غلامی : پہلے، اب اور آئندہ

Published On April 8, 2025
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

رمضان کے مہینے میں سوشل میڈیا پر عموماًً مذہبی مسائل پر بحث چلتی ہے۔ بعض لوگ ایسے موقع کو مذہب پر اعتراض کےلیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ایک مرغوب موضوع غلامی ہے اور یہ عموماً مسلمانوں کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کےلیے یا تو ماضی کی غلامی کی بات کرتے ہیں یا مستقبل کے متعلق پیشین گوئی کرتے ہیں جب مفروضہ طور پر مسلمان کسی وقت اس پوزیشن پر آجائیں گے کہ وہ پھر سے لوگوں کو غلام بناسکیں گے۔ لمحۂ موجود میں غلامی کی بات یا تو ہوتی نہیں، یا ہوتی ہے تو صرف ایک مخصوص گروہ کی جس نے بہت ہی محدود پیمانے پر اس کا ارتکاب کیا، حالانکہ یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ اس مخصوص گروہ کو سوا ارب مسلمانوں کا نمائندہ کیسے مانا جاسکتا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ مستقبل میں غلامی کی پیشین گوئیاں کرنے والوں میں غامدی صاحب کا حلقۂ اثر بھی شامل ہوتا ہے حالانکہ غامدی صاحب کے نزدیک مسلمانوں کے عالمی سیاسی غلبے کا مفروضہ ہی غلط ہے کیونکہ ان کے خیال میں نہ تو امام مہدی نے آنا ہے، نہ ہی سیدنا مسیح نے۔ ماضی کے لوگوں کو ماضی کا جواب دینے دیں، مستقبل کے لوگ اپنا جواب دے لیں گے، ہم لمحۂ موجود کی بات کیوں نہ کریں اور یہ کیوں نہ دیکھیں کہ اس وقت غلامی کی کتنی شکلیں رائج ہیں اور ان میں کتنوں کےلیے ہم ذمہ دار ہیں؟
غلامی کے موضوع پر پچھلی ڈیڑھ صدی میں لکھے گئے لٹریچر کی عمومی خصوصیت یہ ہے کہ ’غلامی‘ کو ایک جامد اور عالمی طور پر متفق علیہ یکساں تصور فرض کرلیا جاتا ہے حالانکہ مختلف ادوار میں، مختلف معاشروں میں، مختلف نظامہاے قوانین میں، غلامی کا عنوان مختلف نوعیت کی جکڑبندیوں کو دیا گیا ہے۔ اس انتہائی وسیع سپیکٹرم میں موجود مختلف شیڈز کو ’غلامی‘ کا ایک عنوان دے کر نہ صرف تنوع کی نفی کی جاتی ہے بلکہ بہت ہی زیادہ سادہ فکری اور سطحیت کی بنیاد پر انتہائی قطعی لہجے میں دو ٹوک موقف اپنایا جاتا ہے۔ مثلاً رومی قانون میں غلام اور اسلامی قانون میں غلام کا تصور یکساں نہیں تھا۔ رومی قانون میں غلام کو ’شخص‘ کے بجاے ’مال‘ پراپرٹی قرار دیا جاتا تھا۔ ’شخصیت‘ کی نفی کا قانونی اثر یہ تھا کہ گائے، بھینس، زمین، لکڑی یا کسی بھی دوسری چیز کی طرح، جسے مال مانا جاتا تھا، غلام کے کوئی قانونی حقوق نہیں ہوتے تھے۔ اس کے برعکس اسلامی قانون میں غلام کو محض مال نہیں مانا جاتا تھا بلکہ اس کی الگ قانونی شخصیت بھی ہوتی تھی اور اس وجہ سے غلام کے کچھ حقوق ایسے تسلیم کیے گئے جن پر آقا کا اختیار نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ حقوق شریعت نے متعین کیے ہیں اور شریعت کے دیے گئے حقوق کو چھیننے کا اختیار آقا کے پاس ، بلکہ ریاست کے پاس بھی ، نہیں تھا۔
اسلامی قانون کے بعد کی دنیا میں غلامی کی جو مختلف شکلیں دنیا میں رائج رہی ہیں وہ بنیادی طور پر انھی دو قسموں میں تقسیم ہیں: غلام بطور مال یا غلام بطور قانونی شخص اور مال۔ اس دوسری قسم کے پھر مختلف مدارج ہیں: کسی میں قانونی حقوق زیادہ ہیں اور کسی میں کم۔ یہ دو قسمیں آج بھی رائج ہیں ۔ کیا بعض انسانوں کےلیے قانونی شخصیت کا انکار آج بھی ہورہا ہے یا نہیں؟ کیا بہت سے ممالک نے بارہا بہت سارے لوگوں کو حقوقِ شہریت سے محروم نہیں کیا ؟ روہنگیا اور بہار میں ہی دیکھ لیجیے۔ حقوقِ شہریت سے محروم شخص ، جو کسی بھی ریاست کا شہری نہ ہو، کے قانونی حقوق کیا ہوتے ہیں؟ بین الاقوامی قانون کی رو سے انسانی حقوق کےلیے مطالبہ ریاست سے کیا جاتا ہے۔ جب ایسا شخص کسی ریاست کا شہری ہی نہیں ہے تو اس کے حقوق کا مطالبہ کن سے کیا جائے؟ اس کی حیثیت قانونی طور پر اس غلام سے کیسے مختلف ہے جس کےلیے قانونی شخصیت تسلیم کی گئی ؟
