ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط دوم )
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
معراج النبی ﷺ کے بارے میں نظریات
مفتی منیب الرحمن معراج کب ہوئی‘ اس کے بارے میں ایک سے زائدا قوال وروایات ہیں ‘ لیکن روایات کا یہ اختلاف واقعہ کی حقانیت پر اثرانداز نہیں ہوتا‘ کیونکہ اصل مقصود واقعے کا حق ہونا اور اس کا بیان ہے‘ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے تاریخ کا بیان ثابت نہیں ہے‘...
لبرل دانشور اور فلسفہء دعا ( حصہ دوم تنقید)
مفتی منیب الرحمن جنابِ غلام احمد پرویز علامہ اقبال کا یہ شعر نقل کرتے ہیں :۔ چوں فنا اندر رضائے حق شود بندۂ مومن قضائے حق شود یعنی جب بندہ اللہ کی رضا میں فنا ہوجاتا ہے تو وہ حق کی قضا بن جاتا ہے ‘ وہ ا لنّہایہ لابن اثیر سے حضرت عمر ِ فاروقؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں...
سید خالد جامعی
جدیدیت پسند مسلم مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عقلی دلائل سے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن محدود عقل قدم قدم پر ٹھوکر یں کھاتی ہے۔ عہد حاضر کے جدید ذہن کو، جو علمی موشگافیوں کا ماہر ہے، نت نئے سوالات سوجھتے ہیں یہ سوالات تحصیلِ علم، حصولِ معلومات، راہِ ہدایت کی طلب، علم میں اضافے اور استفسار کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اعتراض، ہجو، تضحیک، تنقید محض اور وہ بھی بلا علم، اس کا مقصد دینی تعلیمات و افکار پر کسی نہ کسی طرح کوئی عقلی اعتراض وارد کرنا ہوتا ہے۔ عہد حاضر کے جہلا کے سوالات کا جواب دینے کا طریقہ وہ نہیں ہے جو عالم آن لائن ِکے معروف فنکار اور ان کے منتخب کردہ نو آموز جدید علماء اختیار کرتے ہیں اور دین کو رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر سوال کا جواب دینا پاگل پن ہے جہلا کے سوالات کے جواب میں ہمہ وقت تیاررہنا اور جواب دینا خود جہالت ہے، وہ شخص عالم کہلانے کا مستحق ہی نہیں جو لا ادری کہنا نہیں جانتا یا کہتے ہوئے ہچکچاتا ہے علم بحر بے کراں ہے جو شخص ہر سوال کا جواب دینے کے لیے ہمہ وقت آمادہ ہے بلا شک و شبہہ جید جاہل ہے اور تمام ٹی وی پروگرام ان جید جہلاء کی جہالت سے منور ہیں اس’’ منور اندھیرے ‘‘سے نکلنے کے کئی طریقے ہیں مثلاً :
۔اگر عالم دین کو سوال کا جواب معلوم نہیں ہے تو واضح طور پر لا ادری کہہ دے یا کہہ دے کہ میں نہیں جانتا اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ایسا کہنا نصف علم ہے ،ایک شخص نے حضرت مالکؒ بن انس سے ایک مسئلہ پوچھا اور کہا کہ ان کی قوم نے آپ سے یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے مجھے ایک ایسی جگہ سے بھیجا ہے جس کی مسافت یہاں سے چھ ماہ کی ہے آپ نے کہا جس نے بھیجا ہے اس سے جا کر کہہ دینا کہ میں نہیںجانتا ،اس شخص نے شکوہ کیا کہ اگر آپ نہیں جانتے تو پھر اس مسئلے کو کون جانے گا فرمایا اسے وہ جانے گا؟فرمایا اسے وہ جانے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اس کا علم دیا ہے، ملائکہ کہتے ہیں: لا عِلمَ لَنا اِلَّا مَا علَّمتَنا ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔علم کے کوہِ گراں کی عاجزی کا اندازہ کیجیے۔
