کیا کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا؟

Published On June 25, 2024
کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ سوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حدیث و سنت کا مفہوم : اہل اسلام اور غامدی صاحب  غامدی صاحب کے اندراس شوخ چشمانہ جسارت کاحوصلہ کیوں پیدا ہوا ؟ اس لیے کہ وہ آپ کے طریقے اور عمل کو ’سنت ‘ سمجھنے کے لیے تیار نہیں؛ چناں چہ ان کے ٹیپ کا بند ملا حظہ فرمائیں ’’لہٰذا سنت صرف یہی...

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور تبیین پر نقد کا سلسلہ جاری ہے جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کے تصور تبیین کی نہ صرف یہ کہ لغت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ اس لفظ کے قرآنی محاورے و استعمالات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم غامدی صاحب یہ تاثر بھی...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

ڈاکٹر زاہد مغل  توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ دوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صحابہ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ اول

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ماہنامہ الشریعہ میں مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے کتابچے ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث وسنت‘‘ کا اور ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت بنام ’’الشریعہ کا طرز فکر اور پالیسی: اعتراضات واشکالات کا جائزہ‘‘ کا اشتہار دیکھا تو راقم نے نہایت ذوق وشوق کے...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل تعارف جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے...

محمد رفیق چوہدری

دور ِ جدید کے بعض تجدد پسند حضرات نے نبی اور رسول کے درمیان منصب اور درجے کے لحاظ سے فرق و امتیاز کی بحث کرتے ہوئے یہ نکتہ آفرینی بھی فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو تو اُن کی قوم بعض اوقات قتل بھی کردیتی رہی ہے مگر کسی قوم کے ہاتھوں کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا۔ یہ لوگ اس امر کو ایک اُصول، ایک عقیدہ اور قانونِ الٰہی قرار دیتے ہیں کہ نبی کے لئے وفات پانے یا قتل ہونے کی دونوں صورتیں تو ممکن ہیں مگر رسول کبھی قتل نہیں ہوسکتا۔

چنانچہ جناب جاوید احمد غامدی کے امام صاحب مولانا امین احسن اصلاحی سورۂ ق کی آیت14کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”رسول کا کسی قوم کے ہاتھوں قتل ہونا ثابت نہیں ہے۔” 1

پھر اپنے امام صاحب کے اس متن کی گول مول شرح جاوید احمد غامدی صاحب نے یوں بیان فرمائی ہے کہ
”رسولوں کے بارے میں اس اہتمام کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کی زمین پرخدا کی کامل حجت بن کر آتے ہیں۔ وہ آفتابِ نیم روز کی طرح قوم کے آسمان پر چمکتے ہیں۔ کوئی دانا و بینا کسی دلیل و برہان کی بنا پر اُن کا انکارنہیںکرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو کسی حال میں ان کی تکذیب کرنے والوں کے حوالے نہیں کرتا۔ نبیوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی قوم ان کی تکذیب ہی نہیںکرتی، بارہا اُن کے قتل کے درپے ہوجاتی ہے اور ایسا ہوا بھی ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوجاتی ہے… لیکن قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کے معاملے میں اللہ کا قانون اس سے مختلف ہے۔”2

پھر مزید ارشاد فرمایا ہے کہ
 نبی اپنی قوم کے مقابلے میں ناکام ہوسکتا ہے، لیکن رسولوں کے لئے غلبہ لازمی ہے۔” 3

مگر ان متجددین اور منکرین ِحدیث کی یہ نکتہ طرازی بالکل غلط ہے اور خود قرآن مجید کے نصوص اور واضح احکام کے خلاف ہے۔ قرآنِ مجید کی اکثر آیات اس قدر واضح اور صریح انداز میں (عبارة النص کے طریقے پر) اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ انبیاے کرام کی طرح رسولوں کا قتل ہوجانا بھی ایک امر واقعہ ہے۔

