ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد فرماتے ہیں:۔خود کو احمدی کہلوانے والوں کے ماوراے عدالت قتل کا سبب 1984ء کا امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ہے؛ جس کا سبب 1974ء کی آئینی ترمیم ہے جس نے خود کو احمدی کہلوانے والوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا؛ جس سبب قراردادِ مقاصد ہے جس...
غلامی : پہلے، اب اور آئندہ
کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ
ڈاکٹر زاہد مغل غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ علم کلام ناگزیر علم نہیں اس لئے کہ قرآن تک پہنچنے کے جس استدلال کی متکلمین بات کرتے ہیں وہ قرآن سے ماخوذ نہیں نیز قرآن نے اس بارے میں خود ہی طریقہ بتا دیا ہے۔ مزید یہ کہ علم کلام کا حاصل دلیل حدوث ہے جس کا پہلا مقدمہ (عالم حادث...
تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ڈاکٹر اسرار احمد پر طنز اور استہزا کا اسلوب اب اس باب سے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جو غامدی صاحب نے ’احساسِ ذمہ داری‘ کے ساتھ ڈاکٹر اسرار صاحب پر تنقید میں لکھا۔ یہاں بھی انھیں بقول ان کے شاگردوں کے، کم از کم یہ تو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ ڈاکٹر...
تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد نے یکسر جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نہایت بے دردی کے ساتھ، اور ہاتھ نچا نچا کر جس طرح فلسطین کے مسئلے پر ہفوات پیش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی، اس پر گرفت کریں، تو غامدی صاحب کے مریدانِ باصفا اخلاقیات کی دُہائی...
فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!۔ فلسطین کے مسئلے پر غامدی صاحب اور ان کے داماد جناب حسن الیاس نے جس طرح کا مؤقف اختیار کیا ہے، اس نے بہت سے لوگوں کو حیرت کے ساتھ دکھ میں مبتلا کیا ہے، غزہ میں ہونے والی بدترین نسل کشی پر پوری دنیا مذمت...
تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)
حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں "یہ چیز حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے" (ميزان) جیسے سود دینے والے کی مذمت میں اگرچہ حدیث صراحتا بیان ہوئی ليكن غامدی...
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
رمضان کے مہینے میں سوشل میڈیا پر عموماًً مذہبی مسائل پر بحث چلتی ہے۔ بعض لوگ ایسے موقع کو مذہب پر اعتراض کےلیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ایک مرغوب موضوع غلامی ہے اور یہ عموماً مسلمانوں کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کےلیے یا تو ماضی کی غلامی کی بات کرتے ہیں یا مستقبل کے متعلق پیشین گوئی کرتے ہیں جب مفروضہ طور پر مسلمان کسی وقت اس پوزیشن پر آجائیں گے کہ وہ پھر سے لوگوں کو غلام بناسکیں گے۔ لمحۂ موجود میں غلامی کی بات یا تو ہوتی نہیں، یا ہوتی ہے تو صرف ایک مخصوص گروہ کی جس نے بہت ہی محدود پیمانے پر اس کا ارتکاب کیا، حالانکہ یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ اس مخصوص گروہ کو سوا ارب مسلمانوں کا نمائندہ کیسے مانا جاسکتا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ مستقبل میں غلامی کی پیشین گوئیاں کرنے والوں میں غامدی صاحب کا حلقۂ اثر بھی شامل ہوتا ہے حالانکہ غامدی صاحب کے نزدیک مسلمانوں کے عالمی سیاسی غلبے کا مفروضہ ہی غلط ہے کیونکہ ان کے خیال میں نہ تو امام مہدی نے آنا ہے، نہ ہی سیدنا مسیح نے۔ ماضی کے لوگوں کو ماضی کا جواب دینے دیں، مستقبل کے لوگ اپنا جواب دے لیں گے، ہم لمحۂ موجود کی بات کیوں نہ کریں اور یہ کیوں نہ دیکھیں کہ اس وقت غلامی کی کتنی شکلیں رائج ہیں اور ان میں کتنوں کےلیے ہم ذمہ دار ہیں؟
غلامی کے موضوع پر پچھلی ڈیڑھ صدی میں لکھے گئے لٹریچر کی عمومی خصوصیت یہ ہے کہ ’غلامی‘ کو ایک جامد اور عالمی طور پر متفق علیہ یکساں تصور فرض کرلیا جاتا ہے حالانکہ مختلف ادوار میں، مختلف معاشروں میں، مختلف نظامہاے قوانین میں، غلامی کا عنوان مختلف نوعیت کی جکڑبندیوں کو دیا گیا ہے۔ اس انتہائی وسیع سپیکٹرم میں موجود مختلف شیڈز کو ’غلامی‘ کا ایک عنوان دے کر نہ صرف تنوع کی نفی کی جاتی ہے بلکہ بہت ہی زیادہ سادہ فکری اور سطحیت کی بنیاد پر انتہائی قطعی لہجے میں دو ٹوک موقف اپنایا جاتا ہے۔ مثلاً رومی قانون میں غلام اور اسلامی قانون میں غلام کا تصور یکساں نہیں تھا۔ رومی قانون میں غلام کو ’شخص‘ کے بجاے ’مال‘ پراپرٹی قرار دیا جاتا تھا۔ ’شخصیت‘ کی نفی کا قانونی اثر یہ تھا کہ گائے، بھینس، زمین، لکڑی یا کسی بھی دوسری چیز کی طرح، جسے مال مانا جاتا تھا، غلام کے کوئی قانونی حقوق نہیں ہوتے تھے۔ اس کے برعکس اسلامی قانون میں غلام کو محض مال نہیں مانا جاتا تھا بلکہ اس کی الگ قانونی شخصیت بھی ہوتی تھی اور اس وجہ سے غلام کے کچھ حقوق ایسے تسلیم کیے گئے جن پر آقا کا اختیار نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ حقوق شریعت نے متعین کیے ہیں اور شریعت کے دیے گئے حقوق کو چھیننے کا اختیار آقا کے پاس ، بلکہ ریاست کے پاس بھی ، نہیں تھا۔
اسلامی قانون کے بعد کی دنیا میں غلامی کی جو مختلف شکلیں دنیا میں رائج رہی ہیں وہ بنیادی طور پر انھی دو قسموں میں تقسیم ہیں: غلام بطور مال یا غلام بطور قانونی شخص اور مال۔ اس دوسری قسم کے پھر مختلف مدارج ہیں: کسی میں قانونی حقوق زیادہ ہیں اور کسی میں کم۔ یہ دو قسمیں آج بھی رائج ہیں ۔ کیا بعض انسانوں کےلیے قانونی شخصیت کا انکار آج بھی ہورہا ہے یا نہیں؟ کیا بہت سے ممالک نے بارہا بہت سارے لوگوں کو حقوقِ شہریت سے محروم نہیں کیا ؟ روہنگیا اور بہار میں ہی دیکھ لیجیے۔ حقوقِ شہریت سے محروم شخص ، جو کسی بھی ریاست کا شہری نہ ہو، کے قانونی حقوق کیا ہوتے ہیں؟ بین الاقوامی قانون کی رو سے انسانی حقوق کےلیے مطالبہ ریاست سے کیا جاتا ہے۔ جب ایسا شخص کسی ریاست کا شہری ہی نہیں ہے تو اس کے حقوق کا مطالبہ کن سے کیا جائے؟ اس کی حیثیت قانونی طور پر اس غلام سے کیسے مختلف ہے جس کےلیے قانونی شخصیت تسلیم کی گئی ؟
