اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط اول

Published On October 31, 2024
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

ڈاکٹر محمد مشتاق

۔22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ نے’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے جناب غامدی کا ایک کالم شائع کیا۔ اس’جوابی بیانیے‘ کے ذریعے غامدی صاحب نے نہ صرف ’دہشت گردی‘کو مذہبی تصورات کے ساتھ جوڑا، بلکہ دہشت گردی پر تنقید میں آگے بڑھ کر اسلامی قانون کے مسلّمہ اصولوں اور مسلمانوں کی علمی روایت کے اساسی تصورات ہی کی نفی کردی۔ بعض علماے کرام نے ان کے جواب میں مختصر تحریریں لکھیں، لیکن ضرورت اس امر کی تھی کہ غامدی صاحب کے اس جوابی بیانیے کا پس منظر پیش کیا جائے کیونکہ راقم کی ناقص راے میں اس پس منظر کی وضاحت کے بغیر اس کی درست تفہیم ممکن نہیں ہے۔اس باب میں اس جوابی بیانیے کاپس منظر اسی مقصد سے پیش کیا جارہا ہے۔

آزادی سے قبل اسلامی سیاسی نظام کی بحث

۔1930ء کی دہائی میں جب برصغیر میں آزادی کی تحریک ایک اہم مرحلے میں داخل ہوگئی تھی، مولانا مودودی نے ماہنامہ ترجمان القرآن میں مضامین کا ایک اہم سلسلہ شروع کیا جو بعد میں کتابی صورت میں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش کے عنوان سے شائع کیے گئے۔ اس سلسلۂ مضامین میں نہ صرف مسلمانانِ ہند کے عملی سیاسی مسائل پر بحث تھی، بلکہ سیاست و ریاست کے اہم موضوعات پر اسلامی اصولی مباحث بھی شامل تھے۔ یہ نظری بحث جلد ہی عملی جدوجہد میں تبدیل ہوگئی جب 26 اگست 1941ء کو جماعتِ اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جماعت اسلامی میں آنے سے قبل مولانا اصلاحی کا موقف متحدہ قومیت کے نظریے سے قریب تھا، جس پر مولانا مودودی نے تنقید کی، لیکن جب جماعتِ اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا، تو مولانا اصلاحی ابتدا سے ہی اس کا حصہ بن گئے تھے۔اگلے تقریباً ڈیڑھ عشرے تک وہ جماعتِ اسلامی کا حصہ رہے اور اس کے نظم کا حصہ بن کر عملی سیاسی جدوجہد میں بھی شریک رہے اور سیاست، ریاست اور قانون کے بعض اہم موضوعات پر مضامین اور کتب بھی لکھیں۔ نیز آپ نے مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی کے دفاع میں کتابیں بھی لکھیں۔ مولانا اصلاحی کا درج ذیل اقتباس اسلام اور ریاست کے تعلق پر ان کے موقف کی توضیح کےلیے کافی ہے

“انسانی قانون کے قانون ہونے کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ اس کو شیخِ قبیلہ یا بزرگ ِ خاندان کی منظوری حاصل ہے ، یا کسی عدالت نے اس پر عمل کیا ہے ، یاکسی حکومت نے اس کوتسلیم کیا ہے ۔ ۔۔ برعکس اس کے اسلامی قانون کی قانونیت ان چیزوں میں سے کسی چیز کی بھی محتاج نہیں ہے ۔ وہ بہرحال قانون ہے کوئی عدالت اسے مانے یا نہ مانے ، اور کوئی حکومت اسے تسلیم کرے یا نہ کرے ۔ وہ اس کائنات کے حقیقی مالک اور حکمران کا قانون ہے ۔ اگر کوئی عدالت یا حکومت اس کو تسلیم نہیں کرتی تو اس کے تسلیم نہ کرنے سے اس کی قانونیت متاثر نہیں ہوتی ،بلکہ خود وہ عدالت یا حکومت نافرمانی اور بغاوت کی مجرم ٹھہرتی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا ہے : وَمَن لَّمۡ يَحۡكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ( اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہی لوگ نافرمان ہیں )۔”

مولانا اصلاحی کی جماعتِ اسلامی سے علیحدگی کا سبب یہ نہیں تھا کہ اسلام اور سیاست کے متعلق آپ کا اصولی موقف تبدیل ہوگیا ہو، بلکہ اختلاف کا تعلق جماعت کے امیر کے اختیارات اور مناسب تیاری سے قبل انتخابی سیاست میں شرکت کے فیصلےسے تھا۔

اقامتِ دین اور غلبۂ دین کے متعلق مولانا اصلاحی کا موقف

جماعتِ اسلامی سے الگ ہونے کے بعد بھی مولانا اصلاحی نے نظری طور پر اسلام اور سیاست کے تعلق پر مولانا مودودی کے موقف کے ساتھ کسی جوہری اختلاف کا اظہار نہیں کیا اور عملی طور پر بھی کچھ عرصے تک مولانا اصلاحی نے پاکستانی ریاستی قوانین کی ’اسلام کاری‘ اسلامائزیشن کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ انھوں نے اس مقصد کےلیے کام نہ صرف انفرادی سطح پر، بلکہ ریاستی ادارے کا حصہ بن کر بھی کیا۔ پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956ء کو نافذ کیا گیا۔ اس آئین میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان میں اسلامی احکام سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، نیز رائج الوقت تمام قوانین کو اسلامی احکام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے گا۔ اس مقصد کےلیے پارلیمان کی رہنمائی اور معاونت کےلیے 22مارچ 1957ء کو ایک کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور مولانا اصلاحی کو اس کا رکن بنایا گیا۔ کمیشن نے کچھ عرصہ کام کیا لیکن اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کرکے آئین کو معطل کردیا ، تو یہ کمیشن بھی ختم ہوگیا۔

مولانا مودودی کے تصورِ دین پر تنقید

اسلام اور سیاست کے موضوع پر مولانا مودودی کے زاویۂ نظر سے مولانا اصلاحی نے تو نہیں، لیکن بعض دیگر اہلِ علم نے اختلاف کیا مگر یہ اختلاف زیادہ تر اسلوب پر گرفت یا ترجیحات کے تعین کے بارے میں تھا۔ البتہ مولانا وحید الدین خاں (م:2021ء) کی تنقید کی نوعیت مختلف تھی۔انھوں نے مولانا مودودی کے ’سیاسی اسلام‘ کو ’تعبیر کی غلطی‘ قرار دے کر ان کے تصورِ دین کو ہی ہدف بنایا۔ جناب غامدی خود کچھ عرصہ جماعتِ اسلامی سے وابستہ رہے۔ پھر کچھ گفتہ اور کچھ ناگفتہ وجوہات کی بنا پر ان کا جماعتِ اسلامی کے ساتھ تعلق ختم ہوگیا۔ 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…