فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

Published On May 13, 2025
فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!۔ فلسطین کے مسئلے پر غامدی صاحب اور ان کے داماد جناب حسن الیاس نے جس طرح کا مؤقف اختیار کیا ہے، اس نے بہت سے لوگوں کو حیرت کے ساتھ دکھ میں مبتلا کیا ہے، غزہ میں ہونے والی بدترین نسل کشی پر پوری دنیا مذمت...

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں "یہ چیز حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے" (ميزان) جیسے سود دینے والے کی مذمت میں اگرچہ حدیث صراحتا بیان ہوئی ليكن غامدی...

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)

حسان بن علی اور یہ واضح رہے کہ انکارِ حجیتِ حدیث کے حوالے سے غلام احمد پرویز، اسی طرح عبداللہ چکڑالوی کا درجہ ایک سا ہے کہ وہ اسے کسی طور دین میں حجت ماننے کے لیے تیار نہیں (غلام احمد پرویز حديث کو صرف سیرت کی باب میں قبول کرتے ہیں، دیکھیے کتاب مقام حدیث) اور اس سے کم...

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (1)

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (1)

حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ماضی کی ایک اور شخصیت غلام قادیانی، حدیث کے مقام کے تعین میں لکھتے ہیں : "مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لیے تین چیزیں ہیں. ١) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جسے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ...

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف

حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ايک اور شخصیت، معروف بطور منکرِ حجيتِ حدیث، اسلم جيراجپوری صاحب، حقیقت حدیث بیان کرتے ہوئے اختتامیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں "قرآن دین کی مستقل کتاب ہے اور اجتماعی اور انفرادی ہر لحاظ سے ہدایت کے لیے کافی ہے وہ انسانی عقل کے سامنے ہر...

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

 

دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!۔

فلسطین کے مسئلے پر غامدی صاحب اور ان کے داماد جناب حسن الیاس نے جس طرح کا مؤقف اختیار کیا ہے، اس نے بہت سے لوگوں کو حیرت کے ساتھ دکھ میں مبتلا کیا ہے، غزہ میں ہونے والی بدترین نسل کشی پر پوری دنیا مذمت کررہی ہے، لیکن غامدی صاحب بڑی معصومیت کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ میرے مذمت کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ غامدی صاحب کے اور شاگردِ رشید متعدد بار قرار دے چکے ہیں کہ طاقت اخلاقیات کی پابند نہیں ہوتی! تاہم ساری حدیں تب پار کی گئیں جب حسن الیاس صاحب نے ہاتھ نچا نچا کر پوچھا کہ پہلے اسرائیل کو غاصب تو ثابت کریں! اس کے بعد جب ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا، تو غامدی صاحب کے شاگردِ رشید اخلاقیات کا درس دینے لگے اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ درس وہ پورے زعمِ پارسائی کے ساتھ دیتے ہیں، یعنی خود پر اور اپنے استاذِ گرامی پر ’عقل‘ اور اپنے ناقدین پر ’جذبات‘ کا لیبل چسپاں کرنے کے بعد ناقدین کو اخلاقیات پامال کرنے کے طعنے دیتے ہیں، حالانکہ اخلاقیات کے متعلق ان کی ’حسِ تناسب‘ سینس آف پراپورشن واقعی زندہ ہوتی، تو انہیں معلوم ہوتا کہ بدترین نسل کشی کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ نہ کہنا، بلکہ الٹا یہ سوال کرنا کہ وہ غاصب کیسے ہیں، سب سے بڑی بد اخلاقی ہے۔

شاگردِ رشید لکھتے ہیں: ’غزہ میں معصوم شہریوں پر جو بیت رہی ہے، کون سی آنکھ ہے جو اس پر نمناک نہیں۔‘ اب اسے تغافل کہیں یا تجاہل؟ کیا واقعی ان کو حسن الیاس صاحب کی پچھلے ہفتے کی گفتگو کی خبر نہیں ہوئی جس میں انہوں نے نہ صرف اسرائیل کو غاصب ماننے سے انکار کیا بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہندوؤں کے نزدیک مسلمان بھی غاصب ہیں کیونکہ مسلمانوں نے ان کے گھر پر قبضہ کیا، اور جب اینکر نے پوچھا کہ ہم بھی غاصب سہی، اب کریں کیا، تو انہوں نے فرمایا کہ پھر پہلے ہمیں ہندوستان سے نکلنا چاہیے، اور اس پر ردّا چڑھاتے ہوئے مزید یہ بھی فرمایا کہ ہندوستان سے نکل کر ہم جائیں گے کہاں کیونکہ ہمارا تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہم عرب ہیں یا نہیں، جب تک ہمارا ڈی این اے نہ کرایا جائے! اگر شاگردِ رشید کے زعمِ پارسائی نے خود احتسابی کے لیے کچھ گنجائش چھوڑی ہو، تو وہ حسن الیاس صاحب کے ان ارشادات کی اخلاقی حیثیت کے متعلق ضرور اپنے استاذِ گرامی سے پوچھنا چاہیں گے۔

شاگردِ رشید مزید لکھتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کو اگر امریکا اور بر طانیہ جیسی مغربی قوتوں کی مکمل تائید میسر نہ آتی تو ظلم کا یہ سلسلہ اتنا دراز نہ ہوتا۔ یہ اس معاملے کے وہ مسلمات ہیں جن سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔ اختلاف ایک دوسرے دائرے میں ہے اور وہ ہے حماس جیسی تنظیموں کی حکمتِ عملی۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں شاگردِ رشید نے حقائق کو ٹویسٹ دینے کی کوشش کی ہے کیونکہ غامدی صاحب کا اختلاف صرف حکمتِ عملی پر نہیں ہے، بلکہ وہ اسرائیل کے قیام اور اس کے خلاف فلسطینیوں کی جدوجہد کے جواز پر ہی بالکل مختلف مؤقف رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ بین الااقوامی قانون کے متعلق بہت شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ دوسروں کو اخلاقیات کا درس دینے والے شاگردِ رشید میں اتنی اخلاقی جرات تو ہونی چاہیے تھی کہ وہ اپنے استاذِ گرامی کا مؤقف جوں کا توں پیش کرکے اس سے اختلاف کا اظہار کرتے، یا اس کے حق میں دلیل دیتے۔

شیخ جراح میں یہودی آبادکاری کے تناظر میں اسرائیلی جارحیت پر مئی 2021 میں غامدی صاحب نے اپنا مؤقف وڈیو کی صورت میں نشر کیا تھا جو آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے، اس پر میں نے اس وقت تفصیلی تنقید کی تھی۔ اس تنقید کا کچھ حصہ یہاں پیشِ خدمت ہے۔ حسن الیاس صاحب آج جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی حیثیت غامدی صاحب کے اس متن کے حاشیے سے زیادہ کچھ نہیں۔ غامدی صاحب کو اس وقت میں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ قانون، بالخصوص بین الاقوامی قانون سے استدلال سے قبل انہیں کافی مطالعے کی ضرورت ہے۔ ان کے شاگردِ رشید کو مشورہ یہ ہے کہ اپنے استاذِ گرامی کا دفاع کرنے اور ان کے ناقدین کو اخلاقیات کا درس دینے سے قبل اپنی چارپائی کے نیچے ایک دفعہ ڈانگ ضرور پھیر کر دیکھیں۔

کیا فلسطین کی تقسیم قانون کا فیصلہ تھا؟

غامدی صاحب اس وڈیو میں فرماتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ نے جب فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا، تو فلسطینیوں کو یہ فیصلہ مان لینا چاہیے کیونکہ یہ عالمی برادری کا فیصلہ ہے اور یہ قانون کا فیصلہ ہے۔

یہ مؤقف چند در چند غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے:۔

مثلاً یہ منصوبہ ’تنظیمِ اقوامِ متحدہ‘ کا فیصلہ نہیں تھا، نہ ہی عالمی برادری کا، بلکہ یہ تنظیمِ اقوامِ متحدہ کے ایک عضو جنرل اسمبلی کی قرارداد تھی اور بین الاقوامی قانون کے مبتدی طلبہ بھی جانتے ہیں کہ جنرل اسمبلی کی قرارداد کی حیثیت محض ایک سفارش کی ہوتی ہے جس پر عملدرآمد قانوناً لازم نہیں ہوتا۔ اگر یہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا فیصلہ ہوتا، تو وہ فیصلہ قانوناً نافذ ہوتا، لیکن اس کے ساتھ بھی یہ بات ماننی پڑتی کہ سلامتی کونسل کا ہر فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہوتا۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد ہو یا سلامتی کونسل کا فیصلہ، یہ سیاسی اقدامات ہوتے ہیں، نہ کہ قانون کا فیصلہ۔ سیاسی فیصلے اور عدالتی فیصلے میں فرق یہ ہوتا ہے کہ سیاسی فیصلہ سیاسی مفادات کی بنا پر کیا جاتا ہے جبکہ قانونی فیصلہ قانون کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے کیا پوزیشن بنتی ہے، اقوامِ متحدہ کے منشور کی تصریح کے مطابق بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا کام ہے، جو اقوامِ متحدہ کی تنظیم ہی کا ایک اور عضو ہے۔

