اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

Published On October 31, 2024
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ  اقدامات صحابہ اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ قرآن وحدیث کے بعد اگلا مقدمہ یہ قائم کرتے ہیں کہ صحابہ کے جنگی اقدامات کے جغرافیائی  اہداف محدود اور متعین تھے اور وہ جہاد اور فتوحات کے دائرے کو وسیع کرنے کی بجائے محدود رکھنے کے خواہش...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ احادیث اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو کوئی بھی ایک حدیث ایسی پیش نہیں کر سکے جو اس بات کی تائید کرے کہ جہاد کے اہداف محدود ہیں اور اس مشن کے پیش نظر صرف روم اور فارس کی سلطنتیں ہیں ۔ تاہم ایک حدیث ایسی...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ احکامات اسلام اور خطابات قرآنیہ کی عمومیت:۔ غامدی حضرات کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اقدامی قتال یا اسلام ، جزیہ اور قتل کا مطالبہ سامنے رکھنا عام خلاقی دائرے سے باہر ہے اس لیے وہ آیات واحادیث جن میں اس قسم کے احکامات مذکور ہیں ان کے...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط سوم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط سوم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ منصب رسالت اور اس پر متفرع احکام کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ: ۔ ۔1 ۔  منصب رسالت اور نبوت میں یہ تفریق کوئی قطعی بات نہیں ، اس سے اختلاف کی گنجائش ہے اور ہوا بھی ہے اور یہ رائے زیادہ وزنی بھی نہیں ۔ اس کی بنیاد پر قرآنی آیات و...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط دوم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط دوم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ   قرآن اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ قرآن میں جہاد اقدامی اور اس کے عموم اور تا ئید کے سلسلے میں واضح احکامات موجود ہیں جن سے انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ آسانی کے ساتھ انہیں نظر انداز کیا جا...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط اول )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط اول )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ اسلام کا جنگی نظام " جہاد " عرصہ دراز سے مخالفین اسلام کے طعن و تشنیع اور اعتراضات کا ہدف رہا ہے۔ علماء امت ہر زمانے میں اس کے جوابات بھی دیتے رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں جب سے برقی ایجادات عام ہو ئیں ، پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ پوری...

ڈاکٹر محمد مشتاق

ردِّ عمل کی نفسیات

نائن الیون کے بعد پاکستان میں بم دھماکوں اورخود کش حملوں کا بھی ایک طویل سلسلہ چل پڑا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے علاوہ سوات اور دیر میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کیے گئے۔ جنرل مشرف اور حکومت کا ساتھ دینے کی پاداش میں غامدی صاحب اور ان کے ساتھیوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوششیں کی گئیں اور ان کے شاگرد رشید جناب سید منظور الحسن قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے۔ ڈاکٹر فاروق صاحب کو، جو فوجی آپریشن کے دوران میں بھی مسلسل سوات جا کر یونیورسٹی کے پروجیکٹ پر کام کرتے رہے،2 اکتوبر 2010ء کو ان کے کلینک واقع مردان میں شہید کیا گیا۔ غامدی صاحب کو بھی ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ چنانچہ پہلے وہ کچھ عرصہ ملیشیا میں مقیم رہے اور پھر امریکا میں مستقل اقامت اختیار کرلی۔
پاکستان میں تشدد اور دہشت گردی کی لہر اس وقت اپنی انتہا کو پہنچی جب 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے بچوں اور اساتذہ کا قتلِ عام کیا۔ اس کے بعد ایک جانب ریاست نے پوری قوت استعمال کرنے کا ارادہ کیا اور نہ صرف فوجی آپریشن میں تیزی لائی گئی، بلکہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کےلیے 7 جنوری 2015ء کو آئین میں اکیسویں ترمیم بھی کرلی۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں غامدی صاحب نے ’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے کالم لکھا جو 22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ میں شائع کیا گیا۔

ریاستی پالیسی کا اظہاریہ

اس پس منظر سے معلوم ہوا کہ جسے جناب غامدی جوابی بیانیہ کہہ رہے ہیں، وہ دراصل ریاستی پالیسی کا اظہاریہ ہے اور اس حیثیت سے اس میں اور بعض نامی گرامی علماے کرام کے دستخطوں سے جاری کے گئے اعلامیہ ’پیغامِ پاکستان‘ میں کوئی فرق نہیں کہ دونوں کے ذریعے ریاست نے مذہب کے نام پر جاری تشدد اور دہشت گردی کا نظریاتی سطح پر مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ ہو یا علماے کرام کا پیغامِ پاکستان، کوئی بھی از دل خیزد نہیں تھا اور اس وجہ سے کسی کو بھی بر دل ریزد نہیں کہا جاسکتا۔ سرکاری پروپیگنڈا مشین کا شور و غوغا ہے اور بس۔
’کافر‘ اور ’غیر مسلم‘ کے فرق کا مسئلہ ہی لے لیجیے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور کی درج ذیل تحریر میں غامدی صاحب اتمامِ حجت کے تصور کو ماننے کے باوجود بلاغت کا پورا زور لگا کر یہ بتاتے ہیں کہ جن غیر مسلموں تک رسول اللہ ﷺ کی دعوت پہنچی اور انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا، ان کا ٹھکانہ جہنم ہے