قرآنِ مجید کے نصوص
قرآنِ مجید کے جن نصوص کی بنیاد پر ہم اس ‘نئے عقیدے’ اور اس ‘نرالے اُصولِ دین’ کو غلط قرار دیتے ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے
اول ۔ سورۂ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ دوسرے رسولوں کی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی وفات پانے یا قتل ہوجانے کی دونوںصورتوں کا امکان موجود ہے۔ گویا آپؐ کو طبعی موت بھی آسکتی ہے اور آپؐ مقتول بھی ہوسکتے ہیں
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَ‌سُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَـٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ‌ ٱللَّهَ شَيْـًٔا…﴿١٤٤﴾…سورۃ آل عمران
اور محمدؐ تو بس ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں۔ پس اگر یہ وفات پاجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اُلٹے پاؤں واپس چلے جاؤ گے اور جو کوئی بھی اُلٹے پاؤں واپس چلا جائے گا وہ اللہ کا کچھ بھی نقصان نہ کرے گا۔” (آلِ عمران:144)

دوم ۔ سورۂ بقرہ میں بنی اسرائیل سے فرمایا گیاکہ
أَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَ‌سُولٌۢ بِمَا لَا تَهْوَىٰٓ أَنفُسُكُمُ ٱسْتَكْبَرْ‌تُمْ فَفَرِ‌يقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِ‌يقًا تَقْتُلُونَ ﴿٨٧…سورۃ البقرۃ
تو کیا جب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس وہ چیز لے کر آیا جو تمہارے نفس کو پسند نہ آئی تو تم نے تکبر کی راہ اختیار کی۔ پھر بعض کو تم نے جھٹلایا اوربعض کو تم قتل کرتے تھے۔”

اس آیت سے واضح طور پرمعلوم ہواکہ بنی اسرائیل کے ہاتھوں کئی رسول قتل ہوئے تھے۔
سوم ۔ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہواکہ
لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَ‌ٰٓ‌ءِيلَ وَأَرْ‌سَلْنَآ إِلَيْهِمْ رُ‌سُلًا ۖ كُلَّمَا جَآءَهُمْ رَ‌سُولٌۢ بِمَا لَا تَهْوَىٰٓ أَنفُسُهُمْ فَرِ‌يقًا كَذَّبُوا۟ وَفَرِ‌يقًا يَقْتُلُونَ ﴿٧٠ …سورۃ المائدہ
بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کے پاس کئی رسول بھیجے۔ جب کبھی کوئی رسول انکے پاس وہ چیز لایا جو اُن کو پسند نہ آئی تو بعض کو وہ جھٹلاتے اور بعض کو قتل کر ڈالتے تھے۔”

اس آیت سے بھی صریح طور پر معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کئی رسولوں کوقتل کیا تھا۔

چہارم ۔ سورۂ آلِ عمران میں بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد ہواکہ
ٱلَّذِينَ قَالُوٓا إِنَّ ٱللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَآ أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَ‌سُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْ‌بَانٍ تَأْكُلُهُ ٱلنَّارُ‌ ۗ قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُ‌سُلٌ مِّن قَبْلِى بِٱلْبَيِّنَـٰتِ وَبِٱلَّذِى قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ ﴿١٨٣…سورۃ آل عمران
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ پیش کرے جسے آگ کھا جائے۔ آپؐ کہہ دیجئے کہ مجھ سے پہلے تمہارے پاس کئی رسول آئے، نشانیاں لے کر اور اس چیز کے ساتھ جسے تم کہہ رہے ہو، پھر تم نے ان کو قتل کیوں کیا؟ اگر تم سچے ہو۔”

اس مقام پر بنی اسرائیل کے بارے میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ان کادعویٰ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن سے یہ عہد کررکھا تھا کہ وہ کسی ایسے رسول پر ایمان نہ لائیں جو ان کے سامنے نیاز یا قربانی کو آسمانی آگ سے نہ جلا دکھائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کا یہ جواب دیا ہے کہ اے نبیؐ! آپؐ ان سے کہہ دیں کہ اگر یہی بات ہے تو جو رسول اور پیغمبر اُن کے پاس دلائل اور مذکورہ معجزہ بھی لاتے رہے، اُن کی اُنہوں نے تکذیب کیوں کی تھی اور ان میں سے بعض کو قتل کیوں کیاتھا؟

قرآن مجید کے یہ واضح نصوص ہیں جن سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی طرح رسول بھی بعض اوقات اپنی قوم کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔ بالخصوص بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد ہوا کہ اُنہوں نے بہت سے رسولوں کو نہ صرف جھٹلایاتھا بلکہ اُن کو قتل بھی کرڈالا تھا۔ مذکورہ دلائل و براہین کے بعد یہ دعویٰ کرنے کی کیاگنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ قانون الٰہی یہی رہا ہے کہ کبھی کوئی رسول کسی قوم کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا؟

