بیس رکعت تراویح اور غامدی صاحب کا موقف

Published On July 15, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے جو تیسری آیت اس سلسلہ میں استدلال کے لیے پیش کی ہے  وہ سورۃ المائدہ کی 48 نمبر آیت ہے ۔وہ پھر ان تین آیتوں سے کچھ  مصنوعی قواعد بناتے ہیں ۔ جس کا ہم آگے چل کر تجزیہ پیش کرینگے ۔ مگر اس آیت کا تعلق  ماضی کے صحیفوں سے ہے ۔کہ قرآن ان پر...

دورانِ عدت نکاح پر غامدی صاحب کی غلط فہمیاں

دورانِ عدت نکاح پر غامدی صاحب کی غلط فہمیاں

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 7)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے قرآن مجید کے متعلق بھی مختصر سی بحث کی ہے ۔جس پر بہت کچھ کہنے کے لیے موجود ہے  مگر ہم اس کی تفصیل کرنے سے بقصدِ اختصار اعراض کرتے ہیں ۔ جناب نے قرآن کے اوصاف میں ایک وصف ،، فرقان ،،  ذکر کیاہے ۔اور دوسرا وصف ،، میزان ،، ذکرکیاہے ۔پھراس...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 6)

مولانا واصل واسطی ہم اس وقت ،، حدیث وسنت ،، کے موضوع سے ایک اور بحث کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ کیونکہ جناب غامدی نے ،، حدیث اور سنت ،، نے مبحث کو مختلف مقامات میں پھیلا رکھاہے۔درمیان میں دیگر مباحث چھیڑ دیئے ہیں ، ہم بھی انہیں کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جاوید غامدی نے...

غامدی اور خضریاسین: تفسیر وتفہیم کے معاملے پر میرا نقطہ نظر

غامدی اور خضریاسین: تفسیر وتفہیم کے معاملے پر میرا نقطہ نظر

گل رحمان ہمدرد غامدی صاحب نے مقامات میں دبستانِ شبلی کے بارے بتایا ہے کہ اس کے دو اساسی اصولوں میں سے ایک اصول یہ تھا کہ دین کی حقیقت جاننے کےلیۓ ہمیں پیچھے کی طرف جانا ہوگا ”یہاں تک کہ اُس دور میں پہنچ جاٸیں جب قرآن اتر رہا تھا اور جب خدا کا آخری پیغمبر خود انسانوں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)

مولانا واصل واسطی ہم نے اوپر جناب غامدی کی ایک عبارت پیش کی ہے کہ ،، چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیاجاسکتاہے (میزان ص15) میں نے کہیں جناب غامدی کا اپنا قول غالبا،، اشراق ،، کے کسی شمارے میں...

سوال : جاوید احمد غامدی کے نزدیک تراویح کی نماز سرے سے ہے ہی نہیں, برائے کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں؟

جواب

بیس رکعت تراویح ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا، البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین روز تراویح کی باقاعدہ امامت بھی فرمائی تھی، لیکن صحابہ کے شوق اور جذبہ کو دیکھتے ہوئے تیسرے یا چوتھے روز امامت کے لیے تشریف نہ لائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے مبارک کے باہر انتظار کرتے رہے اور اس خیال سے کہ نبی اکرم صلی علیہ وسلم سو نہ گئے ہوں بعض صحابہ کھنکارنے لگے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردی جائیں؛ اگر فرض کردی گئیں تو تم ادا نہیں کرسکو گے؛ لہذا اے لوگو!  اپنے گھروں میں ادا کرو۔ (متفق علیہ) جب کہ آپ علیہ السلام کا ماہِ رمضان میں بذاتِ خود جماعت کے بغیر بیس رکعت تراویح اور وتر ادا کرنے کا معمول تھا، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے

’’عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كان النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة و الوتر‘‘. ( كتاب الصلاة، باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان، ٢ ٤٩٦، ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

’’عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر‘‘. (كتاب صلاة التطوع و الإمامة وأبواب متفرقة، كم يصلي في رمضان ركعة ٢/ ٢٨٦، ط: طیب اکیڈمی )

(المعجم الأوسط للطبراني، رقم الحديث: ٧٨٩، (١/ ٢٣٣) و رقم الحديث: ٥٤٤٠، (٤/ ١٢٦) ط: دار الفكر)

بیس رکعت تراویح ادا کرنا صحابہ کرام کا بھی معمول تھا یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت بیس رکعت تراویح کا اہتمام مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں کروایا تو ان پر نہ کسی نے نکیر فرمائی اور نہ ہی کسی نے مخالفت کی، بلکہ تمام صحابہ کرام نے باجماعت تراویح کے اہتمام پر اجماع کیا، اور اس وقت سے لے کر آج تک تمام فقہاءِ کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع ہے اور تمام فقہاء کے نزدیک بھی بیس رکعت تراویح سنتِ مؤکدہ  ہے ، اور بلاعذر اس کاتارک گناہ گار ہے، اور بیس رکعت تراویح کا انکارنصوصِ شرعیہ سے ناواقفیت، جمہور فقہا ءِ کرم کی مخالفت اور گم راہی ہے۔

مرقاةاالمفاتیحمیں ہے

’’لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً‘‘. (كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ٣/ ٣٨٢، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے: ’’التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين‘‘. (كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، ٢/ ٤٣، ط: سعيد) فقط واللہ اعلم

 

فتوی نمبر : 143909200213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.