امام مالکؒ سے اڑتالیس مسئلے پوچھے گئے جن میں سے تیس کے جواب میں آپ نے فرمایا:لا ادری [میں نہیں جانتا]۔ خالد بن خداش سے روایت ہے کہ انھوں نے بتایا میں چالیس مسائل پوچھنے کے لیے عراق سے امام مالک کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو صرف پانچ کے جوابات آپ نے دیے۔ امام مالکؒ اس راز کو جانتے تھے کہ جب عالم لا ادری نہ کہنے کی غلطی کرے تو وہ ہلاکت کی جگہ پہنچ جاتا ہے ۔ امام مالکؒ سے روایت ہے ان سے عبداللہ بن یزید بن ہر مزؒ نے روایت کی کہ عالم کو چاہیے کہ اپنے ہم نشینوں کو لا ادری سکھائے تاکہ ان کے ہاتھ میں ایک ایسی اصل اور ٹھکا نہ ہو جہاں وہ پناہ لیں، اور ان سے جب کوئی ایسی بات پوچھی جائے ، جسے وہ نہیںجانتے تو لاادری کہہ دیں۔ حضرت ابو درداء ؓسے صحیح روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا لاادری [میں نہیں جانتا] کہنا نصف علم ہے۔اسی لیے امام غزالیؒ نے مناظرے کی مذمت کی ہے اوراس کے لیے کڑی شرائط رکھی ہیں کیونکہ مناظرے کا مر وّ جہ ماحول اور اسلوب، الا ماشا ء اللہ ، لا ادری کہنے کی صلاحیت سلب کرلیتا ہے یہ حق کے دروازے بند کرنے کا راستہ ہے۔
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ اس مسجد [مسجدِ نبوی] میں ایک سو بیس صحابہ کو میں نے پایا کہ ان سے کسی حدیث یا فتوے کے بارے میں پوچھا جاتا تو ان کی خواہش و کوشش ہوتی کہ کوئی دوسرا بھائی ہی اسے بتائے اور بالفاظ دیگر کسی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ دوسرے کے پاس بھیجتے اور وہ کسی دوسرے کے پاس۔ اس طرح سائل گھومتے ہوئے پھر اس شخص کے پاسں پہنچ جاتا جس سے پہلی مرتبہ اس نے سوال کیا تھا ۔
اتحاف السادّۃ المتقین ،جلد ۱ صفحات۲۷۹-۲۸۰ ۔
۔ اگر سائل صرف تنقید کے لیے بغیر علم کے سوال کررہا ہے یا مقصود دین یا دینی روایت کی تحقیر، تضحیک اور توہین ہے یا اپنے علم کا غرّہ ،تو ایسے سائل کا براہ راست جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا جائے کہ آپ سائل ہیں یا ناقد ؟ آپ استفسار کرنے آئے ہیں یا اعتراض وارد کرنے؟ مقصود حصول علم ہے یا مباحثہ؟ اگر سائل ہو تو سوال کے آداب سیکھ لو اور اس کے بعد سوال کرو، اگر معترض اور ناقد ہو تو تمھیں علوم دینیہ پرعبور ہونا چاہیے تاکہ اصولوں کی بنیاد پر اعتراض وارد کرسکو اور ہمارے سوالات کے جواب دے سکو۔ مثلاً ایک ناقد نے سوال کیا کہ قرآن میں شرابی کے لیے کوڑوں کی سزا بیان نہیں ہوئی لہٰذا میں فقہا کی سزا کو نہیں مانتا کیونکہ اصل ماخذ تو قرآن ہے؟ایسے ناقد سے پوچھا جائے کہ آپ قرآن کو عربی میں سمجھ سکتے ہیں؟ چند آیات پڑھ کر اس کا امتحان لے لیا جائے کیا آپ نے تمام قرآن پڑھ لیا ہے؟ علم تفسیر حاصل کرلیا ہے؟ قرآن سے اخذ احکام کے اصول پڑھے ہیں؟ کن کن تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے؟ اور عربی، انگریزی اور اردو میں کون سی تفاسیر اور احادیث کے مجموعے پڑھے ہیں؟اس سے عربی قواعد کے کچھ اصول ماضی اور مضارع کی گردان وغیرہ پوچھ لی جائے۔ پھر پوچھاجائے کہ ایمان آپ نے کس ذریعے سے حاصل کیا کہ اصل ماخذ قرآن ہے سنت نہیں؟ اس ماخذ پر نقدو جرح کیجیے پھر اس سے اصول بحث طے کرلیجیے کہ احکامات و قوانین کا ماخذ محض قرآن ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا ماخذ نہیں تاکہ اسے ایک ہی موقف پر رکھ کر گفتگو کی جائے، اس سے پوچھا جائے کہ قرآن کو ماخذ کس کی سند پر مانا گیا ہے؟ کیا قرآن کے کلام اللہ ہونے کی شہادت خود اللہ نے تمھیں دی ہے یا یہ تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پہنچی ہے؟ تو پہلے تم رسول اللہ پر ایمان لائے تھے یا قرآن پر؟ تو رسول پر ایمان مقدم ہے یا قرآن پر؟ اس تقدیم و تاخیر کا حکم کس نے دیاہے اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے تو اختلاف میں حکم کون ہوگا رسول اللہ یا کلام اللہ ؟یا دونوں؟ یا کلام اللہ بذریعہ رسول اللہ ؟اس کے بعد وہ تمام احکامات پوچھ لیے جائیں جو قرآن میں درج نہیں ہیں لیکن پوری امت کا جن پر اجماع ہے مثلاً اذان، نماز جنازہ، عورت کے ایام حیض میں روزوں کی قضاء وغیرہ وغیرہ۔
ایک سائل نہایت بد تمیزی سے ایک عالم پر حملہ آور ہوا، عالم نے اس کے اعتراضات،ہجو، بد تمیزی کے جواب میں کمال تحمل سے پوچھا آپ سائل ہیں یا واعظ یا ناقد؟ کہنے لگا اس کا کیا مطلب؟ انھوں نے کہا آپ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں ؟یا مجھے کچھ بتانا چاہتے ہیں یا سنانا چاہتے ہیں یا تنقید کرنا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا پوچھنا چاہتا ہوں، فرمایا اگر سائل ہو توپہلے سوال کرنے کا ادب سیکھو! اس نے کہا میں ناقد ہوں کہا تو اعتراض کرنے کے لیے علم چاہیے ، آپ کے اعتراض اسلام پر ہیں لہٰذا یہ بتائیے کہ کیا آپ نے دینی علوم سیکھے ہیں؟کیونکہ اعتراض کے لیے علم ضروری ہے اور تقلید کے لیے جذبۂ اطاعت اور اپنے جہل کاادراک اور اعتراف۔ کہنے لگا میں دینی علوم سے واقف ہوں عالم نے چند سوال پوچھے جواب نہ دے سکا، انھوں نے کہا اچھاآپ اردو تو یقیناً جانتے ہوں گے، کہنے لگا ظاہر ہے میں اردو بول رہا ہوں، ویسے میں بہت عمدہ اردو جانتا ہوں، کہا اگر تم اردو میں مہارت رکھتے ہو تو ہم تم سے بات کریں گے اور تمھارے اعتراضات ضرور سنیں گے کیونکہ زبان کا علم اہم ہوتاہے اور زبان اظہار علم کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے، کہنے لگا میرے ہمیشہ اردو میں اسّی نمبر آئے ہیں، عالم نے کہا اردو الفاظ میں زیر زبر کا فرق بتاسکتے ہو؟ کہنے لگا ہاں! اسے شعر لکھ کر دیا کہ زیر زبر لگادو یا صحیح تلفظ سے شعر پڑھ دو:
کئی گزرے سَن، تیرا کم تھا سِن، کہ لیے تھے سُن تیرے گھونگرو
کبھی باجے چَھن، کبھی باجے چِھن، کبھی باجے چُھن تیرے گھونگرو
وہ زیر زبر کا فرق تلفّظ سے ادا نہ کرسکا، عالم نے کہا اچھا لفظ تلفظ کو صحیح مخارج سے ادا کرو، وہ اس پر بھی قادر نہ تھا اس نے تل الگ کہا اور فظ الگ تشدید بھول گیا۔