متجددین کافکری تضاد
متجددین حضرات کے ہاں فکری تضاد کی بہت فراوانی ہے۔ یہ لوگ ایک جگہ ایک بات کا اقرار کرتے ہیں تو دوسرے مقام پر اُسی کا انکار کردیتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ اپنی اس تضاد بیانی کو ‘علم و تحقیق’ کانام دیتے ہیں۔

حدِ رجم کامعاملہ ہو یا اجماعِ اُمت کے کسی فیصلے کا، خبر واحد کی حجیت کی بات ہو یا صحیح احادیث کے واجب العمل ہونے کی۔ جہاد کی بحث ہو یا مرتد کی سزا کی، عورت کی گواہی کا معاملہ ہو یا اُس کی دیت کا… غرض یہ لوگ ہر جگہ فکری تضاد اور ذہنی انتشار کا شکارنظر آتے ہیں۔ اپنے من گھڑت اُصولِ دین کے ذریعے یہ حضرات پورے دین اسلام کا تیاپانچا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے کو دھوکا دیتے اور حقیقت میں خود دھوکا کھاتے ہیں!!
اب ہم ان کے فکری تضاد کو ان کے اپنے الفاظ میں واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ

اول ۔ آلِ عمران کی آیت 144 کی تفسیر کرتے ہوئے مولانااصلاحی صاحب لکھتے ہیں کہ
”مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں بہت سے رسول گزرے ہیں، اسی طرح محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی اللہ کے رسول ہیں۔ جس طرح کی آزمائشیں اور مصیبتیں دوسرے رسولوں کو پیش آئیں، اسی طرح کی آزمائشیں اورمصیبتیں انہیںبھی پیش آسکتی ہیں۔ جس طرح تمام رسولوں کو موت کے مرحلہ سے گزرنا پڑا، اُنہیں بھی ایک دن وفات پانا ہے۔ ان کے رسول ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ وفات نہیں پائیںگے یا قتل نہیں ہوسکتے یاکسی مصیبت یا ہزیمت کااِبتلا انہیں پیش نہیںآسکتا۔ اگر کسی نے اس غلط فہمی کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا اور اب اُحد کے حادثے کے بعد کسی تذبذب میںمبتلا ہوگیا ہے اور وہ از سرنو جاہلیت کی زندگی کی طرف پلٹ جانا چاہتا ہے تو پلٹ جائے، وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا بلکہ اپنی ہی دنیا اور آخرت برباد کرے گا۔” 4

اس سے معلوم ہوا کہ مولانا صاحب کے بیان کے مطابق یہ غلط فہمی ہے کہ کوئی رسول قتل نہیں ہوسکتا۔ اب ایک اور مقام پر دیکھئے۔

دوم ۔ آلِ عمران آیت 183 کی تفسیر کرتے ہوئے مولانااصلاحی صاحب لکھتے ہیں:
”اُن سے کہہ دو کہ مجھ سے پہلے ایسے رسول آچکے ہیں ، جو نہایت واضح نشانیاں لے کرآئے اور وہ معجزہ بھی اُنہوں نے دکھایا جس کا تم نے ذکر کیا تو تم نے ان کو قتل کیوں کیا؟ تمہارا یہ فعل تو اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ تم اپنی اس بات میں بھی جھوٹے ہو۔ اگر تم کو یہ معجزہ بھی دکھایاجائے گا جب بھی اپنی اسی ضد پر اَڑے رہو گے اور ایمان نہ لانے کاکوئی اور بہانہ تلاش کرلو گے۔ ” 5

مولاناکے اس بیان سے واضح ہے کہ کئی رسولوں کو اُنہوں (بنی اسرائیل) نے قتل کیاتھا۔

سوم ۔ پھر اسی کتاب میں مولانا اصلاحی صاحب سورۂ مائدہ کی آیت 70 کی تفسیر کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
”فرمایا کہ ان سے جس کتاب و شریعت کی پابندی کا عہد لیا گیا تھا اور جس کی تجدید اور یاددہانی کے لئے اللہ نے یکے بعد دیگرے اپنے بہت سے رسول اور نبی بھیجے، اس عہد کو اُنہوں نے توڑ دیا اور جو رسول اس کی تجدید اور یاددہانی کے لئے آئے ہیں، ان کی باتوں کو اپنی خواہشات کے خلاف پاکر یا تو ان کی تکذیب کردی یااُن کوقتل کردیا۔” 6