دوسری مثال گوانتانامو کے قیدیوں کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے مانا جاتا تھا کہ جنگ میں آپ کے مخالف فریق یا تو مقاتل ہیں اور یا غیر مقاتل اور پھر دونوں قسموں کےلیے قانونی حقوق و فرائض متعین تھے۔ امریکا نے کہا کہ یہ لوگ نہ مقاتل ہیں، نہ ہی غیر مقاتل اور اس وجہ سے بین الاقوامی قانون میں موجود دونوں قسموں کے قانونی نحقوق سے محروم ہیں۔ مزید انھوں نے ان کو امریکا سے باہر گوانتانامو کے جزیرے میں رکھا کہ امریکی قانون کی پہنچ سے بھی دور رہیں۔ سوال یہ ہے کہ گوانتانامو میں موجود قیدیوں کو کس بنیاد پر غلاموں سے مختلف گروہ مانا جائے؟ گوانتانامو تو محض ایک مثال ہے۔ برطانیہ کی بل مارش جیل ہو، عراق کی ابوغریب جیل ہویا افغانستان کی بگرام جیل ہو ، اس نوعیت کی غلاموں کی فیکٹریاں تقریباً ہر ریاست نے بنا رکھی ہیں۔ مقدار اور معیار کا فرق ضرور ہوگا لیکن نوع ایک ہی ہے۔ پھر ’کارپوریٹ غلامی‘ پر بھی غور کریں، جو اس وقت غلامی کی بدترین شکل ہے۔
ان سب سے آگے بڑھ کر ریاست کی غلامی تو اس وقت بھی بین الاقوامی قانون کا رکنِ رکین ہے۔ریاست میں جو کچھ ہے اور جو کوئی بھی ہے، وہ ریاست کی ملکیت ہےاور ریاست کے ساتھ غیرمشروط وفاداری اس کا ناقابل تنسیخ فریضہ ہے۔ ریاست آپ کی نہیں ہے، بلکہ آپ ریاست کے ہیں۔ جبری خدمت کا قانون ہی دیکھ لیجیے ۔ ریاست کیسے سب کو زبردستی کام کرنے پر مجبور کرسکتی ہے؟ جبری تعلیم بھی دیکھیے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، آپ کے بچے کو تعلیم دیں گے اور اسے وہ کچھ پڑھائیں گے جو ہم چاہیں گے۔ جبری ویکسینیشن کو ہی دیکھیے۔ اس جبر میں اور غلامی میں درجے کا فرق ہے، نہ کہ نوع کا، لیکن یہی فرق تو غلامی کی دیگر شکلوں میں بھی ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ غلامی کی بہت سی شکلوں کو لمحۂ موجود میں بھی بین الاقوامی قانونی نظام نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ اس لیے یہ سوال ہی غلط ہے کہ کل کو اگر مسلمان عالمی سیاسی غلبہ حاصل کرلیں گے تو وہ غلامی کو کیسے رائج کرسکیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں نے غلامی کو ہمیشہ تسلیم کیا ہے اور آئندہ بھی تسلیم کرتے رہیں گے۔ ہاں، مغربی سیاسی نظام کی منافقت یہ ہے کہ ’غلامی‘ کے عنوان پر پابندی لگادی ہے خواہ غلامی کی کئی نئی بدترین شکلیں انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ اسی نظام نے رائج کی ہوں۔
شریعت نے آزاد انسان کو غلام بنانے کی تمام صورتیں ناجائز کردیں، سواے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے۔ اس آخری صورت کے متعلق بھی امام محمد بن حسن شیبانی نے، جنھیں اسلامی بین الاقوامی قانون کا بانی کہا جاتا ہے، تصریح کی ہے کہ جنگ کے فریقین آپس میں معاہدہ کرسکتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کو غلام نہیں بنائیں گے اور جب تک ایسا معاہدہ برقرار ہے، اس کی پابندی مسلمانوں پر لازم ہوگی۔ شریعت نے غلاموں کی آزادی کے بہت سارے طریقے بھی دیے اور غلاموں کےلیے ایسے حقوق بھی متعین کیے جو ان کے آقاؤں کے اختیار سے باہر تھے۔ یہ حقوق موجودہ دور کے غلاموں کے لیے مان لیے جائیں، تو انھیں بھی آزادی مل سکتی ہے۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…