آمدِ امام مہدی

Published On July 17, 2024
تصوف کے حوالے سے چند فکری مغالطے

تصوف کے حوالے سے چند فکری مغالطے

احمد بن الیاس گزشتہ کافی عرصے سے ایک بات مسلسل مشاہدے میں آرہی ہے۔ دو بظاہر متضاد طبقات یہ تاثر دیتے نظر آتے ہیں کہ تصوف مرکزی دھارے کے اسلام سے علیحدہ مسلم مذہبی روایت ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ان دونوں طبقات کے محرکات الگ ہیں۔ ایک طبقہ ایسا تاثر دے کر تصوف کی نفی و مذمت...

غامدی صاحب اور خانقاہ

غامدی صاحب اور خانقاہ

ڈاکٹر زاہد  مغل غامدی صاحب کے ادارے "المورد" کے تحت "خانقاہ" قائم ہوئی ہے جسے لے کر ان پر نقد ہورہا ہے کہ ساری عمر جس تصوف پر نقد کرتے رہے آخر میں اسی کے ادارے کو لے لیا۔ اس بابت پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یہ ان کا تصاد نہیں ہے، اپنے تئیں وہ ہمارے اھل حدیث حضرات، مولانا...

تراث ، وراثت اور غامدی صاحب

تراث ، وراثت اور غامدی صاحب

حسن بن علی تقسیم میراث كى بعض صورتوں میں بالاتفاق یہ صورتحال پیش آتی ہے کہ جب ورثاء کے حصے  ان کے مجموعى مفروض نصیب سے بڑھ جاتے ہیں تو ایسی صورتحال تزاحم کی صورتحال ہے يعنى ایسے میں تمام ورثاء کو اپنے مقررہ حصے دینا ممکن نہیں رہتا. جیسے ایک عورت نے اپنے پیچھے شوہر ماں...

تقابل علوم و عقائد: غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

تقابل علوم و عقائد: غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

عمران شاہد بھنڈر بظاہر تو یہ بات بہت عجیب سی لگتی ہے کہ علوم و عقائد کے درمیان کوئی تقابل کیا جائے، اور پھر اس تقابل کے دوران چند غلط نتائج نکال کر اپنے عقائد کو فاتح قرار دے دیا جائے۔ مستزاد یہ کہ اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ مذہب کا اصل موضوع ’موت‘ اور موت کے بعد...

غامدی صاحب اور قراءاتِ متواترہ

غامدی صاحب اور قراءاتِ متواترہ

اپنی کتاب ' میزان ' میں لکھتے ہیں کہ ''یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔ اس کے علاوہ اس کی جو قراء تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں، یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں، وہ سب اسی فتنۂ...

غامدی صاحب اور مسئلہ تکفیر

غامدی صاحب اور مسئلہ تکفیر

غامدی صاحب لکھتے ہیں "مسلمانوں کے کسی فرد کی تکفیر کا حق قرآن و سنت کی رو سے کسی داعی کو حاصل نہیں ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ دین سے جہالت کی بنا پر مسلمانوں میں سے کوئی شخص کفر و شرک کا مرتکب ہو، لیکن وہ اگر اس کو کفر و شرک سمجھ کر خود اس کا اقرار نہیں کرتا تو اس کفرو شرک...

سوال

قبل قیامت حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد سے متعلق ٹیلی ویژن پر ایک سوال کے جواب میں علامہ غامدی نے کہا: کسی امر کے عقیدہٴ اسلامی میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر واضح طور پر ہو۔ جہاں تک امام مہدی کے عقیدہ کا تعلق ہے اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ امام مہدی کی آمد کے قائلین صرف احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے کی احادیث انتہائی مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالم تو عالم ایک معقولیت پسند آدمی ان متضاد ، بے بنیاد اور مضحکہ خیزکہانیوں کو قبول نہیں کرے گا۔ میں نے اس سلسلے میں مزید تحقیق کی اور اس عالم اور اس کے طلبہ کی ویب سائٹ ملی

http://www.renaissance.com.pk ۔ درج ذیل جواب ان کے شاگرد طارق ہاشمی کا دیا ہوا ہے۔

سوال: کچھ احادیث میں یہ بات آتی ہے کہ قیامت سے قبل امام مہدی آئیں گے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسے ہم عقیدہ کا جز نہ سمجھاجائے اور اس سے متعلق احادیث موضوع ہیں؟

جواب: اسلامی تعلیمات کے دو ذرائع ہیں ؛ قرآن و حدیث۔ عام طور پر قرآن میں اسلامی عقائد ہیں اور حدیث میں اعمال کا ذکر ہے۔ قرآن میں مذکور عقائد اور حدیث میں مذکور اعمال پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ حضرت مہدی کی آمد کا عقیدہ اسلامی عقائد کا جز ہے۔ مزید برآں حضرت مہدی کی آمد کی پیشین گوئی معتبر نہیں ہے۔ دو بڑے مسلم علماء ابن خلدون اور علامہ تمنا عمادی نے روایةً و درایةً ان احادیث کی تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کی ساری روایتیں بے بنیاد ہیں۔

 

جواب

علامہ شوکانی نے الإذاعة ص۷۷ میں لکھا ہے فتقرر أن الأحادیث الواردة في المہدي المنتظر متواترة، والأحادیث الواردة في نزول عیسی متواترة چنانچہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو احادیث مہدی منتظر کے بارے میں آئی ہیں، وہ سب متواتر ہیں، اسی طرح وہ احادیث جو نزول عیسی کے بارے میں آئی ہیں وہ سب بھی متواتر ہیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری، ج۶ ص۳۵۸ میں لکھا ہے ولو تواترت الأخبار بأن المہدي من ہذہ الأمة وأن عیسی یصلی خلفہ الخ متواتر احادیث آئی ہیں کہ امام مہدی اس امت میں سے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔
احادیث متواترہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یقینی ہوتا ہے، عقائد کے باب میں پیش کرنا صحیح ہے، یہ مسلمہ اصول ہے، حیرت کی بات ہے کہ علامہ غامدی نے ان احادیث کو مضحکہ خیز اور بے بنیاد بتایا ہے اور ان کے شاگرد طارق ہاشمی نے امام مہدی کی آمد کی پیشین گوئی کو ہی غیر معتبر قرار دیا ہے۔ یہ دونوں اگر احادیث صحیحہ صریحہ متواترہ کا مطالعہ رکھتے اور ان کی معتبر شروح کو دیکھتے تو ایسی بات نہ لکھتے۔ احادیث متواترہ کے خلاف کسی کی بات معتبر نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم

فتوی : 875

دار الافتاء دار العلوم دیوبند

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…