فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، میزان اور فرقان (قسط سوم)

Published On July 30, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

تلخیص : وقار احمد

س ویڈیو میں جاوید احمد غامدی صاحب کی کتاب “میزان” کے باب مبادی تدبر قرآن میں قرآن فہمی کے لیے بیان کردہ دس اصولوں میں بنیادی ترین اصول “میزان اور فرقان ” کو ڈسکس کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر زبیر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ محض دو لفظ نہیں بلکہ غامدی صاحب کی پوری فلاسفی ہے جو ان الفاظ کے اندر چھپی ہوئی ہے کیونکہ اصول سے انہوں نے بہت سارے نتائج نکالے ہیں۔ اسی اصول کی بنیاد پر ” سبعہ احرف ” والی روایات کا بھی انکار کیا ہے۔ غامدی صاحب نے اپنی بات کو موکد کرنے کے لیے سورۃ شوری کی آیت 17 کے الفاظ ” اللہ الذی انزل الکتاب بالحق والمیزان ” سے استدلال فرمایا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو میزان کہا ہے، اس آیت میں انہوں نے ” و ” کو تفسیریہ مانا ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کس دلیل کی بنیاد پر انہوں نے “و ” کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹا کر مجازی معنی مراد لیے ہیں ، کیونکہ “و ” کے اصلاً تو عطف کے لیے آتا یے جس سے مغایرت ثابت ہوتی ہے ، اور ماہرین لغت نے بھی ” و ” تفسریہ مراد لینے کے لیے نو شرائط بیان کیں ہیں، اگر کوئی دلیل یا قرینہ نا تو ” و ” کے حقیقی معنی ہی مراد لیے جائیں گے، اس لیے یہاں اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ الکتاب اور چیز یے اور میزان کوئی اور چیز ، اس کے علاوہ سیاق کلام بھی اسی معنی کی تائید کرتا ہے، پیچھے مضمون چونکہ آخرت کا چل رہا ہے تو یہاں بھی وہی ترازو مراد ہوگا جو اللہ تعالیٰ بروز حشر اعمال تولنے کے لیے نصب فرمائیں گے۔ ایک اور چیز دیکھیے کہ غامدی صاحب کے مطابق عربی معلی کا مصدر تو قرآن مجید ہے تو قرآن مجید میں یہ لفظ ترازو کے معنی ہی میں استعمال ہوا یے۔ غامدی صاحب ایک اجنبی معنی مراد لے رہے ہیں جس کی کوئی دلیل بھی ان کے پاس نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم قرآن کو میزان کہہ سکتے ہیں ، تو اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے خواہ مخواہ کسی آیت سے استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرا یہ سب سے بڑی میران تو سنت ہے کیونکہ زیادہ احکام تو سنت میں بیان ہوئے ناکہ قرآن میں، غامدی صاحب سنت کو تو میزان نہیں مانتے۔
غامدی صاحب قرآن کو فرقان بھی مانتے ہیں ، فرقان کہتے ہیں حق و باطل میں فرق کرنے والے کو ، اب قرآن کو اگر دیکھیں تو اس کے تین بڑے مضمون ہیں ،
ایک : اصلاح عقائد ۔ دوسرا : قانون الہی کا بیان ۔
تیسرا : دوسری قوموں کا تذکرہ ۔
قرآن مجید نے پہلے کو فرقان ،
دوسرے کو نور اور تیسرے کو ذکر سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن نظریات کی اصلاح کے اِعتبار سے فرقان ہے لیکن غامدی صاحب اس سے اور ہی نتائج نکالتے ہیں ، قرآن صاحب فرماتے ہیں کہ ” قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کہ وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص ، اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا، یہ ترمیم و تغیر تک تو بات درست ہے اور ہم بھی اسی کے قائل ہیں ،لیکن تحدید و تخصیص تو وہ خود بھی کرتے ییں ، مطلب یہ پیغمبر کا اختیار تو نہیں لیکن غامدی صاحب اور ان کے استاذ کو یہ اختیار حاصل ہے۔

ویڈیو درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…