مولانا مودودی کے نظریہ دین کا ثبوت اور اس پر تنقید کی محدودیت

Published On September 11, 2024
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ہفتم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ہفتم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ اقدامی جہاد اور عام اخلاقی دائرہ:۔ یہاں اس بات کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جہا د اقدامی اور اس سے متعلقہ احکامات عام اخلاقی دائرے سے باہر ہیں یا نہیں؟ خالق کا ئنات نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر پیدا کیا ہے واذ قال ربك...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ  اقدامات صحابہ اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ قرآن وحدیث کے بعد اگلا مقدمہ یہ قائم کرتے ہیں کہ صحابہ کے جنگی اقدامات کے جغرافیائی  اہداف محدود اور متعین تھے اور وہ جہاد اور فتوحات کے دائرے کو وسیع کرنے کی بجائے محدود رکھنے کے خواہش...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ احادیث اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو کوئی بھی ایک حدیث ایسی پیش نہیں کر سکے جو اس بات کی تائید کرے کہ جہاد کے اہداف محدود ہیں اور اس مشن کے پیش نظر صرف روم اور فارس کی سلطنتیں ہیں ۔ تاہم ایک حدیث ایسی...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ احکامات اسلام اور خطابات قرآنیہ کی عمومیت:۔ غامدی حضرات کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اقدامی قتال یا اسلام ، جزیہ اور قتل کا مطالبہ سامنے رکھنا عام خلاقی دائرے سے باہر ہے اس لیے وہ آیات واحادیث جن میں اس قسم کے احکامات مذکور ہیں ان کے...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط سوم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط سوم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ منصب رسالت اور اس پر متفرع احکام کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ: ۔ ۔1 ۔  منصب رسالت اور نبوت میں یہ تفریق کوئی قطعی بات نہیں ، اس سے اختلاف کی گنجائش ہے اور ہوا بھی ہے اور یہ رائے زیادہ وزنی بھی نہیں ۔ اس کی بنیاد پر قرآنی آیات و...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط دوم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط دوم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ   قرآن اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ قرآن میں جہاد اقدامی اور اس کے عموم اور تا ئید کے سلسلے میں واضح احکامات موجود ہیں جن سے انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ آسانی کے ساتھ انہیں نظر انداز کیا جا...

ڈاکٹر عادل اشرف

غامدی صاحب اور وحید الدین خان کا یہ مفروضہ صحیح نہیں کہ مولانا مودودی کا نظریہ دین ایک یا چند آیات سے ماخوذ ہے اور ان آیات کے پسمنظر اور انکی لغت کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے ہم ایک دوسری تشریح اخذ کرتے ہوۓ انکے نظریہ کی بنیادوں کو ہی ڈھا دیں گے! مولانا مودودی پر رد کا یہ ایک ایزی وے آوٹ ہے اور انکی فکر کے دس فیصد کا احاطہ بھی نہیں کر پاتا
حقیقت یہ ہے کہ مولانا کا نظریہ دین کسی ایک آیت سے ماخوذ ہونے کے بجاۓ پورے قرآن میں جابجا مختلف تھہمز کے ساتھ ہر جگہ ثابت ہوتا ہے- أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ والی آیت سے تو محض اصطلاح لی گئی ہے اور وہ بھی سید نے خود نہیں لی بلکہ مولانا اختر احسن اصلاحی نے تجویز کی تھی- مولانا مودودی کا نظریہ دین قرآن کے جتنے تھیمز سے ثابت ہوتا ہے، ان سب کا شمار کرنا نہایت دشوار اور محنت طلب کام ہے- یہاں ہم سرسری طور پر کچھ موٹے موٹے نکات کو آپکے سامنے رکھ دیتا ہوں

اول – سب سے قوی استدلال میری نظر میں “پوری شریعت کے لزوم” کا استدلال ہے اور اسی استدلال کو دستور جماعت میں پیش کیا گیا ہے- قرآن اور سنت نے مسلمانوں پر جتنے بھی فرائض اور واجبات لازم کیے ہیں ان میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی اور ہر حکم آیا ہی اس لیے ہے کہ اسکی بے چون و چرا اطاعت کی جاۓ اور اسکے التزام کیلۓ تمام وسائل فراہم کیے جائیں-

دوم – دوسرا استدلال انسان کی تخلیق کی اصل غایت جسے قرآن “عبادت” اور “خلافت” کے الفاظ کے ذریعے بیان کرتا ہے- قرآن انسان کو الله کا خلیفہ بتاتا ہے اور اسکو بار بار یہ حکم دیتا ہے کہ صرف اسی کی “عبادت” کرے- براہ راست بھی “عبادت” کو مقصد زندگی بتاتا ہے اور انبیاء کی زبان سے بھی یہی کہلواتا ہے- ان الفاظ کے مفہوم کی غیر مبہم اور جامع تشریح قرآن خود متعین کرتا ہے اور لغت و تفسیری لٹریچر سے بھی وہی معنی مترشح ہوتے ہیں جو سید مودودی نے بیان کیے ہیں

