ڈاکٹر محمد مشتاق بادشاہ کے بجائے بادشاہ گر یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان اسلامک فرنٹ کے تجربے کی ناکامی کے بعد بھی غامدی صاحب اور آپ کے ساتھی عملی سیاست سے یکسر الگ تھلگ نہیں ہوئے اور اگلے تجربے کےلیے انھوں نے پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان کی طرف رخ کیا۔ ڈاکٹر...
ریاست اور مذہب کا تعلق غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ، خود اُن کی عدالت میں (دوسری قسط)
اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط دوم
ڈاکٹر محمد مشتاق اتمامِ حجت اور تاویل کی غلطی ۔1980ء کی دہائی کے وسط میں جناب غامدی نے ’نبی اور رسول‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو اس وقت میزان حصۂ اول میں شائع کیا گیا۔ یہ مضمون دراصل مولانا اصلاحی کے تصور ’اتمامِ حجت‘ کی توضیح پر مبنی تھا اور اس میں انھوں نے مولانا...
اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط اول
ڈاکٹر محمد مشتاق ۔22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ نے’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے جناب غامدی کا ایک کالم شائع کیا۔ اس’جوابی بیانیے‘ کے ذریعے غامدی صاحب نے نہ صرف ’دہشت گردی‘کو مذہبی تصورات کے ساتھ جوڑا، بلکہ دہشت گردی پر تنقید میں آگے بڑھ کر اسلامی...
فہم نزول عیسی اور غامدی صاحب
حسن بن علی غامدی صاحب نے بشمول دیگر دلائل صحیح مسلم کی حدیث (7278، طبعہ دار السلام) کو بنیاد بناتے ہوئے سیدنا مسیح کی آمد ثانی کا انکار کیا ہے. حدیث کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ رومی...
تراث ، وراثت اور غامدی صاحب : حصہ دوم
حسن بن علی اسی طرح تقسیم میراث کے دوران مسئلہ مشرکہ (حماریہ یا ہجریہ) کا وجود مسلم حقيقت ہے جس کے شواہد روایتوں میں موجود ہیں لیکن غامدی صاحب (سورۃ النساء آيت 12 اور آیت 176) كى خود ساختہ تفسیر کے نتیجے میں یہ مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا. اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ...
سنت نبوی اور ہمارے مغرب پرست دانشوروں کی بیہودہ تاویلیں
بشکریہ : ویب سائٹ " بنیاد پرست"۔ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم اور جدید تہذیب نے مسلمانوں کے ذہنوں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ، اس کی عجیب عجیب مثالیں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں، یہود ونصاری نے ہمارے جوانوں کی اس حد تک برین واشنگ کردی ہے کہ یہ نہ صرف جدید تہذیب و...
شکیل عثمانی
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اُن کی ویب سائٹ www.javedahmadghamidi.com
پر ان کے ایک لیکچر کی وڈیو بعنوان
Ghamidi on Ahmadiyya Prophethood claim
موجود ہے، جس میں انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت اور تحریکِ احمدیت پر گفتگو کی ہے۔ ہم نے جب اس لیکچر کو transcribe کرنے کا ارادہ کیا تو ایک دشواری پیش آئی کہ لیکچر کے دوران جب کوئی سامع سوال کرتا تھا تو غامدی صاحب اسی وقت اس کا جواب دیتے تھے۔ اتفاق سے سوالات انتہائی low volume میں ریکارڈ ہوئے ہیں اور تقریباً ناقابلِ فہم ہیں۔ اس طرح لیکچر کا ربط متأثر ہوتا ہے۔ ہم نے غامدی صاحب کے چند لیکچرز میں شرکت کی ہے، ان کے آڈیو کیسٹس بھی سنے ہیں، ایک کیسٹ کو transcribe بھی کیا ہے۔ وڈیو کیسٹس بھی دیکھے ہیں۔ ان لیکچرز میں جو روانی ہے ہمیں اس ویڈیو میں مفقود نظر آئی۔ اس میں جملوں کی ساخت اور الفاظ کی تقدیم اور تاخیر میں اُلجھائو ہے۔ ان وجوہات کے پیش نظر مناسب معلوم ہوا کہ اس لیکچر کا خلاصہ پیش کردیا جائے۔ یہ خلاصہ درج ذیل ہے: جاوید غامدی صاحب نے کہا:’’ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بنیادی طور پر صوفی تھے۔ تصوف سے اُن کا اشتغال تھا۔ آپ ان کی ابتدائی زندگی پڑھیں تو اوراد، وظائف اور چِلّے نظر آئیں گے۔ انہی چیزوں کو وہ بیان کرتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ آہستہ آہستہ انہوں نے پھر یہ کہا کہ میں مسیح موعود ہوں، پھر انہوں نے کہا میرا مطلب اصطلاحی نبوت نہیں ہے، میں تشریعی نبی نہیں ہوں، میں بروزی نبی ہوں، میں ظلی نبی ہوں۔ بروزی کا مطلب یہ ہے کہ بس جیسے مجھ پر نبوت کا ایک سایہ پڑرہا ہے، یا نبوت کا ایک پرتو میرے اندر آگیا ہے۔ اس طرح کی بہت سی باتیں انہوں نے فرمائیں اور پھر آہستہ آہستہ انہوں نے دبے دبے الفاظ میں ایسی باتیں بھی کہیں جن سے یہ معلوم ہوا کہ وہ اس زمانے کے نبی بنادیے گئے ہیں۔ لیکن میں آپ سے عرض کروں کہ خود مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی جو تحریریں ہیں، جتنی بھی ہیں، ان میں بالصراحت نبوت کے دعوے کی کوئی تحریر نہیں ہے۔ آپ ان کی تصانیف جو روحانی خزائن کے نام سے مختلف جلدوں میں چھپی ہیں، پڑھیں تو معلوم ہوگا ایسی ہی باتیں ہیں، یعنی انہوں نے اس بات کے بہت دلائل دیے ہیں کہ نبوت کا مطلب یہ ہے اور الہام جاری رہنا چاہیے، وحی جاری رہنی چاہیے، یہ خدا کی نعمت ہے، اس سے محروم کیسے ہوگئے؟ بنی اسرائیل میں سب لوگوں کو ہوتا تھا، محمد رسول اللہ کی امت کیوں محروم کردی گئی؟ اس طرح کے عقلی دلائل انہوں نے دیے۔ پھر الہام، وحی یعنی خدا سے رابطہ، اس کو انہوں نے اسی طرح کی تعبیروں میں بیان کیا جو تمام صوفیانہ تعبیرات ہیں، اور زندگی بھر کرتے رہے۔ اور پھر کسی موقع پر نبی کا لفظ استعمال کیا، تو انہوں نے کہا: میرا مطلب یہ ہے، یا میری مراد یہ ہے۔ ختم نبوت کے بارے میں بھی انہوں نے کہا کہ میں اس کا قائل ہوں، لیکن میرا مطلب یہ ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت سے مراد یہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد دو گروہ ہوگئے اور ان کے جو قدیم ترین صحابہ تھے، ان کی اصطلاح کے مطابق انہوں نے تو یہ کہا کہ ایسا نہیں تھا، وہ مجدد تھے۔ یہ جو لاہوری جماعت ہے وہ اسی تعبیر پر وجود میں آئی۔ مرزا بشیر الدین صاحب محمود‘ جو اُن کے فرزند تھے انہوں نے اصل میں اس کو زیادہ صریح کیا اورکہاکہ نہیں وہ باقاعدہ … ورنہ معاملہ ٹھیک ہوجاتا، اتنا ہی رہتا جتنا صوفیوں کا ہے۔ انہوں نے اس کو پھر اس منتہائے کمال تک پہنچادیا، جہاں پہ توضیح کی ضرورت نہ رہی۔ پھر وہ ]مرزاصاحب[ تو اپنی ہی نبوت کی بات کرتے تھے، بعد میں جب بحثا بحثی ہوئی، مناظرے ہوئے تو پھر یہ ہوا کہ نہیں نبوت کا دروازہ چوپٹ کھلا ہوا ہے، کل اور بھی آجائیں گے، یعنی معاملہ پھر ذرا مزید آگے بڑھ گیا۔ ان کے جو ابتدائی لوگ ہیں، یہ جو لاہوری جماعت کے جتنے لوگ ہیں وہ ان کے بڑے اکابر ہیں، معمولی لوگ نہیں ہیں۔ جہاں تک ان کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین صاحب کا تعلق ہے تو ان کے معاملے میں تو کوئی زیادہ اختلاف نہیں پیدا ہوا، لیکن ان کے بعد جب خلافت کا معاملہ ہوا تو یہ ساری بحث سامنے آئی۔ حکیم نورالدین صاحب کے زمانے میں بھی صورت حال یہ نہیں تھی، اس طرح کی یعنی صورت حال ایسی تھی جیسی میں نے آپ کو سنائی ہے اور زیادہ سے زیادہ بات جو وہ کہتے تھے وہ اسی طرح کی بات تھی، جیسے ابن عربی نے کہہ دی۔ ‘‘ نوٹ: احتیاط کے پیش نظر اس تلخیص میں غامدی صاحب کے اکثر اصل جملے شامل کیے گئے ہیں۔جاوید غامدی صاحب کے لیکچرکی اس تلخیص سے مندرجہ ذیل تین نکات اخذ ہوتے ہیں: ۱:۔۔۔۔مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تحریروں میں بالصراحت نبوت کے دعوے کی کوئی تحریر نہیں ہے۔ ۲:۔۔۔۔مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین، مرزا صاحب کو اصطلاحی نبی نہیں سمجھتے تھے۔ ۳:۔۔۔۔احمدیوں کا لاہوری فریق (مولوی محمد علی لاہوری گروپ) شروع سے مرزا صاحب کو مجدد سمجھتا رہا ہے۔ بہرحال غامدی صاحب نے یہ بھی کہا کہ مرزا صاحب کے دعاوی اور تعبیرات میں اور صوفیہ کے دعاوی اور تعبیرات میں مماثلت ہے۔ تصوف ہمارا موضوع نہیں ہے، اہلِ تصوف مناسب سمجھیں گے تو اس کا جواب دیں گے۔ اس لیے ہماری گفتگو مندرجہ بالا تین نکات تک محدود رہے گی: ۱:۔۔۔۔مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا دعویٰ نبوت غامدی صاحب کا ارشاد ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تحریروں میں بالصراحت نبوت کے دعوے کی کوئی تحریر نہیں ہے۔ صریح تحریریں پیش کرنے سے قبل ہم قارئین سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ پروفیسر الیاس برنی مؤلف ’’قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ‘‘ کے بقول مرزا غلام احمد قادیانی، حکیم نورالدین اور دوسرے قادیانی اساطین کی کتابوں میں اس درجہ تکرار، تضاد، ابہام اور التباس ہے کہ اکثر مباحث بھول بھلیاں نظر آتے ہیں۔ اس تضاد اور التباس کے پیش نظر ممتاز ادیب اور صحافی شورش کاشمیری نے مرزا صاحب اور دوسرے قادیانی رہنمائوں کی تحریروں اور تعبیروں کو دوشیزہ کی کہہ مکرنیاں قرار دیا ہے۔ ہماری رائے میں ان تحریروں اور تعبیروں پر یہ مصرع پوری طرح صادق آتا ہے: جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی اگر جنابِ شیخ کا کُھرا اٹھایا جائے تو اِن شاء اللہ! قارئین صریح تحریروں تک پہنچ جائیں گے۔ دراصل مرزا صاحب نبوت کی طرف ایک قدم بڑھاتے تھے اور جب مسلمانوں کی طرف سے مخالفت ہوتی تھی تو اُسے پیچھے ہٹا لیتے تھے، جیسا کہ مولوی عبدالحکیم سے ایک معاہدے مورخہ ۳؍ فروری ۱۸۹۲ء میں جو ’’تبلیغ رسالت‘‘ حصہ دوم ص:۹۵ میںچھپا ہے، مرزا صاحب تمام مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے رسائل ’’فتح اسلام‘‘، ’’توضیح المرام‘‘ اور ’’ازالۂ اوہام‘‘ میں لکھا ہے کہ محدث ایک مفہوم میں نبی ہوتا ہے۔ اگر مسلمان بھائی ان لفظوں سے ناراض ہیں تو وہ بجائے لفظ ’نبی‘ کے ’محدث‘ کا لفظ ہر جگہ سمجھ لیں اور اس کو (یعنی لفظ نبی کو) کاٹا ہوا خیال فرما لیں۔ واضح رہے کہ یہ ۱۸۹۲ء کی تحریر ہے۔ جوں جوں مرزا صاحب کے معتقدین میں اضافہ ہوتا گیا، حصولِ نبوت کے جذبے میں جان پڑتی گئی۔ یہاں تک کہ ۱۹۰۱ء میں ایک ٹریکٹ ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ میں نبوت کا اعلان کردیا۔ ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ سے اقتباس ہم بعد میں پیش کریں گے، یہاں عرض یہ کرنا ہے کہ مرزا صاحب مامور من اللہ، مجدد، محدث، مسیح موعود اور مہدی کے مراتب سے ’’ترقی‘‘ کرتے ہوئے بتدریج نبوت کے منصب تک پہنچے۔ اس لیے ان کے ابتدائی دور کے دعووں کو نظرانداز کرتے ہوئے آخری دور کے دعووں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اب ہم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی ان چند تحریروںکو پیش کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو لغوی معنی میں نبی (یعنی پیشین گوئیاں کرنے والا) قرار نہیں دیتے، بلکہ اللہ کا بنایا ہوا نبی قرار دیتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے انہیں نبی کے نام سے پکارا اور ان کا نام نبی رکھا: ۱:-مرزا صاحب کا آخری عقیدہ جس پر ان کا خاتمہ ہوا، یہی تھا کہ وہ نبی ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنے آخری خط میں جو ٹھیک ان کے انتقال کے دن اخبارِ عام میں شائع ہوا، واضح الفاظ میں لکھا کہ: ’’میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا، اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میںکیونکر انکار کرسکتا ہوں؟ میں اس پر قائم ہوں اُس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جائوں۔‘‘ (اخبار عام، ۲۶؍ مئی۱۹۰۸ئ، منقول از حقیقۃ النبوۃ از مرزا محمود، ص:۲۷۱، و مباحثہ راولپنڈی، ص:۱۳۶) یہ خط ۲۳؍ مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا گیا اور ۲۶؍ مئی کو اخبارِ عام میں شائع ہوا اور ٹھیک اسی دن مرزا صاحب کا انتقال ہوگیا۔ واضح رہے کہ مباحثۂ راولپنڈی جماعت احمدیہ راولپنڈی اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام راولپنڈی (لاہوری گروپ) میں تحریری طور پر ہوا تھا۔ بنیادی موضوعات دو تھے، اولاً ‘‘کیا مرزا صاحب نبی تھے؟‘‘، ثانیاً ’’کیا مرزا صاحب نے اپنے نہ ماننے والوں کی تکفیر کی؟‘‘ فریقین کے پرچے ’’مباحثۂ راولپنڈی‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیے گئے۔ اس کتاب کے مستند ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتوں کے مشترکہ اخراجات سے شائع ہوئی۔ ۲:-مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لکھتے ہیں: ’’چند روز ہوئے ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا، حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے، حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوئی اس میں سے ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں، نہ ایک دفعہ بلکہ صد ہابار، پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے!۔‘‘(ایک غلطی کا ازالہ، ص:۳، روحانی خزائن، جلد:۱۸، ص:۲۰۶) ۳:- مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں: ’’تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ، بہرحال جب تک طاعون دنیا میں رہے، گو ستر برس تک رہے، قادیان کو اس خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا، کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے۔‘‘(دافع البلائ، ص:۱۴، روحانی خزائن، ص:۱۵۴) ۴-مرزا قادیانی صاحب ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں: ’’غرض اس حصۂ کثیر وحی الٰہی اور امورِ غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمت میں گزر چکے ہیں، ان کو یہ حصۂ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں، کیونکہ کثرتِ وحی اور کثرتِ امورِ غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں نہیں پائی جاتی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، ص:۳۹۱) مرزا صاحب کا تشریعی نبوت کا دعویٰ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے صریح دعویٰ نبوت کے چار حوالے پیش کیے جا چکے ہیں۔ ان کی اس قسم کی بیسیوں تحریریں موجود ہیں جن کو نقل کرنے کی فی الحال ضرورت نہیں ہے۔ مرزا صاحب نے اپنے ترقی پذیر(developing) دعووں کے ایک مرحلے میں تشریعی نبی یا صاحبِ شریعت ہونے کا اعلان بھی کردیا، وہ لکھتے ہیں: ’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے؟ جس نے اپنی وحی کے ذریعے سے چند امر اور نہی بیان کیے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں، کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں، نہی بھی، مثلاً یہ الہام: ’’قل للمومنین یغضو من أبصارھم ویحفظوا فروجھم ذلک أزکی لھم‘‘یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تیئس برس کی مدت بھی گزر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں، نہی بھی۔ اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ إن ھذا لفی الصحف الأولٰی صحف إبراہیم و موسٰی‘‘ یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے۔‘‘ (اربعین:۴، طبع چہارم، مطبوعہ: چناب نگر (ربوہ) روحانی خزائن، ج:۱۷، ص:۳۳۵-۳۳۶) مذکورہ بالا عبارت میں مرزا صاحب نے واضح الفاظ میں اپنی وحی کو تشریعی وحی قرار دیا ہے۔ عربی اور اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور نامور عالمِ دین مولانا سید ابوالحسن علی ندویv اس سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’بعض اہم قطعی و متواتر احکامِ شریعت کو پوری صراحت و قوت کے ساتھ منسوخ و کالعدم کردینا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ [مرزا صاحب] اپنے کو ایسا صاحبِ شریعت اور صاحبِ امرونہی نبی سمجھتے تھے جو قرآنی شریعت کو منسوخ کر سکتا ہے، چنانچہ جہاد جیسے منصوص قرآنی حکم کو جس پر اُمت کا تعامل اور تواتر ہے اور جس کے متعلق صریح حدیث ہے: ’’الجھاد ماضٍ إلٰی یوم القیامۃ‘‘ کی ممانعت کرنا اور اس کو منسوخ قرار دینا اس کا روشن ثبوت ہے۔ جہاد کی منسوخی و ممانعت کے سلسلے میں یہاں ان کی صرف ایک کتاب کا اقتباس کافی ہوگا، وہ ’’تریاق القلوب‘‘ (صفحہ نمبر:۱۵) میں لکھتے ہیں: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنتِ انگریزی کی تائید و حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعتِ جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں کہ اگر وہ اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اورجہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں، ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں۔