فکرِ غامدی : قرآن فہمی کے بنیادی اصول ( قسط چہارم)

Published On August 15, 2024
ڈاڑھی سنت یا نہیں ؟

ڈاڑھی سنت یا نہیں ؟

مقرر : مفتی منیر اخون  تلخیص : زید حسن سائل : ڈاڑھی کے بارے میں غامدی صاحب کہتے ہیں کہ وہ دین کا حصہ نہیں ہے اور انکا استدلال یہ ہے کہ اسکا قرآن میں تذکرہ نہیں ہے ۔ مفتی منیر اخوان : قرآن شرعی قانون کی کتاب ہے جس میں اصول بیان ہوتے ہیں ، جزئیات و فروعات نہیں ۔ وحی صرف...

واقعہ اسری و معراج : غامدی کو جواب

واقعہ اسری و معراج : غامدی کو جواب

مقرر : مفتی منیر اخوان  تلخیص : زید حسن سائل  :  غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اسری اور معراج کا واقعہ منامی ہے اور بیداری میں حضور ﷺ نے یہ سفر نہیں کیا ۔ اس پر وہ قرآن کے " رؤیا" سے استدلال کرتے ہیں کہ اسکا معنی غیر معروف نہیں ہے اور کوئی ایسا قرینہ بھی موجود نہیں ہے کہ...

کیا بخاری سو فیصد صحیح ہے ؟ غامدی صاحب کو جواب

کیا بخاری سو فیصد صحیح ہے ؟ غامدی صاحب کو جواب

مقرر : محمد علی مرزا  تلخیص : زید حسن سائل :  غامدی صاحب اور انکی پیروی میں قاری حنیف ڈار صاحب بخاری اور مسلم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جتنے بھی گستاخانِ رسول ہیں وہ انہی کتابوں کی روایات کا حوالہ دیتے ہیں  ۔ انہی کتب میں خدا کے جہنم میں پنڈلی ڈالنے ، حضرت عائشہ رض کے...

غامدی ازم کی گمراہی

غامدی ازم کی گمراہی

مقرر : ساحل عدیم  تلخیص : زید حسن   جب انسان کو اپنا آپ پورا حوالہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو وہ اسکے لئے مشکل کام ہوتا ہے جبکہ نبیوں کی دعوت یہی تھی ۔ غامدی ازم کی طرف کوگوں کا شدت سے میلان اسی وجہ سے ہے کیونکہ ڈاکٹر اسرار صاحب کے بالکل برعکس انکی دعوت اجتماعی جد و...

غامدی ازم میں کیا مسئلہ ہے ؟

غامدی ازم میں کیا مسئلہ ہے ؟

مقرر : مفتی یاسر ندیم الواجدی  تلخیص : زید حسن  غامدی ازم کو ہم الحاد اور لبرل ازم کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں جسکی وجہ سے موضوعِ بحث بناتے ہیں ورنہ فرقہ وارانہ مباحث ہمارا موضوع نہیں ہیں ۔ غامدیت بھی اگرچہ ایک فرقہ ہی ہے کیونکہ انکے اصول  بالکل الگ اور مختلف ہیں ۔ اس نشست...

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط چہارم )

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط چہارم )

سید خالد جامعی ایک سائل نے ایک عالم سے پوچھا ’’جو شخص بحالت احرام شکار کرے اس کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ‘‘ [شرعاً حج ادا کرنے والے شخص کے لیے شکار کھیلنا منع ہے] اس نیک سیرت اور صاحب عمل عالم نے جواب دیا: ’’آپ کا سوال مبہم اور گمراہ کن ہے، آپ کو بالصراحت بتانا...

