فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، میزان اور فرقان (قسط سوم)

Published On July 30, 2024
جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

سید اسد مشہدی ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے مصادر فکر کے تجزیے پر مبنی ہے۔ جب ہم نے اسی تناظر میں ایک علمی گفتگو ریکارڈ کروائی تو مختلف حلقوں سے ردعمل موصول ہوئے۔ ان میں ایک ردعمل جناب حسن الیاس صاحب کا تھا، جنہوں نے ہماری گفتگو کو اس کے اصل...

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

تلخیص : وقار احمد

س ویڈیو میں جاوید احمد غامدی صاحب کی کتاب “میزان” کے باب مبادی تدبر قرآن میں قرآن فہمی کے لیے بیان کردہ دس اصولوں میں بنیادی ترین اصول “میزان اور فرقان ” کو ڈسکس کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر زبیر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ محض دو لفظ نہیں بلکہ غامدی صاحب کی پوری فلاسفی ہے جو ان الفاظ کے اندر چھپی ہوئی ہے کیونکہ اصول سے انہوں نے بہت سارے نتائج نکالے ہیں۔ اسی اصول کی بنیاد پر ” سبعہ احرف ” والی روایات کا بھی انکار کیا ہے۔ غامدی صاحب نے اپنی بات کو موکد کرنے کے لیے سورۃ شوری کی آیت 17 کے الفاظ ” اللہ الذی انزل الکتاب بالحق والمیزان ” سے استدلال فرمایا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو میزان کہا ہے، اس آیت میں انہوں نے ” و ” کو تفسیریہ مانا ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کس دلیل کی بنیاد پر انہوں نے “و ” کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹا کر مجازی معنی مراد لیے ہیں ، کیونکہ “و ” کے اصلاً تو عطف کے لیے آتا یے جس سے مغایرت ثابت ہوتی ہے ، اور ماہرین لغت نے بھی ” و ” تفسریہ مراد لینے کے لیے نو شرائط بیان کیں ہیں، اگر کوئی دلیل یا قرینہ نا تو ” و ” کے حقیقی معنی ہی مراد لیے جائیں گے، اس لیے یہاں اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ الکتاب اور چیز یے اور میزان کوئی اور چیز ، اس کے علاوہ سیاق کلام بھی اسی معنی کی تائید کرتا ہے، پیچھے مضمون چونکہ آخرت کا چل رہا ہے تو یہاں بھی وہی ترازو مراد ہوگا جو اللہ تعالیٰ بروز حشر اعمال تولنے کے لیے نصب فرمائیں گے۔ ایک اور چیز دیکھیے کہ غامدی صاحب کے مطابق عربی معلی کا مصدر تو قرآن مجید ہے تو قرآن مجید میں یہ لفظ ترازو کے معنی ہی میں استعمال ہوا یے۔ غامدی صاحب ایک اجنبی معنی مراد لے رہے ہیں جس کی کوئی دلیل بھی ان کے پاس نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم قرآن کو میزان کہہ سکتے ہیں ، تو اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے خواہ مخواہ کسی آیت سے استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرا یہ سب سے بڑی میران تو سنت ہے کیونکہ زیادہ احکام تو سنت میں بیان ہوئے ناکہ قرآن میں، غامدی صاحب سنت کو تو میزان نہیں مانتے۔
غامدی صاحب قرآن کو فرقان بھی مانتے ہیں ، فرقان کہتے ہیں حق و باطل میں فرق کرنے والے کو ، اب قرآن کو اگر دیکھیں تو اس کے تین بڑے مضمون ہیں ،
ایک : اصلاح عقائد ۔ دوسرا : قانون الہی کا بیان ۔
تیسرا : دوسری قوموں کا تذکرہ ۔
قرآن مجید نے پہلے کو فرقان ،
دوسرے کو نور اور تیسرے کو ذکر سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن نظریات کی اصلاح کے اِعتبار سے فرقان ہے لیکن غامدی صاحب اس سے اور ہی نتائج نکالتے ہیں ، قرآن صاحب فرماتے ہیں کہ ” قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کہ وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص ، اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا، یہ ترمیم و تغیر تک تو بات درست ہے اور ہم بھی اسی کے قائل ہیں ،لیکن تحدید و تخصیص تو وہ خود بھی کرتے ییں ، مطلب یہ پیغمبر کا اختیار تو نہیں لیکن غامدی صاحب اور ان کے استاذ کو یہ اختیار حاصل ہے۔

ویڈیو درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE