نسخ القرآن بالسنة” ناجائز ہونے پر غامدی صاحب کے استدلال میں اضطراب

Published On September 10, 2024
جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ

غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب غامدی صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ظالموں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے، تو فرماتے ہیں کہ میری مذمت سے کیا ہوتا ہے؟ اور پھر اپنے اس یک رخے پن کےلیے جواز تراشتے ہوئے انبیاے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیں...

فکرِ فراہی کا سقم

فکرِ فراہی کا سقم

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ روایتی علوم کی متداول تنقید میں ان جواب تھا۔ لیکن وہ تمام فکری تسامحات ان میں پوری قوت کے ساتھ موجود تھے جو روایتی مذہبی علوم اور ان کے ماہرین میں پائے جاتے ہیں۔ عربی زبان و بیان کے تناظر میں قرآن...

ڈاکٹر زاہد مغل

نفس مسئلہ پر جناب غامدی صاحب بیان کے مفہوم سے استدلال وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم ان کا استدلال لفظ “بیان” سے کسی صورت تام نہیں۔ یہاں ہم اسے واضح کرتے ہیں۔

قرآن اور نبی کا باہمی تعلق کس اصول پر استوار ہے؟ کتاب “برھان” میں غامدی صاحب اس سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ تعلق “قرآن کے مبین” ہونے کا ہے اور دلیل سورۃ نحل کی آیت 44 سے دی گئی، اس مفروضے پر کہ بطور مبین نبیﷺ قرآن کے کسی حکم کے ناسخ نہیں ہوسکتے اس لئے کہ بیان اور نسخ متضاد ہیں۔

پھر جب یہ دکھا دیا جائے کہ نسخ بھی علم و عقل کے پیمانے پر بیان ہی ہے اور اہل لغت نے بھی نسخ کے بیان سے خارج ہونے کی کوئی دلیل نہیں دی، تو جواب ملتا ہے کہ سورۃ نحل کی آیت 44 میں تبیین کا مطلب شرح و مراد بتانا نہیں بلکہ کتمان حق کے رویے کے برخلاف قرآن کا “ابلاغ و اظہار” ہے۔ لہذا اس آیت سے نسخ القرآن بالسنة اخذ کرنے کی راہ نہیں۔

ایک لمحے کے لئے فرض کرلیتے ہیں کہ ابلاغ و شرح میں تباین کی ایسی نسبت ہے کہ ان دونوں کو جمع کرنا ممکن نہیں۔ لیکن اس کے بعد سوال یہ ہے کہ اگر سورۃ نحل کی آیت 44 میں تبیین کا مطلب “مانزل الیھم” کا اظہار و ابلاغ ہے، تو قرآن و حدیث کے مابین جس مخصوص معنی والے تعلق پر آپ اصرار کرتے ہیں (یعنی بیان ایک خاص معنی والی شرح) وہ کس آیت سے ماخوذ ہے؟ ظاہر ہے اس کے لئے سورۃ نحل کی یہ آیت پیش نہیں کی جاسکتی کہ یہاں شرح کے معنی کو آپ نے خود ہی روول آؤٹ کرکے استدلال کی بنیاد ختم کردی۔ تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ نبی قرآن کے احکام کی ایک خاص مفہوم والی تبیین ہی کرسکتے ہیں؟

اس کا ایک ممکنہ جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ یہ تعلق قرآن کی ان نصوص پر مبنی ہے جہاں کہا گیا کہ نبی کی اتباع و اطاعت کرو نیز جب نبی کوئی حکم دے دیں تو اس کی مخالف جائز نہیں وغیرہ۔ لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ نبی ایسا ہی حکم دے سکتے ہیں جو آپ کے خاص معنی والا “بیان” ہے نیز یہ کہ اس میں نسخ شامل نہیں ہوسکتا؟ ان دو دعووں کے دلیل کیا ہے؟