دوسری مثال گوانتانامو کے قیدیوں کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے مانا جاتا تھا کہ جنگ میں آپ کے مخالف فریق یا تو مقاتل ہیں اور یا غیر مقاتل اور پھر دونوں قسموں کےلیے قانونی حقوق و فرائض متعین تھے۔ امریکا نے کہا کہ یہ لوگ نہ مقاتل ہیں، نہ ہی غیر مقاتل اور اس وجہ سے بین الاقوامی قانون میں موجود دونوں قسموں کے قانونی نحقوق سے محروم ہیں۔ مزید انھوں نے ان کو امریکا سے باہر گوانتانامو کے جزیرے میں رکھا کہ امریکی قانون کی پہنچ سے بھی دور رہیں۔ سوال یہ ہے کہ گوانتانامو میں موجود قیدیوں کو کس بنیاد پر غلاموں سے مختلف گروہ مانا جائے؟ گوانتانامو تو محض ایک مثال ہے۔ برطانیہ کی بل مارش جیل ہو، عراق کی ابوغریب جیل ہویا افغانستان کی بگرام جیل ہو ، اس نوعیت کی غلاموں کی فیکٹریاں تقریباً ہر ریاست نے بنا رکھی ہیں۔ مقدار اور معیار کا فرق ضرور ہوگا لیکن نوع ایک ہی ہے۔ پھر ’کارپوریٹ غلامی‘ پر بھی غور کریں، جو اس وقت غلامی کی بدترین شکل ہے۔
ان سب سے آگے بڑھ کر ریاست کی غلامی تو اس وقت بھی بین الاقوامی قانون کا رکنِ رکین ہے۔ریاست میں جو کچھ ہے اور جو کوئی بھی ہے، وہ ریاست کی ملکیت ہےاور ریاست کے ساتھ غیرمشروط وفاداری اس کا ناقابل تنسیخ فریضہ ہے۔ ریاست آپ کی نہیں ہے، بلکہ آپ ریاست کے ہیں۔ جبری خدمت کا قانون ہی دیکھ لیجیے ۔ ریاست کیسے سب کو زبردستی کام کرنے پر مجبور کرسکتی ہے؟ جبری تعلیم بھی دیکھیے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، آپ کے بچے کو تعلیم دیں گے اور اسے وہ کچھ پڑھائیں گے جو ہم چاہیں گے۔ جبری ویکسینیشن کو ہی دیکھیے۔ اس جبر میں اور غلامی میں درجے کا فرق ہے، نہ کہ نوع کا، لیکن یہی فرق تو غلامی کی دیگر شکلوں میں بھی ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ غلامی کی بہت سی شکلوں کو لمحۂ موجود میں بھی بین الاقوامی قانونی نظام نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ اس لیے یہ سوال ہی غلط ہے کہ کل کو اگر مسلمان عالمی سیاسی غلبہ حاصل کرلیں گے تو وہ غلامی کو کیسے رائج کرسکیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں نے غلامی کو ہمیشہ تسلیم کیا ہے اور آئندہ بھی تسلیم کرتے رہیں گے۔ ہاں، مغربی سیاسی نظام کی منافقت یہ ہے کہ ’غلامی‘ کے عنوان پر پابندی لگادی ہے خواہ غلامی کی کئی نئی بدترین شکلیں انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ اسی نظام نے رائج کی ہوں۔
شریعت نے آزاد انسان کو غلام بنانے کی تمام صورتیں ناجائز کردیں، سواے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے۔ اس آخری صورت کے متعلق بھی امام محمد بن حسن شیبانی نے، جنھیں اسلامی بین الاقوامی قانون کا بانی کہا جاتا ہے، تصریح کی ہے کہ جنگ کے فریقین آپس میں معاہدہ کرسکتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کو غلام نہیں بنائیں گے اور جب تک ایسا معاہدہ برقرار ہے، اس کی پابندی مسلمانوں پر لازم ہوگی۔ شریعت نے غلاموں کی آزادی کے بہت سارے طریقے بھی دیے اور غلاموں کےلیے ایسے حقوق بھی متعین کیے جو ان کے آقاؤں کے اختیار سے باہر تھے۔ یہ حقوق موجودہ دور کے غلاموں کے لیے مان لیے جائیں، تو انھیں بھی آزادی مل سکتی ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد فرماتے ہیں:۔خود کو احمدی...
تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ڈاکٹر اسرار احمد پر طنز اور استہزا کا اسلوب اب اس...
تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد نے یکسر جہالت کا مظاہرہ کرتے...