۔”ہر وہ غیر مسلم جسے نبی ﷺ کی دعوت پہنچی اور اس نے اس سے بے پروائی کی یا جان بوجھ کر اسے رد کردیا، اس نے یقیناً کفر کیا اور کفر کی سزا، قرآن مجید کی رو سے، جہنم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسی نعمت اس لیے عطا نہیں فرمائی کہ وہ دنیوی معاملات میں تو اس سے پوری طرح کام لے اور خود اس کی ہدایت کے معاملے میں اسے معطل کردے۔کسی شخص کو اگر یہ بتایا جاتا ہے کہ عرب کے ایک امی ﷺ نے دعوی کیا تھا کہ وہ اس عالم کے پروردگار کی طرف سے پیغامِ ہدایت لے کر آیا ہے اور یہ پیغامِ ہدایت آج بھی قرآن مجید کی صورت میں ا س زمین پر موجود ہے، تو عقل کا تقاضایہی ہے کہ وہ سب کام چھوڑ کر اس پر غور کرے۔ یہ کوئی معمولی خبر نہیں ہے کہ اس نےسنا اور نظر انداز کردیا۔ یہ اس زمین پر انسان کےلیے سب سے بڑی خبر ہے۔اسے چاہیے کہ وہ اس خبر کو پوری توجہ کے ساتھ سنے اور پوری دیانت داری کے ساتھ اس کے بارے میں ردّ و قبول کا فیصلہ کرے۔ وہ اگر اس خبر سے بے پروائی برتتا ہے تو اس کے معنی یہی ہیں کہ وہ درحقیقت عالم کے پادشاہ سے بے پروائی برت رہا ہے۔ اس کے بعد اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ قیامت کے دن اس پادشاہ کو اس کی کچھ بھی پروا ہوگی۔ وہ اگر اس دن کمال بے نیازی کے ساتھ اسے جہنم میں ڈالنے کا حکم دے گا، تو اس پر وہ یقیناً شکایت کا حق نہیں رکھتا۔ یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کی سزا جہنم ہی ہونی چاہیے۔ عقل کا قطعی فیصلہ یہی ہے اور کوئی انصاف پسند آدمی اسے ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔”۔

اگلے مرحلے میں جب ریاستی پالیسی تبدیل ہوگئی اور جنرل پرویز مشرف کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا دور آگیا، تو غامدی صاحب اس کے قائل ہوگئے کہ کسی کو غیر مسلم تو قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن کافر نہیں، کیونکہ صرف کافر انھی کو کہا جاسکتا ہے جن پر رسول نے خود اتمامِ حجت کیا ہو

۔”اسلامی شریعت کے مطابق کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا، حتی کہ کوئی اسلامی ریاست بھی کسی کی تکفیر کا حق نہیں رکھتی۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی ہے کہ اسلام سے واضح انحراف کی صورت میں کسی شخص یا گروہ کو غیر مسلم قرار دے۔”۔

اس کے بعد جب نائن الیون ہوا اور ریاست اپنے مذہبی بیانیے سے یکسر منحرف ہوگئی، تو غامدی صاحب نے یہ موقف اختیار کیاکہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور یہ کہ جو شخص خود کو مسلمان کہتا ہو، اسے غیرمسلم بھی نہیں قرار دیا جاسکتا، خواہ اس کے عقائد قطعی طور پر اسلام کے مسلّمہ عقائد سے کے منافی ہوں

۔”اِن کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِن نظریات و عقائد کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طریقے سے ہو ں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے نظریات و عقائد میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔”۔

ان تینوں مرحلوں میں ان کا استدلال اتمام حجت کے نظریے سے ہی تھا اور تینوں مرحلوں میں وہ اپنی بات کو پوری قعطعیت کے ساتھ (’ہر شخص جانتا ہے‘) دین کے واحد صحیح حکم کے طور پر پیش کرتے تھے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ غامدی صاحب کے فکری ارتقا کی منزلیں ہیں کیونکہ اس بات کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی کہ ان تینوں مرحلوں میں ہر مرحلے پر ان کے فکری ارتقا کا سفر عین اسی سمت میں کیوں ہوا جو سمت ریاست نے اپنی پالیسی کےلیے چنی تھی؟
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ کوئی دینی موقف نہیں، بلکہ اسلام اور سیاست کے متعلق ریاست کی رائج الوقت پالیسی کا اظہاریہ ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…