عالم نے کہا بیٹے نہ علوم اسلامی جانتے ہو، نہ اردو جانتے ہو، نہ علم سے تعلق ہے اور تنقید ایسے کرتے ہو جیسے سب علوم سے واقف ہو یعنی بحر العلوم ہو۔ تم سے کیا بات کی جائے. سائل نے کہا آپ کچھ اور پوچھ لیں ان شاء اللہ صحیح جواب دوں گا، انھوں نے کہا اچھا مختلف الفاظ کا فرق بتاؤ جو بہ ظاہر ایک جیسے لگتے ہیں آواز میں بھی تلفظ میں بھی اور ایسے الفاظ جن کی آواز یکساں ہے یعنی سننے میں ایک جیسے لیکن تحریر میں الگ ہیں مثلاً بَر، بِر، بُرکا فرق بتاسکتے ہو؟ باز اور بعض، باد اور بعد، معاش اور ماش، خال اور خال، جال اور جعل، لعل اورل ال، ابر اور عبر، مہر اور مُہر، بحر اور بہر، سحر اور سحّر، سطر اور ستر، خطرہ اور قطرہ، آج آنا اور آجانا، آم اور عام، بام اور بام، دام اور دام، نام اور نعم، حمل اور حمل، طَور اور طُور، بیر اور بَیر، پیِر پَیر اور پیر، سِیر سیَر اور سَیر اور سیر، تیر اور تَیر، دراور دُر، گَرگُر اور گِر، چَر چُر اور چِر، سَر سِر اور سُر، تہہ اور طے، ماہ اور ماہ، بار اور بار، نال اور نعل، زیر زبر پیش کے ساتھ بال بعل اور بال، رم اور رَم، مرثیہ اور ہرسیہ، حال اور ہال، ڈال اور ڈال، دِل دَل، مِل مَل، مت و مت، لُعاب اور لعَب، بَن بِن بُن اور بن، دھن اور دُھن، گھِن، گھُن اور گھن، بھِن اور بُھن، بِین، بَین، بیّن اور بین، خط اور قط، قِسط اور خِسّت، منشور اور منثور، جُوں اور جوں، جون اور جُون، گو اور گُو، کَل، کَل، کِل، کُل، کلی، کُلی، کُلی، دَم دُم، بم بم، تار اور تار محَل اور محِل، لو اور لَو، لُو، کے اور کَے، آر اور عار، ظن اور زن، بیِت بیت اور بیعَت۔ میت، معیت اور مَیّت ، سَت اور سُت، بَد اور بِد، بس بِس، تاخت اور تخت، غَل اور غُل ، رجس اور رَجز، گِن اور گُن، تن اور تُند، تان اور طعن، کِن اور کُن، لعان اور لعن ، جام اور جام، مطلع اور مُطلّع ، مقطّع اور مُقطع، جہل اور جُہل، عاصم اور آثم، ٹال اور ٹال، گُل گِل اور گَل، تَل تِل، اور تُل ، بَل اور بل، بلا، بِلا، بلاّ، بَلاّ، گھوٹ اور گھونٹ، اوٹ اور اونٹ، کَش اور کُش، جَل اور جُل، دم اور دُم، کِل کَُل اور، دَیر اور دیر، ٹھٖر اور ٹھر، مَیل مِیل اور میل ، ہول ہول، اَب اور اب ،بیل بَیل ، بانٹ، باٹ، ڈاٹ اور ڈانٹ، کَٹ اور کِٹ اور کُٹ، شِیر، اور شیر ،ذم اور ضم ،چین اور چَین، انس اور اُنس ، چخ اور چق، شکر اور شُکر، قسم اور خصم، صرف اور سرف ، بست اور بسط، ملت او رملط، ملک مُلک اور مَلک، تَلک اور تلّک، کِشت اور کُشت ، حَسین اور حسین ، خلا اور خلع، عین اور عین، طلاء، تلا، تلا، تُلا اور تِلاّ، مِل اور مَل، قاصر اور خاسر ، بسر اور بصر، نصر اور نثر ، نخل اور نقل ، قصر اور خسر ، بطر اور بتر ، عقل اور اقل، بَط اور بت، شور اور شور، صَر اور سَر، عصر اور اثر، چُہل اور چَہل، صم، سُم، سِم، کانچ اور کانچ، اُتر اور عطر، بھیڑ اور بھیڑ، بھِڑ اور بھڑ ،