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

تلخیص : وقار احمد

اس ویڈیو میں ہم غامدی صاحب کے اصول تدبر قرآن میں میزان و فرقان میں قرات کے اختلاف پر گفتگو کریں گے غامدی صاحب لکھتے ہیں۔۔۔ایک یہ کہ قرآن میں بعض مقامات پر قراء ت کے اختلافات ہیں ۔یہ اختلافات لفظوں کے اداکرنے ہی میں نہیں ہیں،بعض جگہ اُن کے معنی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں .اِس صورت میں بظاہر اختلافات کے مواقع پر کوئی چیز فیصلہ کن نہیں رہتی.
اس کے برعکس اہل سنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے اور یہ سب صحابہ کرام رضہ کے قولی اجماع اور تواتر سے نسل در نسل منقول ہے۔ اس کے لیے دیکھیے۔
بطور حوالہ کچھ روایات عرض ہیں۔ عمر بن خطاب رضی ا بیان کرتے تھے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان ایک دفعہ اس قرآت سے پڑھتے سنا جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا۔ حالانکہ میری قرآت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائی تھی۔ قریب تھا کہ میں فوراً ہی ان پر کچھ کر بیٹھوں، لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ (نماز سے) فارغ ہو لیں۔ اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو گھسیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرآت کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے۔ پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرآت سناؤ۔ انہوں نے وہی اپنی قرآت سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھو، میں نے بھی پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی۔ قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے۔ تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو۔(بخاری 2419) اور
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک سورت پڑھائی تھی، میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اسی سورت کو پڑھ رہا ہے، اور میری قرآت کے خلاف پڑھ رہا ہے، تو میں نے اس سے پوچھا: تمہیں یہ سورت کس نے سکھائی ہے؟ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا: تم مجھ سے جدا نہ ہونا جب تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ آ جائیں، میں آپ کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ شخص وہ سورت جسے آپ نے مجھے سکھائی ہے میرے طریقے کے خلاف پڑھ رہا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابی! تم پڑھو“ تو میں نے وہ سورت پڑھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت خوب“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا: ”تم پڑھو!“ تو اس نے اسے میری قرآت کے خلاف پڑھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت خوب“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابی! قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، اور ہر ایک درست اور کافی ہے( نسائی 941 )یہ بات ان روایتوں سے بہت واضح ہے کہ یہ سبعہ احرف منزل من اللہ ہیں اور سبعہ احرف کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ہر آیت میں اختلاف بلکہ چند آیات میں ہے وہ بھی الفاظ میں جیسے سورۃ فاتحہ میں مالک یوم الدین یا ملک یوم الدین ۔یہ بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی اجازت سے ایسا ہے۔ اب یہ بھی دیکھیں یہ قراتیں بھی متعین ہیں ۔ ایسا نہیں کہ جس کا جو دل چاہے وہ پڑھتا رہے ۔ قرآت بھی وہی قابل قبول ہوگی جو صحیح سند سے ثابت ہوگی۔ یہ اولین مخاطبین کی آسانی کے نازل کی گئی تھی تا قیامت آنے والے کو یہ آسانی یوں میسر نہیں جیسا کہ ان کے لیے تھی۔ جامع القرآن حضرت عثمان رضہ کے دور میں یہی ہوا کہ مصحف کے ساتھ ساتھ قراء بھی بھیجے جاتے تھے جو کہ یہ ثابت شدہ قرآت کے مطابق قرآن پڑھ کے سناتے تھے۔ علماء نے قرآت کے ثبوت کے یہ ضابطہ مقرر کیا یے
اول ۔ وہ صحیح سند سے ثابت ہو
دوم ۔  مصاحف عثمانی کے مطابق ہو
سوم ۔ لغت عرب کے موافق ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ خبر واحد ہے یا تواتر۔ تو یہ قولی تواتر سے ثابت ہے کیونکہ سب ممکنہ قرآتیں مصحف عثمانی کے اندر سمو دی گئی اور وہاں سے اجماع اور قولی تواتر سے منتقل ہو گئی ۔ اس کے برعکس غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن کی ایک ہی قرآت ہے جو کہ حفص کی روایت ہے، اس لیے کہ قرآن مجید کے میزان اور فرقان ہونے کا تقاضا یہ ہے اسکی ایک ہی قرآت ہونی چاہیے ورنہ تو اس کے لفظوں میں تضاد و اختلاف ہوگا ، تو اس سے قرآن کا میزان و فرقان ہونا مجروح ہوگا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اسطرح تو اگر روایت حفص کو بھی تو مشکلات القرآن کی ایک پوری بحث وہاں بھی موجود ہے، مشکلات القرآن کا مطلب ہے کہ قرآن کی فلاں اور فلاں آیت میں آپس میں تضاد ہے اور یہ اعتراضات مستشرقین کرتے ہیں تو غامدی صاحب ان کو کہیں گے یہ اپکی نظر کا دھوکہ ہے ورنہ حقیقتاً اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ایسے کی ہم بھی کہتے ہیں کہ غامدی صاحب کو جو تضادات نظر آتے ہیں وہ نظر کا دھوکہ ہیں ، ایک مثال سے بات سمجھیے جو کہ غامدی صاحب نے ہی دی ہے وہ لکھتے ہیں “اِس صورت میں بظاہر اختلافات کے مواقع پر کوئی چیز فیصلہ کن نہیں رہتی۔ سورۂ مائدہ (۵ )کی آیت ۶ میں ’اَرْجُلَکُمْ‘، مثال کے طور پر ،اگر نصب وجر ، دونوں کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے تو قرآن کی بنیاد پر یہ بات پھر پوری قطعیت کے ساتھ کس طرح کہی جا سکتی ہے کہ وضو میں پاؤں لازماً دھوئے جائیں گے ، اُن پر مسح نہیں کیا جا سکتا؟”
اب اس آیت کو ابن جریر طبری نے حل فرمایا ہے وہ لکھتے ہیں مس کا معنی ہے مل مل کے دھونا اور غسل کا مطب ہے پانی بہا دینا۔ اس سے بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے وہ رفع ہوجاتا ہے۔
ایک بحث اور بھی ہے کہ کیا یہ تضادات واقعی تضادات ہیں بھی کہ نہیں کیونکہ مناطقہ نے تضاد کو متعین کرنے کے لیے کچھ شرائط عائد کی ہیں جیسے
وحدت زمان و مکان ہونا، وحدت موضوع و محمول ہونا،
وحدت کل و جز ہونا وغیرہ ، تو ان شرائط کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ تضادات بنتے ہی نہیں ہیں
اب غامدی لکھتے ہیں کہ ” قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے”
یہاں سوال یہ ہے کہ کونسا مصحف
الجزائر کا مصحف ، مراکش کا مصحف ، اردن کا مصحف یا مدینہ کا مصحف
، کیونکہ ان تمام ممالک میں قرآن مختلف قرات پر چھپتا ہے ۔ اب کونسا مصحف غامدی صاحب فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد قرآن مجید کے قدیم قلمی نسخے دیکھیے تو وہ بھی روایت حفص کے مطابق نہیں ، اسی طرح دیکھیے کہ تفسیر کشاف اور قرطبی دونوں دروی کی روایت پر ہیں ، طبری بھی حفص پر نہیں ، تو خلاصہ کلام یہ کہ غامدی صاحب جو فرماتے ہیں وہ ایک کمزور بات ہے۔

ویڈیو درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…