‘‘ تنسیخِ جہاد کے اعلان کے علاوہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے دعویٰ کیا کہ: ’’خدا نے اس امت میں مسیح موعود بھیجا ہے جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘ (دافع البلائ، ص:۱۳، روحانی خزائن، ج:۱۸، ص:۲۳۳) ہمارا معروضہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام تشریعی نبی تھے اور جو شخص آپ سے ’’تمام شان میں‘‘ یعنی ہر اعتبار سے بڑھ کر ہو تو وہ تشریعی نبی کیوں نہیں ہوگا؟ عقل عام اور مذاہبِ عالم کی تاریخ کے مطابق جب بھی کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو حق و باطل کی بحث سے قطع نظر، اس کے دعوے کو درست تسلیم کرنے والے اور انکار کرنے والے دو گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں، اور دعویٰ نبوت کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس جدید نبوت پر ایمان نہیں لاتے ان کی تکفیر کی جائے۔ چنانچہ مرزا صاحب اپنے دعوے کے منکر کی تکفیر کرتے ہیں۔ بہرحال مرزا صاحب کی بعض ایسی تحریریں بھی پیش کی جاتی ہیں جن میں انہوں نے فرمایا: ’’میرے دعوے کے انکار سے کوئی کافر نہیں ہوسکتا۔‘‘ یہ اسی قسم کا تضاد اور التباس ہے جو ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب حقیقت الوحی (ص:۱۴۸تا۱۵۰) میں خود تسلیم کیا ہے کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں انہوں نے لکھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا، اور اس کے بارہ سال کے بعد ’’ازالۂ اوہام‘‘ میں لکھا: ’’آنے والا مسیح میں ہوں۔‘‘ مرزا صاحب اپنے دعوے کے منکر کو کافر قرار دیتے ہیں،مرزا غلام احمد صاحب قادیانی خود کو صرف لغوی یا مجازی معنوں میں نبی نہیں کہتے، بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا منکر مسلمان نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سردست مرزا صاحب کی صرف دو تحریریں پیش کی جاتی ہیں: ۱:- مرزا صاحب اپنے مکتوب مورخہ مارچ ۱۹۰۶ء بنام ڈاکٹر عبدالحکیم میں لکھتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا، مسلمان نہیں ہے۔‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم، ص:۵۱۹) ۲:- مرزا صاحب لکھتے ہیں: ’’کفر دو قسم پر ہے۔ (اول) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمامِ حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا ورسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لیے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، کافر ہے، اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں، کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کرلینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوصِ صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، ص:۱۷۹-۱۸۰) مرزا صاحب کی نبوت اور حکیم نورالدین صاحب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین صاحب انتہائی ذہین شخص تھے۔ انہوں نے اپنے دورِ خلافت (۱۹۰۸ء تا۱۹۱۴ئ) میں مسلمانوں سے تعاون بڑھانے کے لیے اعتدال پسندانہ روش اختیار کی۔ انہوں نے مصلحتاً مرزا صاحب کی نبوت اور ان کے دعووں پر ایمان نہ لانے والوں کی تکفیر پر زور نہیں دیا۔ اس طرح انہوں نے احمدیوں اور عام مسلمانوں کے درمیان نفرتوں کی وہ خلیج پاٹنے کی کوشش کی جو مرزا صاحب کے الہامات، پیش گوئیوں اور اشتعال انگیز تحریروں نے پیدا کردی تھی۔ بہرحال ان کے اصل عقائد کے سلسلے میں ان کی دو تحریریں پیش کی جاتی ہیں: ۱:۔۔۔۔حکیم نورالدین صاحب لکھتے ہیں: ’’ایمان بالرسل اگر نہ ہو تو کوئی شخص مومن مسلمان نہیں ہوسکتا اور اس ایمان بالرسل میںکوئی تخصیص نہیں، عام ہے، خواہ وہ نبی پہلے آئے یا بعد میں آئے، ہندوستان میں ہو یا کسی اور ملک میں، کسی مامور من اللہ کا انکار کفر ہوجاتا ہے۔ ہمارے مخالف حضرت مرزا صاحب کی ماموریت کے منکر ہیں، بتائو کہ یہ اختلافِ فروعی کیونکر ہوا؟۔‘‘ (مجموعہ فتاویٰ احمدیہ، ج:۱،ص:۲۷۵، بحوالہ اخبار الحکم، ج:۱۵، نمبر:۸، مورخہ ۷؍ مارچ ۱۹۱۱ئ) ۲:۔۔۔۔ نیز حکیم صاحب ایک اور موقع پر لکھتے ہیں: ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر یہود و نصاریٰ اللہ کو مانتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے رسولوں، کتابوں، فرشتوں کو مانتے ہیں، کیا اس انکار پر کافر ہیں یا نہیں؟ کافر ہیں۔ اگر اسرائیلی مسیح رسول کا منکر کافر ہے تو محمدی مسیح رسول کا منکر کیوںکافر نہیں؟ اگر اسرائیلی مسیح موسیٰ کا خاتم الخلفاء یا خلیفہ یا متبع ایسا ہے کہ اس کا منکر کافر ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الخلفاء یا خلیفہ یا متبع کیوں ایسا نہیں کہ اس کا منکر بھی کافر ہو۔ اگر وہ مسیحا ایسا تھا کہ اس کا منکر کافر ہے تو یہ مسیح بھی کسی طرح کم نہیں۔‘‘(مجموعہ فتاویٰ احمدیہ، ج:۱، ص:۳۸۵) مرزا صاحب کی نبوت اور جماعتِ احمدیہ لاہور جاوید غامدی صاحب نے اپنے لیکچر میں فرمایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے قدیم ترین رفقاء نے کہا کہ مرزا صاحب مجدد تھے اور لاہوری جماعت اسی تعبیر پر وجود میں آئی۔ غالباً تاریخِ احمدیت غامدی صاحب کا موضوع نہیں ہے، اس لیے انہوں نے یہ ارشاد فرمایا۔ مرزا صاحب نے ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت لینے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے حکیم نورالدین صاحب نے بیعت کی۔ اُس وقت جماعت احمدیہ لاہور کے بانی امیر مولوی محمد علی صاحب لاہوری (۱۸۷۴ئ-۱۹۵۱ئ)انٹرنس کے طالب علم تھے۔ ۱۸۹۰ء میں انٹرنس پاس کرنے کے بعد جب مولوی محمد علی صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے تو اپنے ایک سابق ہم جماعت منشی عبدالعزیز کے ذریعے انہیں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعوے کا علم ہوا اور انہی کے ذریعے کتاب ’’ازالۂ اوہام‘‘ ان کو ملی، جس کو پڑھنے کے بعد وہ مرزا صاحب کی صداقت کے قائل ہوگئے۔ اسی طرح مولوی عبدالکریم سیالکوٹی مرزا صاحب سے اُس وقت سے متعارف تھے جب ثانی الذکر سیالکوٹ کی کچہری میں اہلمند تھے۔ انہوں نے بھی جلد ہی بیعت کرلی۔ وہ جامع مسجد مبارک قادیان کے امام اور خطیب تھے اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ان کی اقتدا میں نمازیں پڑھتے تھے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’مولوی عبدالکریم سیالکوٹی نے ۱۹۰۰ء میں مرزا صاحب کی موجودگی میں ایک خطبۂ جمعہ پڑھا جس میں مرزا صاحب کے لیے نبی اور رسول کے الفاظ استعمال کیے … جب جمعہ ہوچکا اور مرزا صاحب جانے لگے تو مولوی صاحب نے پیچھے سے مرزا صاحب کا کپڑا پکڑ لیا اور درخواست کی کہ اگر میرے اس اعتقاد میں غلطی ہو تو حضور درست فرمائیں۔ مرزا صاحب مڑ کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا: مولوی صاحب! ہمارا بھی یہی مذہب اور دعویٰ ہے جو آپ نے بیان کیا۔ ‘‘ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں: ’’قادیانیت: مطالعہ و جائزہ‘‘، ص:۷۵) اسی طرح کی کیفیت مفتی محمد صادق، سابق ایڈیٹر اخبار ’’بدر‘‘ قادیان کی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر جماعت احمدیہ لاہور کے رہنمائوں کو کس طرح مرزا صاحب کے قدیم ترین رُفقاء کہا جا سکتا ہے! یاد رہے کہ مولوی محمد علی صاحب لاہوری کے دستِ راست خواجہ کمال الدین صاحب (۱۸۷۰ئ-۱۹۳۲) نے ۱۸۹۳ء میں مرزا صاحب کی بیعت کی۔ خود محمد علی صاحب لاہوری اگرچہ ۱۸۹۰ء میں مرزا صاحب کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے، لیکن انہوں نے مرزا صاحب کی بیعت ۱۸۹۷ء میں کی۔ مرزا صاحب کے قدیم ترین رفقاء حکیم نورالدین، مولوی عبدالکریم سیالکوٹی، مفتی محمد صادق وغیرہ کی تحریریں ریکارڈ پر ہیں، وہ بالصراحت مرزا صاحب کو نبی قرار دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ مولوی محمد علی صاحب لاہوری اور جماعت احمدیہ لاہور مرزا صاحب کو صرف مجدد نہیں مانتے، بلکہ اُنہیں مسیح موعود بھی مانتے ہیں اور اس نکتے پر احمدیت کی دونوں شاخوں کا اتفاق ہوجاتا ہے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی زندگی میں ان کے حکم پر ایک رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز ‘‘ قادیان سے جاری کیا گیا اور ان کی ایماء پر مولوی محمد علی صاحب لاہوری کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ یہ ذولسانی مجلہ تھا۔ مولوی صاحب برسوں اس کے ایڈیٹر رہے۔ انہوں نے اپنے بیسیوں مضامین میں مرزا صاحب کے لیے نبی اور رسول کا لفظ استعمال کیا اور اشارتاً بھی نہیں لکھا کہ وہ ان الفاظ کو استعارے کے طور پر یا مجازی مفہوم میں استعمال کررہے ہیں۔ ایسے مضامین کے اقتباسات ہم آگے چل کر پیش کریں گے۔ پہلے عدالت میں مولوی محمد علی صاحب لاہوری کا ایک بیانِ حلفی ملاحظہ فرمائیے: ۱۳؍ مئی ۱۹۰۴ء کو گورداسپور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مولوی محمد علی صاحب نے ایک بیان حلفی دیا جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ جو شخص مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تکذیب کرے وہ کذاب ہوتا ہے۔ اگر مرزا صاحب نے کذاب لکھا تو ٹھیک کہا۔ مولوی صاحب اس بیان میں لکھتے ہیں: ’’مکذب مدعیٔ نبوت کذاب ہوتا ہے، مرزا صاحب ملزم مدعیٔ نبوت ہے، اس کے مرید اس کو دعوے میں سچا، دشمن جھوٹا سمجھتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ فرقان قادیان، جلد:۱، نمبر:۱، جنوری ۱۹۴۲ئ، ص:۱۵، مباحثہ راولپنڈی، ص :۲۷۲) مولوی محمد علی صاحب لاہوری نے احمدیہ بلڈنگز میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’مخالف کوئی معنی کرے، مگر ہم تو اسی پر قائم ہیںکہ خدا نبی پیدا کرسکتا ہے، صدیق بناسکتا ہے اور شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کرسکتا ہے، مگر چاہیے مانگنے والا … ہم نے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا (یعنی مرزا غلام احمد صاحب) وہ صادق تھا، خدا کا برگزیدہ اور مقدس رسول تھا۔‘‘ (’’الحکم‘‘ ۱۸؍جولائی ۱۹۰۸ئ، بحوالہ ماہنامہ فرقان قادیان، جنوری ۱۹۴۲ئ، جلد:۱، نمبر:۱، ص:۱۱) مولوی محمد علی صاحب لاہوری کی تبلیغی تُرک تازیوں کا دائرہ انتہائی وسیع ہے۔ دیکھیے وہ اپنے ایک مضمون میں ہندوئوں سے مرزا صاحب کا تعارف کس طرح کراتے ہیں: ’’ہم خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ جلد وہ زمانہ آئے کہ ہمارے ہندو بھائیوں کے دلوں سے پردے اُٹھ جائیں اور ان کو اپنی مذہبی غلطیوں پر بصیرت اور معرفت حاصل ہوجائے اور ان کے سینے اس سچائی کو قبول کرنے کے لیے کھل جائیں جو دینِ اسلام تعلیم دیتا ہے۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ آخری زمانے میں ایک اوتار کے ظہور کے متعلق جو وعدہ اُنہیں دیا گیا تھا، وہ خدا کی طرف سے تھا اور اس کو ہندوستان کے مقدس نبی مرزا غلام احمد قادیانی کے وجود میں خدا تعالیٰ نے پورا کر دکھایا ہے۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز، جلد:۳، نمبر:۱۱، ص:۴۰۹تا۴۱۱، منقول از رسالہ تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب، ص:۶۳، مولفہ محمد اسماعیل قادیانی) مولوی محمد علی صاحب لاہوری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خداوند تعالیٰ نے تمام نبوتوں اور رسالتوں کے دروازے بند کردیے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کامل کے لیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگیں ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کاملہ سے نور حاصل کرتے ہیں، ان کے لیے یہ دروازہ بند نہیں ہوا۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز، ج:۴، ص:۱۸۶، بحوالہ تبدیلی عقائد، مولوی محمد علی صاحب از محمد اسماعیل قادیانی، ص:۲۲، مطبوعہ احمدیہ کتاب گھر قادیان) ۱۹۱۳ء میں جماعت احمدیہ کو اندرونی خلفشار کا سامنا کرنا پڑا۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے صاحبزادے مرزا بشیر الدین صاحب محمود اپنے حامیوں پر مشتمل ایک تنظیم ’’انصاراللہ‘‘ قائم کرچکے تھے۔ وہ مولوی محمد علی صاحب لاہوری اور ان کے رفقاء (جن کی اکثریت لاہور سے تعلق رکھتی تھی) کے خلاف تھے۔ اُس وقت قادیان کے اخبارات ’’بدر‘‘ اور ’’الحکم‘‘ مرزا بشیرالدین صاحب کے زیراثر تھے۔اُن حالات میں مولوی محمد علی صاحب کے قریبی رفیق ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ نے (جو بعد کو انجمن اشاعت اسلام لاہور المعروف جماعت احمدیہ لاہور کے معتمد مالیات منتخب ہوئے) لاہور سے ہفت روزہ پیغامِ صلح جاری کیا۔ اس اخبار کی مالی اور اخلاقی مدد اُن تمام احمدیوں نے کی جو بعد کو جماعتِ احمدیہ لاہور میں شامل ہوئے۔ یہ شروع سے احمدیوں کے لاہوری فریق کا ترجمان رہا ہے۔ یہ اخبار لکھتا ہے: ’’معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ اخبارِ ہذا کے ساتھ تعلق رکھنے والے احباب یا ان میں سے کوئی ایک سیدنا وھادینا حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت سے اخبار پیغامِ صلح کے ساتھ تعلق ہے، خدا تعالیٰ کو جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے، حاضر و ناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی پھیلانا محض بہتان ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں۔‘‘ (پیغام صلح، ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۱۳ئ، ص:۲، بحوالہ ماہنامہ فرقان قادیان، جنوری ۱۹۴۲ئ، ص:۱۳،۱۴) اس حلفیہ بیان کے بعد لاہوری جماعت کے اصل عقائد سے ہر پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ مولوی محمد علی صاحب لاہوری ’’انگریزی ریویو آف ریلیجنز‘‘ میں لکھتے ہیں: “The Ahmadiyya movement stands in the same relation to Islam in which Christianity Stood to Judaism” ترجمہ: ’’احمدیہ تحریک اسلام کے ساتھ وہی رشتہ رکھتی ہے جو عیسائیت کا یہودیت کے ساتھ تھا۔‘‘ واضح رہے کہ یہ ۱۹۰۶ء کی تحریر ہے اور ’’مباحثۂ راولپنڈی‘‘ ص:۲۴۰ و ’’تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب مولفہ محمد اسماعیل قادیانی، ص:۱۲ سے نقل کی گئی ہے۔ یہ تحریر خود وضاحت کررہی ہے کہ جس طرح عیسائیت اور یہودیت الگ الگ مذہبی اکائیاں ہیں، اسی طرح احمدیت اور اسلام بھی الگ الگ مذہبی اکائیاں ہیں۔ قارئین نوٹ کریں گے کہ مولوی محمد علی صاحب لاہوری کی یہ تحریریں ۱۹۱۴ء سے قبل کی ہیں۔ ۱۳؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو مرزا صاحب کے خلیفہ اول حکیم نورالدین صاحب کے انتقال کے بعد احمدیوں کی اکثریت نے مرزا صاحب کے صاحبزادے مرزا بشیر الدین صاحب محمود کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ مولوی محمد علی صاحب نے مرزا بشیرالدین صاحب محمود کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور انہیں خلیفہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یاد رہے کہ مولوی محمد علی کی مستقل رہائش قادیان میں تھی۔ مرزا محمود صاحب کے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد مولوی صاحب کو سوقیانہ نعروں کا نشانہ بنایا جانے لگا اور انہیں مرزا محمود صاحب کی بیعت نہ کرنے پر کھلے عام فاسق کہا گیا۔ اس طرح مولوی صاحب کا قادیان میں رہنا مشکل ہوگیا۔ جب حالات بہت خراب ہوگئے تو وہ ۲۰؍ اپریل ۱۹۱۴ء کو قادیان چھوڑ کر لاہور آگئے، جہاں انہوں نے اپنے رفقاء کے اشتراک سے الگ جماعت قائم کی۔ یہ تھا اصل اختلاف جس کے نتیجے میں جماعتِ احمدیہ لاہور کا قیام عمل میں آیا۔ ایک صاحبِ دانش کی رائے کے مطابق اپنی علیحدگی کے جواز کی فراہمی، جماعتِ قادیان سے بغض اور مسلمانوں کی ہمدردیوں کا حصول، وہ محرکات تھے جن کے تحت مولوی محمد علی صاحب لاہوری اور ان کی جماعت نے اپنے سابقہ عقائد اور تحریروں سے رجوع کا اعلان کیے بغیر یہ کہنا شروع کیا کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب کو نبی نہیں بلکہ مجدد مانتے ہیں۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعاوی اور محمد علی صاحب لاہوری کی تحریروں پر اپنے معروضات پیش کرنے کے بعد جاوید غامدی سے درخواست ہے کہ وہ اپنے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے واضح اعلان کریں کہ ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کی آئینی ترمیم جس کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، قرآن اور سنت کے مطابق ہے۔ یہ اعلان اُن کی حق پرستی کا مظہر ہو گا اور وہ ہدیۂ تبریک کے مستحق قرار پائیں گے
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم
ڈاکٹر محمد مشتاق ردِّ عمل کی نفسیات نائن الیون کے بعد پاکستان میں بم...
اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط سوم
ڈاکٹر محمد مشتاق بادشاہ کے بجائے بادشاہ گر یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان...
اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط دوم
ڈاکٹر محمد مشتاق اتمامِ حجت اور تاویل کی غلطی ۔1980ء کی دہائی کے وسط میں...