکر اپنا دین چھوڑدیں ۔ مگر اس تحقیق میں مسئلہ یہ ہے کہ دینِ  اسلام اس وقت تک مکہ اور اس کے اطراف پر غالب نہیں ہوا تھا ۔ پھر کیسے الیوم  کا یہ مفہوم ہوا ؟ دوسری بات یہ ہے کہ جب اسلامی تہذیب کا غلبہ ہی علتِ جواز نکاحِ اہلِ کتاب ہے  تب تو اس حالت میں مشرک عورتوں کا نکاح بھی جائز ہونا چائے ہے ۔ مشرک مرد سے نکاح کی اجازت نہ دینے اور مسلمان مردکو اہل الکتاب عورت سے نکاح کرنے کی اجازت دینے کا سبب فقط عورت کی انفعالیت ہی تو ہے ۔ پس اگر غور وتامل سے تصور کیاجائے تو اسی بناپرمشرک عورت سے بھی نکاح کا جوازہونا چاہئے ۔ مگر وہ حکم توموجود نہیں ہے ۔ جناب غامدی لکھتے ہیں ” سورہِ بقرہ کی آیت 221 میں اللہ تعالی نے فرمایاہے  کہ مسلمان نہ مشرک عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں ۔ اورنہ اپنی عورتیں مشرکین کے نکاح میں دے سکتے ہیں ۔ یہ حکم جس طرح مشرکینِ عرب سے متعلق تھا اسی طرح اشتراکِ علت کی بناپر یہودونصاری سے بھی متعلق ہوسکتا تھا  کیونکہ علم وعمل دونوں میں وہ بھی شرک جیسی نجاست سے  پوری طرح آلودہ تھے ۔ تاہم اصلا چونکہ توحید ہی کے ماننے والے تھے  اس لیے اللہ تعالی نے رعایت فرمائی اوران کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی ہے۔آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اس وقت دی گئی جب حلال وحرام اور شرک وتوحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا ۔اس لیے آیت کی شروع میں لفظ ” الیوم  ” کوپیشِ نظررکھنا چاہئے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں توحید کے وضوح اورشرک پر توحید کے غلبے کوبھی یقینا دخل تھا ۔ لہذا اس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان ان عورتوں سے نکاح کریں گے تویہ ان سے لازما متاثر ہوں گے ۔ اور شرک اورتوحیدکے مابین کوئی تصادم نہ صرف یہ ہے کہ پیدا نہیں ہوگا ۔ بلکہ ہوسکتاہے کہ ان میں بہت سی ایمان واسلام سے مشرف ہوجائیں ۔ یہ چیز اس سے فائدہ اٹھاتے وقت اس میں بھی ملحوظ رہنی چاہئے ” ( البیان ج1ص 598) جناب غامدی نے یہ بات بھی صاف لکھی ہے کہ سورہِ النساء اور سورہِ المائدہ ہجرت کی ابتدائی دور میں نازل ہوئیں ۔لکھا ہے کہ ” ان ( دوسورتوں ) کے مضمون سے واضح ہے کہ بقرہ وآلِ عمران کی طرح یہ بھی ہجرت کے بعد مدینہ میں اس وقت نازل ہوئی ہیں  جب مسلمانوں کی باقاعدہ ریاست قائم ہوچکی تھی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب پراتمامِ حجت اورمسلمانوں کا تزکیہ وتطہیر کررہے تھے “( البیان ج1 ص 442) یہ بات تو تاریخ کے ادنی طالبِ علم بھی جانتے ہیں کہ اہلِ کتاب پر اتمامِ حجت کے مرحلے میں نہ مشرکینِ عرب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غلبہ حاصل ہوا تھا  اورنہ اہلِ کتاب مغلوب ہوئے تھے ۔ تو اس دور میں ” الیوم ” لگانے سے وہ کچھ برآمد نہیں ہوتا جوجناب برآمد کرناچاہتے ہیں ۔ نظمِ  قران پر بغیرشانِ نزول کےاعتماد کرتے ہوئے تفسیر کرنے میں بہت سارے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ لہذا پہلے اس چیز کو طے کرناہوگا کہ اعتباراس مکتب کے دانشوروں کے ہاں شانِ نزول کاہوتا ہے  یا پھر ترتیبِ مصحفی کا ۔ ہم نے صرف ایک مثال پر اکتفاء کیا ہے ۔ اور یہ بات توخود جناب غامدی نے مولانا مودودی سے تقریرا نقل کی ہے کہ ” اسلام کی تاریخ میں یہ ایک انقلابی موقع تھا جسے خدانے اپنی عنایت سے فراہم کیا ۔ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھا کر تھام لیا ۔ اہلِ یثرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومحض ایک پناہ گزین کی حیثیت سے نہیں  بلکہ خدا کے نائب اور اپنے فرمانروا کی حیثیت سے بلارہے تھے ۔اور اسلام کی پیرووں کو ان کا بلاوا اس لیے نہ تھا  کہ وہ ایک اجنبی سرزمین میں مہاجر ہونے کی حیثیت سے جگہ پالیں ۔ بلکہ مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل اورخطوں میں جو مسلمان منتشرہیں  وہ یثرب میں جمع ہوکر اوریثربی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک منظم اسلامی معاشرہ بنالیں اس طرح یثرب نے دراصل اپنے آپ کو  مدینةالاسلام  کی حیثیت سے پیش کیا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کرکے عرب میں پہلا دارالاسلام بنالیا “(برہان ص 219) اس سے معلوم ہوا کہ یثرب میں اسلامی حکومت پہلے دن سے قائم ہوگئی تھی  اگر چہ استحکام اس میں آہستہ آہستہ آتا گیا ۔ خلاصہِ کلام یہ ہوا کہ اس وقت توحید کوغلبہ جناب غامدی کے بقول حاصل نہیں ہوا تھا ۔ مگر نظم کی ضرورت کی خاطر  اس بات کو ماننا پڑا ہے ۔(2) دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جس طرح پورے دین کوایک نظام کی شکل میں پیش کرنے کے بہت سارے طریقے ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح قران کو کسی نظم کی شکل میں پیش کرنے کے بھی بہت سارے طرزوطرق  ہوسکتے ہیں ۔ دیکھئے متکلمین صوفیاء نے دین کو ایک نظام کی شکل میں پیش کیا ہے ۔ مگر اس کا اصل محبت اور عشق کو قراردیا ہے ۔ عاشق آدمی اپنے محبوب کے اگے جھکتا ہے ، اس کے پاوں میں پڑتا ہے ۔ تو یہ گویادین میں نماز کی تعبیر ہے ۔وہ عشق میں مسلسل بھوکا رہتاہے یہ  روزہ کی تمثیل ہے ۔ اپنے محبوب اور اس کے متعلقین پر انفاق کرتا ہے یہ گویا زکات کی تعبیر ہے ۔پٹھے پرانے ، غیر سلے کپڑوں میں پھرتا رہتاہے ۔ معشوق کے گھرکاطواف کرتا رہتا ہے ، اسے بوسہ دیتاہے یہ گویا حج وعمرہ وغیرہ کی تمثیل ہے۔ اسی طرح ان لوگوں نے تمام احکامِ دین کی تعبیر کی ہے ۔ ہمارے زمانے کے مولانا مودودی اوراس سے ما قبل علامہ مشرقی نے متکلمین صوفیا کے تصور کے بالکل بالعکس تمام دین کے تعبیر کی ہے ۔ انہوں نے دینی نظام میں حکومت کو اصل چیز قرار دیا ہے ۔ باقی ارکان کو اس کا معاون ومددگار بنادیا ہے یاپھر وسائل وذرائع قراردیاہے ۔ ان مفکرین نے روزہ کو حکومت کے لیےمؤید ومشید ارکان میں سے قراردیاہے  کیونکہ اس سے عام لوگوں میں انسانوں کی ہمدردی ، غمخواری اوران سے وفاداری پیدا ہوتی ہے۔ یہ چیزیں اگرچہ اورطریقوں سے بھی پیداہوسکتی ہے  مگرروزہ کا کردار ان اوصاف میں اکسیر کی طرح ہے ۔ نماز کواطاعت، ڈسپلن اورنظم وضبط پیداکرنے کاذریعہ بتایا ہے۔ باقی طریقوں میں یا توصرف زبان امیر کی اطاعت میں استعمال ہوتی ہے ،یا بدن اوریاپہر دل ۔ مگر نمازمیں تینوں کی بیک وقت تربیت وپرورش ہوتی ہے ۔اس لیے دیگر طریقے  اس کے متبادل نہیں ہوسکتے ہیں ۔ زکات کو عام انفاق اورخرچ اس طرح نہیں ہوسکتاہے کیونکہ زکات میں اپنوں پر نہیں بلکہ غیروں پر انفاق کرنا شرط ہے پھر لانرید جزاء ولاشکورا بھی اس میں ضروری ہے لہذا  اس کو عام افراد میں اجتماعی شعور کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بتایا ہے ۔ اور جمعہ اور حج کو سماجی خدمت اور ایک دوسرے کے حالات ومشکلات سے باخبر رہنے اور واقف رکھنے کا ذریعہ قراردیا ہے ۔ بعض دیگر اہل علم مثلا ہندوستان کے مجدد الف ثانی نے نماز کو دین کااصل الاصول قراردیا ہے ۔ باقی سارے ارکان کو اس کے قیام کا ذریعہ ووسیلہ قراردیا ہے ۔ مگر ان تصورات کو دیگر دانشوروں اور مفکرین نے تفصیلی دلائل کے ساتھ بالحق رد کردیا ہے ۔ بعینہ اسی طرح نظمِ قران کے ایجاد کرنے میں بھی بہت سے راستے اورطرق ممکن ہے ۔ لازم نہیں ہے کہ فراہی یا اصلاحی نے جس نظم کو منتخب کیا ہے وہی واحد اورمقبول ترین نظم کادرجہ بھی حاصل کرلیں ۔ ممکن ہے اور لوگ اس میں اور وسیع جہتیں تلاش کرنے کی کوشش کرلیں ۔ اور نئی راہیں اس میں نکال دیں ۔ جیسا کہ بعض معاصر تفاسیر سے اس کی معلومات حاصل ہو جاتی ہیں ۔ لہذا اگر جناب غامدی اس اوپر درج عبارت میں صرف نظم کی اہمیت اجاگر کرنا چاہ رہے ہیں  تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے ۔ اور اگر جناب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے جس نظم کا ایجاد کیا ہے  وہی اصل الاصول ہے ۔ تو یہ بات محلِ نظر ہے ۔ بالفرض اگر ہم کسی نظم کو اصولِ تفسیر میں وہی مقام بھی دے دیں  جو یہ لوگ دینا چاہتے ہیں ۔ تب بھی وہ کسی اور ایجاد کردہ نظم کے بارے میں ہوگا ۔ فراہی واصلاحی وغیرہ کے اس نظم کو تو صحیح العقیدہ سنی شخص قبول ہی نہیں کرسکتا ہے ۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ۔ جن میں سے کچھ کو ہم اگے ذکرکریں گے ۔اوراس نظم پرتو بہت سارے لوگوں نے اعتراضات بھی وارد کیے ہیں ۔اور بھی ہو سکتے ہیں ۔

تیسری بات اس سلسلے میں ہے  کہ محمدعلی لاہوری کی ” بیان القران “کے بعد لوگ اپنی تفسیروں میں ہرسورہ سے پہلے ایک تمہیدی مضمون لکھنے لگ گئے ہیں ۔ جس میں اس سورت کا خلاصہ اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں ۔ بعض لوگ اس میں سورت کے مرکزی مضمون یا عمود کو متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ اس عمود  اور مرکزی مضمون کا انتخاب کس اصول کے تحت کرتے ہیں ؟ کیا  کثرتِ ذکر  یعنی اس سورت میں اس مضمون کابہت زیادہ ذکر ہواہے اس بنا پر اس کومتعین کرتے ہیں ؟ اگر ایساہے تو پھر پہلے گروپ کا عنوان درست نہیں ہے ۔ کیونکہ پہلے باب میں یہودو نصاری پراتمامِ حجت اوران کی جگہ ایک نئی امت کی تاسیس  کا تذکرہ زیادہ قطعا نہیں ہے ۔ اسی طرح ساتویں باب میں ” سرزمینِ عرب میں غلبہِ حق “کے مضمون کا تذکرہ زیادہ نہیں ہے ۔ اگر اس بناپر عمود اور مرکزی مضمون کا تعین کرتے ہیں کہ فلان مضمون کو شدت سے بیان کیاگیا ہے تو پھر اس پر بہت سے شکالات پیداہوتے ہیں ۔ مثلا ایک اشکال یہ ہے کہ دوسرے باب کا عنوان پھر ” مشرکینِ عرب پر اتمامِ حجت”مسلمانوں کے تزکیہ وتطہیر اور خداکی آخری دینونت کا بیان ” نہیں ہوسکتا ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ” خدا کی آخری دینونت کا بیان ” اس گروپ میں سختی کے ساتھ نہیں ہوا ۔ دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس گروپ کا موضوع ایک کس طرح ہوا ؟ کیا (1) مشرکینِ عرب پر اتمامِ حجت (2)مسلمانوں کا تزکیہ وتطہیر (3) اور خدا کی آخری دینونت کا اظہار ۔ ایک موضوع ہے ؟ یاان کا آپس میں کوئی جزوکل یااصل وفرع  وغیرہ کی طرح تعلق ہے ؟ قطعا نہیں ہے ۔ یہ تینوں الگ الگ مسائل ہیں ۔ مگر ان لوگوں نے اپنے زورِقلم سے اسے ایک ہی موضوع  بنادیا ہے ۔ اسی طرح اگر ساتوں گروپ کے موضوعات کاجائزہ لیا جائے   تو یہی خرابیاں نظر آئیں گی ۔ اور اگر اس وجہ سے موضوع کا تعین کرتے ہیں کہ اس کے ایک حصے کا تعلق ایمان اورقلبی اعمال سے ہے ۔ اور دیگر کا تعلق بدنی اور قولی اعمال سے ہے ۔ اگر ایساہے تو پھر جوسات گروپ بنائے گئے ہیں ۔ اوران کے موضوعات مقرر کیے ہیں ۔وہ سارے کے سارے محلِ نظر ہیں ۔ اس لیے کہ ان سات موضوعات میں کسی ایک میں بھی ایمانیات کا مفصل تذکرہ نہیں ہے ۔صرف آخری گروپ میں انذار ازعذابِ آخرت کا اجمالی بیان ہواہے ۔  خلاصہ ہماری اس بات کا یہ ہوا کہ یہ لوگ موضوع ، مرکزی مضمون ، یا پھر عمود کا تعین کس اصول پرکرتے ہیں  ؟  پہلے ان اصولوں کا تذکرہ ہوناچاہئے ۔ تاکہ ہم اس کاجائزہ لے سکیں ۔ مگر یہاں موضوعات کا تذکرہ توہوتاہے   پراس کے طریقِ انتخاب کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔  حالانکہ سب سے پہلے اسے بیان کرناضروری تھا ۔ پھرتین اورچار چیزوں کو موضوع بناکر پیش کردیا ہے ۔ جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مثلا ۔ساتویں گروپ کا موضوع  (1)  قریش کے سرداروں کو انذارِقیامت (2) ان پر اتمامِ حجت (3) اس کے نتیجے میں انہیں عذاب کی وعید (4)اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرزمین عرب میں غلبہِ حق کی بشارت ہے ۔ اب اگر کوئی شخص اپنی سادگی یاچالاکی سے اسے ایک موضوع باور کراتاہے  تو یہ اس کا اپنا ذاتی ونفسیاتی مسئلہ ہے ۔ پھر طرفہ تماشا یہ ہے کہ گروپ سات بنائے ہیں   مگر  موضوعات تین مقرر کیے ہیں یعنی   تیسرے  چوتھے  پانچویں اور چھٹے باب کا موضوع ایک ہی ہے ۔ اور وہ  انذار وبشارت  اور تزکیہ وتطہیر ہے ۔۔ پس جب ان چار ابواب کا موضوع ایک ہے  تو پھر سات گروپ بنانے کی کیاحاجت تھی ۔ تین گروپ بنالیتے ۔  ممکن ہے سات گروپ سے ان لوگوں کا ” سبع مثانی ” کی جدید توجیہ کرنامقصود ہو ۔  اس لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ ان حضرات کا تکلف ہے۔ نئی چیزوں کے پیداکرنے کے شوق نے ان کو اس ایجاد پر مجبور کیا ہے ورنہ یہ موضوعات ان سورتوں سے بتکلف برآمد کیے گئے ہیں ۔ ہرآدمی جو قران کو پڑہتارہتاہے  اس کو یہ موضوعات ان سورتوں میں خودبخود نظرنہیں آتے ۔ بلکہ ان موضوعات کو ان سورتوں سے ان لوگوں کی تفاسیر کی روشنی میں کشید کرنا پڑتا ہے ۔ پس جب بات اس قدر مخفی ہو توآپ جس چیز کے مدعی ہیں   کوئی اسے اپ کا اختراع کہہ سکتا ہے ۔ جیسے عبدالواحد بلگرامی نے الکافیہ کو تصوف کی  کتاب بنادیا تھا  مگر عام لوگ اس کی محنت کے باوجود اس کے ادعا کے قائل نہیں ہوئے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…