بیس رکعت تراویح اور غامدی صاحب کا موقف

Published On July 15, 2024
غامدی صاحب اور حدیث

غامدی صاحب اور حدیث

مقدمہ 1: غامدی صاحب اپنا ایک اصول حدیث لکھتے ہیں کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنہیں بالعموم 'حدیث' کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔" (...

غامدی صاحب اور شرعی پردہ

غامدی صاحب اور شرعی پردہ

عور ت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید احمدغامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں ہے بلکہ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں :کبھی فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے چادر، برقعے، دوپٹے اور اوڑھنی کا تعلق دورنبوی کی عرب تہذیب و تمدن سے ہے اور اسلام میں ان کے بارے میں...

غامدی صاحب اور مرتد کی سزا

غامدی صاحب اور مرتد کی سزا

نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كی مستند احادیث كى بنا پر علماے امت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے،  كتب ِاحاديث اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفاے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ،  ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدوں کیخلاف...

قرآن اور غامدی صاحب

قرآن اور غامدی صاحب

ایک تحریر میں ہم غامدی صاحب کی قرآن کی معنوی تحریف کی چند مثالیں پیش کرچکے مزید ایک تشریح ملاحظہ فرمائیں۔غامدى صاحب 'اسلام كے حدود و تعزيرات' پر خامہ سرائى كرتے ہوئے لكھتے ہيں: "موت كى سزا قرآن كى رو سے قتل اور فساد فى الارض كے سوا كسى جرم ميں نہيں دى جاسكتى- اللہ...

رجم کی حد اور غامدی صاحب

رجم کی حد اور غامدی صاحب

اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے  اس پر دس سے زائد صحیح احادیث موجود ہیں  جن سے  واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ آزاد زانیوں پر کوڑوں کی بجائے رجم کی سزانافذ کی۔ ۔ غامدی صاحب اسکے انکاری ہیں ۔ وہ...

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے جمعے کی نماز کی فرضیت کا بھی انکار کر دیا ہے ۔ اور روزے کی رخصت میں بھی توسیع فرما دی ہے ۔ جمعے کی نماز کی عدمِ فرضیت پر جناب کا استدلال ہے کہ مسلم ریاست میں خطبہ سربراہِ ریاست یا اسکے حکم سے اسکے نمائندے کا حق...

سوال : جاوید احمد غامدی کے نزدیک تراویح کی نماز سرے سے ہے ہی نہیں, برائے کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں؟

جواب

بیس رکعت تراویح ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا، البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین روز تراویح کی باقاعدہ امامت بھی فرمائی تھی، لیکن صحابہ کے شوق اور جذبہ کو دیکھتے ہوئے تیسرے یا چوتھے روز امامت کے لیے تشریف نہ لائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے مبارک کے باہر انتظار کرتے رہے اور اس خیال سے کہ نبی اکرم صلی علیہ وسلم سو نہ گئے ہوں بعض صحابہ کھنکارنے لگے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردی جائیں؛ اگر فرض کردی گئیں تو تم ادا نہیں کرسکو گے؛ لہذا اے لوگو!  اپنے گھروں میں ادا کرو۔ (متفق علیہ) جب کہ آپ علیہ السلام کا ماہِ رمضان میں بذاتِ خود جماعت کے بغیر بیس رکعت تراویح اور وتر ادا کرنے کا معمول تھا، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے

’’عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كان النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة و الوتر‘‘. ( كتاب الصلاة، باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان، ٢ ٤٩٦، ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

’’عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر‘‘. (كتاب صلاة التطوع و الإمامة وأبواب متفرقة، كم يصلي في رمضان ركعة ٢/ ٢٨٦، ط: طیب اکیڈمی )

(المعجم الأوسط للطبراني، رقم الحديث: ٧٨٩، (١/ ٢٣٣) و رقم الحديث: ٥٤٤٠، (٤/ ١٢٦) ط: دار الفكر)

بیس رکعت تراویح ادا کرنا صحابہ کرام کا بھی معمول تھا یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت بیس رکعت تراویح کا اہتمام مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں کروایا تو ان پر نہ کسی نے نکیر فرمائی اور نہ ہی کسی نے مخالفت کی، بلکہ تمام صحابہ کرام نے باجماعت تراویح کے اہتمام پر اجماع کیا، اور اس وقت سے لے کر آج تک تمام فقہاءِ کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع ہے اور تمام فقہاء کے نزدیک بھی بیس رکعت تراویح سنتِ مؤکدہ  ہے ، اور بلاعذر اس کاتارک گناہ گار ہے، اور بیس رکعت تراویح کا انکارنصوصِ شرعیہ سے ناواقفیت، جمہور فقہا ءِ کرم کی مخالفت اور گم راہی ہے۔

مرقاةاالمفاتیحمیں ہے

’’لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً‘‘. (كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ٣/ ٣٨٢، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے: ’’التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين‘‘. (كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، ٢/ ٤٣، ط: سعيد) فقط واللہ اعلم

 

فتوی نمبر : 143909200213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…