ممکنہ طور پر دوسرا جواب یہ دیا جاسکتا ہے یہ حضرات توسعاً ہی سہی سورۃ نحل کی آیت 44 میں تبیین سے شرح مراد لینے کے قائل ہیں۔ اس کا پہلا مطلب یہ ہوا کہ آپ ان دونوں معنی کو ایک ساتھ جمع کرنے کے قائل ہیں اور ان میں تباین کی نسبت نہیں دیکھتے۔ ہم بر سبیل تنزیل آپ کا یہ مفروضہ بھی مان لیتے ہیں کہ بیان میں نسخ شامل نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ نبی نسخ نہیں کرسکتے؟ اس آیت میں تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ نبی قرآن کی تبیین کرتے ہیں، اس سے یہ مفہوم کیسے ثابت ہوا کہ اس کے سوا کچھ نہیں کرتے؟ آیت سے آپ کا استدلال تبھی تام ہوسکتا ہے جب آپ دو میں سے کوئی ایک مفروضہ لیں:

الف) یہ آیت قرآن و نبی کے تعلق کے حصر کو لازم ہے

ب) آیت کے مفہوم مخالف سے استدلال کرتے ہوئے بیان کے سوا دیگر امور کی نفی کی جائے

اہل علم پر ان دونوں مفروضوں کا ضعف واضح ہے۔

معلوم ہوا کہ نسخ القرآن بالسنة کی ممانعت میں غامدی صاحب کا اصل استدلال نہ قرآن مجید کی وہ آیات ہوسکتی ہیں جن میں نبی کی اتباع و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی سورۃ نحل کی آیت 44 ہوسکتی ہے اگرچہ یہ بار بار اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا اصل استدلال یہ دعوی ہے کہ “قرآن چونکہ میزان ہے لہذا سنت اسے منسوخ نہیں کرسکتی کیونکہ کوئی شے اسے تبدیل نہیں کرسکتی”۔ یہ دلیل ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ مبہم بھی ہے۔ ضعف کا پہلو یہ ہے کہ نسخ کو خوامخواہ قرآن کو تبدیل کرنے کے معنی میں فرض کرلیا گیا ہے۔ مبہم ہونے کا پہلو یہ ہے کہ سورة شوری کی متعلقہ آیت میں لفظ میزان اس مفہوم پر تام نہیں جس کے وہ مدعی ہیں اور نہ ہی وہاں قرآن و نبی کا تعلق زیر بحث ہے۔ اس پر ہم پہلے ہی الگ سے بات کرچکے ہیں۔

آپ کا دعوی ہے کہ قرآن میزان ہے جس پر ہر بات کو تولا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ھم نے قرآن پر تول کر اس بات کو جان لیا کہ اگر کسی معاملے میں قرآن میں کوئی معین حکم سرے سے موجود نہ ہو اور وہاں نبیﷺ سے کوئی حکم ملے تو اسے خدا کا حکم سمجھ کر اتباع کرنا واجب ہے۔ اس کیٹیگری کے آپ بھی بصورت اپنے مفہوم والی سنت قائل ہیں۔ اسی تول سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اگر نبی قرآن میں مذکور کسی حکم کے بارے میں یہ بتا دیں کہ کسی حکم سے متعلق خدا کی مراد فلاں اشخاص و صورتوں سے متعلق ہی تھی نیز فلاں زمانے سے متعلق تھی تو نبی کی اس بات کے خدا کی طرف سے ہونے کو قبول کیا جانا پہلی کیٹیگری سے زیادہ آسان ہے۔ آخر اسے غلط کہنے کی دلیل کیا ہے؟ اس پر اگر یہ کہا جائے کہ نبی تو قرآن سے متعلق کوئی ایسا حکم جاری نہیں کرسکتے اس لئے کہ ازروئے قرآن ان کا کردار قرآن کے مبین کا ہے تو یہ سرکلر آرگومنٹ ہے کیونکہ یہ پہلے ہی اسٹبلش کیا جاچکا کہ اس آیت سے یہ استدلال تام نہیں، تبھی تو “قرآن میزان ہے” کی جانب رجوع کیا گیا تھا۔

بشکریہ دلیل

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…