سوم – تیسرا استدلال رسولوں کے مقصد بعثت سے ہیں جسے قرآن نے مختلف پیرائیوں میں بہت سے مقامات پر بیان کیا ہے، جس میں قیام قسط، حکم بین الناس، تزکیہ، اقامت دین، اظہار دین وغیرہ جیسے پیراۓ شامل ہیں- یہاں اظہار دین کو غامدی صاحب جب بحث کا موضوع بناتے ہیں تو اس چیز کا رد کرتے ہیں جو سید کا استدلال ہے ہی نہیں، یعنی اظہار دین صرف عرب ادیان کیلۓ تھا باقی دنیا کیلۓ نہیں- جبکہ سید مودودی کا استدلال زمان و مکان کے حوالے سے ہے ہی نہیں بلکہ وہ رسالت کی مقصدیت پر استدلال کھڑا کرتے ہیں- مطلب یہ کہ رسول اپنے دور کے نظاموں اور حکومتوں میں خدا کی جزوی اطاعت قائم کرنے نہیں بلکہ اسکی ہدایت و قانون کو سب نظاموں اور ادیان پر کلی طور پر غالب کرنے آتا ہے- اب جب غلبہ دین اور نظام کی تبدیلی رسالت کے اہم ترین مقاصد میں شامل ہیں اور اسکیلۓ وہ کونو انصار اللہ کی صدا بلند کرکے سب کچھ دآو پر لگا دیتے ہیں، تو کس طرح یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ دین میں حکومت و سلطنت کوئی غیر ضروری یا غیر اہم چیز ہے

چہارم – چوتھا استدلال جو دراصل تیسری قسم سے ہی تعلق رکھتا ہے لیکن اسے الگ بیان کرنے کی حاجت اسی لیے ہے کہ اس میں قرآن خود ہی بتصریح رسول اور امت کا باہمی تعلق اور دونوں کے منصبی فرائض متعین کرتا ہے- قرآن رسول کے سپرد شہادت علی الأمة کا کام کرتا ہے اور امت کے کاندھوں پر شہادت علی الناس کا فریضہ رکھ دیتا ہے، جسے ختم نبوت کے ساتھ ملا کر دیکھا جاۓ تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اب امت نے وہی فریضہ انجام دینا ہے جو پہلے رسول کے ذمے تھا- بطور امت شہادت علی الناس کا بنیادی مفہوم یہی نکلتا ہے کہ یہ امت مجموعی طور پر (نہ کی فرداً فرداً ) اسلام پر عمل کرکے اسکا نمونہ پیش کرے- دوسری جگہ امت کی اسی منصبی ذمہ داری کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے الفاظ سے ادا کیا گیا ہے، بتایا گیا کہ تم “الناس” کیلۓ برپا کی گئی امت ہو اور تمہارا “الناس” سے تعلق “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کا ہے

پنجم – پانچواں استدلال قرآن میں اسلامی قانون کی پیروی کی اہمیت اور اسکو ایمان کے ساتھ لازم و ملزوم کیے جانے سے عبارت ہے، جسیا کہ بیان ہوا “فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم”- اسی سے وہ آیات بھی تعلق رکھتی ہیں جن میں حلت و حرمت میں خدا کی پیروی اور اس سے روگردانی کو شرک و فسق قرار دیا گیا ہے

ششم – چھٹا استدلال سیرت رسول اور سیرت صحابہ سے ہیں- قرآن کی آیات میں یہ سیرت اس طرح سمودی گئی ہے کہ اسے سمجھے بغیر قرآن کا سمجھناممکن ہی نہیں- قرآن نے ان پر جہاد کیسے فرض کیا، اس جہاد کی علت کیا بتائی (مثلا دین پورے کا پورا اسی کیلۓ ہوجاۓ)، جو اس میں شریک نا ہوا اسکو کس خاطے میں ڈالا اور اسکی کیا سرزنش کی گئی؟

الغرض اگر دین کیلۓ یہ ساری چیزیں اہم تھیں اور آسمانی ہدایت صرف نبوت کے ۲۳ سال نہیں بلکہ قیامت تک کیلۓ اہم اور ضروری ہے، تو منطقی طور اسکے بیھجنے والے سے صرف دو ہی چیزیں توقع کی جاسکتی ہیں
الف -یا یہ کہ وہ مسلسل انبیاء بھیجتا رہے تاکہ انکے ذریعے دین کے تمام اجزاء پر عمل کا بندوبست ہوتا رہے-
ب – یا رسالت کا دروازہ بند کیا جاۓ اور مسلمان امت خود اس دین کے قیام اور اہتمام کا فریضہ انجام دے تاکہ قیامت تک کیلۓ دین کے تمام اہم اجزاء پر عمل کا امکان موجود رہے

یہ کیا بات ہوئی کہ صرف نبوت کی دو دہائیوں کیلۓ پوری آسمانی ہدایت پر عمل کو فرض ٹھرایا جاۓ اور اسکے قیام کیلۓ خصوصی بندوبست کیا جاۓ، لیکن اسکے انہدام کے بعد قیامت تک کیلۓ مسلمانوں کو یہ اطمینان دلایا جاۓ کہ اگرچہ ۹۰ فیصد سے زیادہ آسمانی ہدایت بالاۓ طاق ہے، پھر بھی تمہارا کوئی فرض نہیں بنتا کہ اس ۹۰ فیصد پر عمل کی کوشش کرو یا اسکیلۓ جو ضروری وسائل درکار ہیں انہیں فراہم کرنے کیلۓ جدوجہد کرو- بلکہ تمہیں انسان کے اختراع کردہ قانون پر، جو فطرتاً پوری دنیا کی زندگی کے امن اور توازن کو بگاڑ رہا ہو اور زمین میں ہر دن فساد کو مزید تقویت دے رہا ہو، هنيئا مريئا عمل کرنا چاہیے-

بشکریہ دلیل

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…