عالم نے اپنی گفتگو کا لب و لہجہ بالکل دھیما رکھتے ہوئے ناقد کی علمیت کی حقیقت چند سوالات میں واضح کردی اس کی جہالت کو واضح کرنے کے بعد دلائل کی ضرورت ہی نہیں رہی، پھر اسے ہدایت کی چونکہ تمھیں ان امور کا علم نہیں لہٰذا تم ناقد نہیں بن سکتے، البتہ مقلد بن سکتے ہو کیونکہ جو نہیں جانتے وہ کسی جاننے والے سے پوچھ لیں اور پوچھ کر اہل علم کی تقلید کریں، دنیا میں یہی طریقہ ہے. اگر نقد کرنے کا شوق و ذوق ہے تو اس کے لیے دینی علوم کی تحصیل کیجیے، پھر مباحثے کے لیے تشریف لائیے۔
۔اسی طرح ایک ناقد اور معترض نے سوال کیا کہ کیا خدا کوئی ایسا پتھر بنا سکتا ہے جسے خود نہ اٹھا سکے؟ اگر سوال کا جواب ہاں میں ہو تب اگر نفی میں ہو تب خدا کی شان ان اللہ علی کل شئی قدیر کو زک پہنچانا مقصود تھا، عالم نے سائل سے پوچھا کیا تم خدا کو مانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں؟ پوچھا خدا کو تم نے کس ذریعے سے پہچانا؟ اور کس ذریعے سے مانا؟ اس نے کہا دین اسلام کے ذریعے؟ پوچھا تم دین اسلام کو مانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں، پوچھا کتنے فی صد مانتے ہو؟ اور کیوں مانتے ہو؟ اور کس کے کہنے سے مانتے ہو؟ کہنے لگا سو فی صد مانتا ہوں، انھوں نے پوچھا اگر سو فی صد مانتے ہو تو یہ بتاؤ کہ ذات و صفات خدا وندی میں تدبر و تفکر کی حدود تمھارے دین نے کیا متعین کی ہیں؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا تو کہا پہلے ان حدود کو جان لو پھر سوال کرنا۔ چند روز کے وقفے کے بعد اس نے رابطہ کیا اور عرض کیا کہ میں خدا کو نہیں مانتا سوال کے لیے سنجیدگی، لگن اور تڑپ شرط لازم ہے، عالم نے جواب دیا جب تم خدا کو ہی نہیں مانتے تو تمھارا سوال محض ذہنی مشق ہے اور دین ذہنی ورزش کے لیے نہیں آیا لہٰذا سوال کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ اس قسم کے سوال عموماً منطق اور ذہنی مشقت کے ذریعےگھڑ لیے جاتے ہیں۔ جو لوگ بہ ظاہر خدا کا انکار کرتے ہیں اصلاً خدا کے منکر نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں سے بحث و مباحثے کے بجائے محبت کا رویہ اختیار کیا جانا چاہیے، ایسے افراد کے ساتھ دلائل کے بجائے اخلاق کے اعلیٰ ترین رویے سے پیش آنا ضروری ہے، ان کے اندر موجود خیر کو ابھارنا ضروری ہے، نہ کہ بحث حجت کرکے ان کے قلب میں موجود کفر کی کونپل کو تناور درخت میں تبدیل کردیا جائے۔ ایسے لوگوں سے دلیل، حجت بازی اورقیل و قال میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے، ممکن ہے وہ اپنے کفر میں اتنا آگے بڑھ جائیں کہ دین سے منحرف ہونے کا اعلان کردیں ایسے لوگوں کی خاطر داری اور تالیف قلب کے لیے کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھنا چاہیے، یہ وہ لوگ ہیں جو دلائل کی تلوار سے نہیں محبت کی یلغار سے گھائل ہوتے ہیں۔ انھیں خبر کی نہیں نظر کی ضرورت ہے، ان کے ذہن اور دماغ کو نہیں قلب کو پکار نے اور ان کے دروازۂ دل پر دستک دینے کی ضرور ت ہے۔ایسے افراد کو نہایت تعظیم ،اکرام اور خاطر تواضع کے بعد کبھی رات کے وقت سیر کراتے ہوئے قبرستان تک لے جایئے اس وادیٔ خاموش میں پہنچ کر بڑے بڑوں کا دل دہل کر نرم ہو جاتا ہے اور خدا یاد آجاتا ہے :