اس جگہ بھی مولانا صاحب نے اپنے ابتدائی دعوے کے خلاف رسولوں کے قتل ہونے کو تسلیم کیا ہے۔ اس طرح مولانا اصلاحی صاحب ایک ہی سانس میںرسولوں کے قتل ہونے کا انکار بھی کردیتے ہیں اور اقراربھی کرلیتے ہیں۔ع جناب شیخ کا نقش ِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی!

تو جناب یہ ہے تدبر قرآن اور قرآن پر ‘تدبر’ کرنے اور اس پر ‘تحقیق’ کرنے کا وہ انوکھا انداز جس سے بے چارے تمام مفسرین کرام محروم رہے ہیں۔

مولانا اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر اور اپنی دوسری تالیفات میں فکری تضادات کے بہت سے شاہکار ‘تحقیق’ کے نام سے پیش کئے ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب ‘حد ِ رجم’ میں بے نقاب کردیا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں کہ

  •  شادی شدہ زانی کے لئے رجم کی سزا ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
  • حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات بھی پاچکے ہیں اور اُن کی وفات نہیںبھی ہوئی ہے۔
  • وہ ابلیس فوت ہوچکا ہے جس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا اور وہ ابھی تک زندہ بھی ہے۔
  • احادیث دین میں حجت بھی ہیں اور حجت نہیں بھی ہیں۔
  • اجماعِ اُمت حجت بھی ہے اور حجت نہیں بھی ہے۔
  • خبر واحد حجت ہو بھی سکتی ہے اور حجت نہیں بھی ہوسکتی۔
  •  بائبل تحریف شدہ بھی ہے اور اس سے شریعت کے احکام بھی مستنبط کئے جاسکتے ہیں۔
  • اسلامی حدود و تعزیرات وحشیانہ بھی ہیں اور منصفانہ بھی۔
  • سنت سے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص یا تحدید و تقیید ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ہوسکتی۔
  • قرآنِ مجید میں قراء ات کا اختلاف درست بھی ہے اور غلط بھی۔
  • جارحانہ جہاد جائز بھی ہے اور ناجائز بھی۔

متجددین اور منکرین ِحدیث کی تحریروں اور تقریروں میں کثرت سے فکری تضادات پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ایک جگہ ایک اُصول کو مانتے ہیں، دوسری جگہ اسی اُصول کا انکار کردیتے ہیں کبھی علماے اُمت کو حجت اوردلیل مانتے ہیں اور کبھی ان کی تحقیر اور استخفاف کرنے لگ جاتے ہیں۔ غرض ‘دروغ گو را حافظہ نباشد’ والی بات ان پر پوری طرح صادق آتی ہے۔

دراصل دین اسلام ایک اکائی ہے اور ایک مربوط نظامِ فکر و عمل ہے۔ جو شخص اس عمارت میں سے کوئی ایک اینٹ بھی اُس کی جگہ سے اُکھیڑے گا تو اس سے پوری عمارت متاثر ہوگی اور دیکھنے والی نگاہ فوراً اس خرابی پرپڑے گی اور نقص کی نشاندہی کردے گی اور گمراہی نظر آجائے گی۔ اس سے پہلے بھی ہم ‘محدث’ کے صفحات میںمتجددین اور منکرین حدیث بالخصوص مولانا امین احسن اصلاحی اور ان کے اندھے مقلد جناب جاوید احمد غامدی کے افکار ونظریات کا تنقیدی جائزہ لیتے رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی ہم اُن کی ایک ایک تاویلِ فاسد اور گمراہی کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔


حوالہ جات
1. تدبر قرآن : 7؍542
2. ماہنامہ ‘اشراق’ اگست 1988ء صفحہ 68 نیز ‘میزان’ حصہ اوّل، صفحہ 21 مطبوعہ مئی 1985ئ
3. میزان حصہ اوّل، صفحہ 23، مطبوعہ مئی 1985ئ
4. تدبر قرآن: 2؍ 185،186
5. تدبرقرآن:2؍220،221
6. تدبر قرآن: 2؍ 566

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…