جہانگیر حنیف
کلام کے درست فہم کا فارمولہ متکلم + کلام ہے۔ قاری محض کلام تک محدود رہے، یہ غلط ہے اور اس سے ہمیں اختلاف ہے۔ کلام کو خود مکتفی قرار دینے والے حضرات کلام کو کلام سے کلام میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ جو اولا کسی بھی تاریخی اور مذہبی متن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اور اگر ممکن یے، تو گمراہی کا سبب ہے۔ جب ہم کلام کے خود مکتفی ہونے کو زیر بحث لاتے ہیں، تو مخالف کیمپ والے فوراً قرآن کے میزان اور فرقان ہونے کو بطور دلیل پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ قرآن بلاشبہ میزان اور فرقان ہے۔ ہم بفضلِ خدا قرآن مجید کے میزان اور فرقان ہونے پر صدقِ دل سے یقین رکھتے ہیں۔ لیکن میزان اور فرقان کا یہ معنی نہیں کہ قرآن مجید کو متکلم کی ضرورت اور اہمیت سے محروم کردیا جائے۔ قرآن مجید نے میزان و فرقان بن کر دکھایا ہے۔ وہ محض تصور کی سطح پر میزان و فرقان نہیں، عملاً ہے۔ قرآن مجید نے حق کو باطل سے ممتاز کیا اور ان کے درمیان ایسا فرق قائم کردیا کہ رہتی دنیا تک اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وجہ ہے کہ ہم روایت کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ قرآن مجید نے جس روایت کو قائم کیا اور اسے اپنی صحت کی سب سے بڑی دلیل بنایا، ہمارے متجددین اسے غیر متعلق بنانے میں دن رات کوشاں ہیں۔ ان کے قرآن فہمی کے اصول دو نسلوں تک ممتد ہوتے ہیں۔ ان کا دینی تصور ایک نسل تک ممتد ہوتا ہے اور ان کا فقہی ڈھانچہ ابھی قائم ہوا چاہتا ہے۔ دو نسلوں کی متاع کو بچانے میں انھوں نے پوری روایت کو پھونک ڈالا۔
قرآن مجید کا میزان اور فرقان ہونا امت میں کبھی متنازعہ نہیں ہوا۔ جب مفسرین شان نزول کی روایتوں سے استفادہ کرتے تھے، جب کسی حدیث کو نقل کرتے یا کسی صحابی / تابعی کے قول سے مستفید ہوتے، تو انھیں یہ خیال کبھی نہیں ستایا کہ انھوں نے قرآن مجید کے میزان اور فرقان ہونے کی مخالفت کی ہے اور نہ دوسرے لوگ انھیں یہ الزام دیتے کہ انھوں نے قرآن مجید کے میزان اور فرقان ہونے کو نقصان پہنچایا ہے۔ بالفاظِ دیگر، قرآن مجید کا میزان اور فرقان ہونا اور خبر واحد سے استفادے کو باہم متضاد تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ قرآن مجید کا میزان اور فرقان ہونا مشہود حقیقت ہے اور یہ مشہود حقیقت رہی گی۔ یہ تدبر قرآن اور البیان کے قلم بند ہونے سے پہلے بھی میزان اور فرقان تھا اور بعد میں بھی میزان اور فرقان رہے گا، چاہے لوگ تدبر قرآن اور البیان کو بھول جائیں اور طبری اور روح المعانی کو پڑھنا شروع کردیں۔ لہذا ہمیں قرآن مجید کے میزان اور فرقان ہونے کو بیان کرکے خاموش نہ کروائیں۔ اس کا محض ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ آپ نہ صرف روایت سے مخالفت کا بیڑہ اٹھائے ہیں، بلکہ اس سے جاہل رہنے کا بھی عزم کیے ہیں۔
قرآن مجید کے میزان اور فرقان ہونے کا اگر مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید ہر لحاظ سے خود مکتفی ہے، تو دین پورے کا پورے قرآن مجید سے ماخوذ ہونا چاہیے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کے احکام بھی قرآن مجید میں شرح و بسط سے بیان ہونے چاہیے۔ سنت کا علم ہمیں اجماع و تواتر سے حاصل ہوتا ہے اور یہ دین کا دوسرا ماخذ ہے، تو لامحالہ قرآن مجید اپنے سے غیر پر اپنی تشریح کا محتاج ہے۔ سنت کی دوسری صورت آحاد کی اخبار ہیں۔ ان کی احتیاج متواتر سنت سے الگ ہے۔ امام شافعی جب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کے مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مجمل احکامات کو تفصیل دیتے ہیں۔ اس کی مرادات کو واضح فرماتے ہیں۔ اگر کوئی حکم عام ہے اور وہ خاص کے اسلوب میں بیان ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے واضح فرماتے۔ محرماتِ طعام کو چار تک محدود اس لیے نہیں کیا جاتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے احکام نے واضح فرما دیا کہ اس آیت کا مفہوم ایجابی نہیں، سلبی ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہمارے سامنے نہ ہوتا، تو ہم اس حکم کو ایجابی تصور کرتے اور محرمات کو ان چار تک محدود کردینے کی غلطی میں مبتلا ہو جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نے ہمیں سمجھنے کی وجہ فراہم کی کہ ہم اس حکم کو حصر پر محمول نہ کریں، بلکہ بیانِ حرمت تصور کریں۔ اگر سنت پیش نظر نہ ہو، تو اس جملہ کی ترکیب اور لفظوں کی تنظیم حصر کی جانب اشارہ کرتی یے، جو خلافِ مدعا ہے۔ یعنی متکلم کا منشاء سمجھنے کی غلطی لگنے کا قوی امکان ہے۔ یہ امکان محض سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت رفع ہوتا ہے۔