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آگیا
ملحدین اور دین بے زار لوگوں سے بحث و مباحثے کے بجائے یہ رویہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کسی بات کو کسی پر مسلط کرنا یا مرعوب و مغلوب کرنا یا عاجز و قاصر کر دینا کمال نہیں ہے، فرد کو لاجواب کرنے اور اس کے ذہن کو معطل کرنے کے بجائے اس کے قلب کو فتح کرنے کی حکمت ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے، مناظرانہ دلیل سے فرد خاموش اور مغلوب ہو سکتا ہے مگر متاثر و مفتوح نہیں ۔ دلیل کا مقصد شکست دینا نہیں قلب میں جذبۂ قبولیت پیدا کرنا ہے، قلب کو بدلنا اصل ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے لیے امام مالکؒ جیسے تحمل ،صبر، حوصلے اور عمل کی ضرورت ہے۔ امام مالک نے حدیث و افتاء کی بیش بہا خدمت کی اور مؤطا جیسی گرانقدر کتاب تالیف فرمائی ،جس میں اہل حجاز کی قوی احادیث اور مستند اقوال صحابہ و فتاویٰ تابعین جمع کردیے اور اس کے بہترین فقہی ابواب قائم کیے۔ مؤطا آپ کی چالیس سالہ جاں فشانیوں کا ثمرہ ہے۔اسلام میں حدیث و فقہ کی یہ سب سے پہلی کتاب ہے۔ستر معاصر علمائے حجاز نے بھی اس کی تائید و موافقت فرمائی۔اس کے باوجود خلیفہ منصور نے جب اس کے چند نسخے کرا کے دوسروں شہروں اور ملکوں میں بھیجنے کا ارادہ کیا تاکہ لوگ اس فقہ پر عمل کریں اور پیدا شدہ اختلافات ختم ہو جائیں تو سب سے پہلے آپ نے اس خیال کی مخالفت کی اور فرمایا امیر المومنین! آپ ایسا نہ کریں۔ لوگوں تک بہت سی باتیں اور احادیث و روایات پہنچ چکی ہیں اور ہر جگہ کے لوگ ان میں سے کچھ کو اپنا چکے ہیں جس سے خود ہی اختلاف رونما ہو چکا ہے اور اب اس اقدام سے مزید اختلافات پیدا ہو جائیں گے، اس لیے انھوں نے اپنے لیے جو اختیار کرلیا ہے اسی پر انھیں آپ چھوڑ دیں خلیفہ منصور نے یہ سن کر کہا: ابو عبد اللہ آپ کو اللہ اور توفیق بخشے۔
امام مالکؒ کتنے جلیل القدر تھے جو بغیر رضا مندی کے اس کتاب پر دعوتِ عمل کا اقدام بھی نہیں کرنے دیتے جس میں انھوں نے اپنی سنی ہوئی سب سے اچھی احادیث اور اپنا محفوظ و قوی علم منتقل و محفوظ کردیا تھا جس پر اہل مدینہ اور بہت سے معاصر علماء کا بھی اتفاق تھا۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے موطا کو ریاستی سطح پر ریاست کے ذریعے رائج نہیں کیا اسی طرح گفتگو اور مناظرے میں اپنی رائے مسلط کرنے کی ضرورت نہیں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
نزول عیسی اور قرآن، غامدی صاحب اور میزان : فلسفہ اتمام حجت
حسن بن علی نزول عیسی کی بابت قرآن میں تصریح بھی ہے (وإنه لعلم للساعة فلا...
فہم نزول عیسی اور غامدی صاحب
حسن بن علی غامدی صاحب نے بشمول دیگر دلائل صحیح مسلم کی حدیث (7278، طبعہ...
مسئلہ تکفیر : غامدیت و قادیانیت
عبد اللہ معتصم ایک مسئلہ تکفیر کا ہے۔ اس میں بھی غامدی صاحب نے پوری امت...