باقی رہا اس کا ’عالمی برادری‘ کا فیصلہ ہونا، تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب جنرل اسمبلی نے یہ قرارداد منظور کی، تو اس وقت اقوامِ متحدہ کی تنظیم میں کل 57 ریاستیں تھیں۔ 33 ریاستوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جن میں ایک ملک کا تعلق بھی مشرقِ وسطیٰ سے نہیں تھا، پاکستان سمیت 13 ریاستوں نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا اور ان 13 ریاستوں میں بھارت اور یونان جیسی غیر مسلم ریاستیں بھی شامل تھیں۔ 10 ممالک نے ووٹ ہی نہیں ڈالا اور ایک ملک غیر حاضر رہا۔ آدھی سے زیادہ دنیا تو ابھی مغربی طاقتوں کے زیر تسلط تھی اور جو ممالک ان کے تسلط سے آزاد ہوگئے ان میں بھی 24 نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور غامدی صاحب اسے عالمی برادری کا فیصلہ کہتے ہیں۔

پھر غامدی صاحب نے اس پر بھی غور نہیں کیاکہ جنرل اسمبلی کو یہ منصوبہ پیش ہی کیوں کرنا پڑا اور تقسیم کس چیز کی ہورہی تھی؟ برطانیہ نے یہ علاقہ 1918 میں قبضے میں لے لیا تھا اور تب سے 1947 تک یہ اس کے پاس بطورِ ’امانت‘ مینڈیٹ تھا۔ اس امانت میں اس نے کیسے خیانت کی، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ جب اس نے قبضہ لیا تو اس وقت اس علاقے میں یہودیوں کی آبادی ایک لاکھ سے بھی کم تھی اور جب 1947 میں برطانیہ یہ علاقہ چھوڑ رہا تھا تو اس وقت یہودیوں کی تعداد ساڑھے 6 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ طرفہ تماشا یہ کہ اب زمین ان یہودیوں اور یہاں صدیوں سے آباد مقامی آبادی کے درمیان تقسیم کی جارہی تھی، تو سوال یہ ہے کہ اگر غامدی صاحب اسے قانون کا فیصلہ سمجھتے ہیں، تو یہ تقسیم کس قانون کے تحت کی جارہی تھی؟ غامدی صاحب پچھلے کچھ عرصے میری یہ بات دہرانے لگے ہیں (خواہ حوالہ دیے بغیر ہی کرتے ہوں) کہ 1928 کے بعد سے بین الاقوامی قانون کی رو سے کسی ملک کو قبضے کے ذریعے مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوتے۔ تو سوال یہ ہے کہ 1928 کے بعد سے برطانیہ کے زیر تسلط علاقے میں بڑے پیمانے پر یہود کی آباد کاری کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

کیا فلسطینیوں کو یہ فیصلہ مان لینا چاہیے تھا؟

غامدی صاحب نے اپنی اس وڈیو میں حسبِ معمول مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی روایت برقرار رکھی اور فرمایا کہ آپ کو یہ فیصلہ مان لینا چاہیے تھا۔ (حسن الیاس صاحب نے بھی اسرائیل کی جانب سے مزید علاقے قبضے میں لینے کا جواز یہ دیا ہے کہ اس پر ’چار حملے‘ کیے گئے۔) کیا شاگردِ رشید اپنے استاذِ گرامی سے پوچھیں گے کہ یہاں ان کے مخاطب کون ہیں؟ فلسطین نامی ریاست تو ابھی وجود میں آئی ہی نہیں تھی، نہ ہی ان کو جنرل اسمبلی میں نمائندگی دی گئی تھی کہ وہ وہاں اپنے مؤقف کا اظہار کرتے۔ ان کی حیثیت تو ایسے غلاموں کی تھی جن کی خریدوفروخت کے وقت ان سے ان کی مرضی بھی نہیں پوچھی جاتی کہ انہیں یہ والا آقا پسند ہے یا وہ والا؟ جب پہلی جنگِ عظیم کے بعد مجلسِ اقوام کا قیام عمل میں لایا گیا اور مفتوحہ علاقوں کو ’نظامِ انتداب‘ کے تحت مختلف فاتحین میں تقسیم کیا گیا، تو شام، لبنان، عراق و فلسطین کو ’مینڈیٹ اے‘ کی حیثیت دی گئی اور یہاں کے رہنے والوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے آقا کا انتخاب کرسکتے ہیں، مثلاً کیا وہ فرانس کے تحت رہنا چاہتے ہیں یا برطانیہ کے تحت، لیکن جب عراق کے امیرِ فیصل اس موضوع پر گزارشات پیش کرنے فرانس گئے، تو فاتحین نے انہیں سننے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کی۔

تو غامدی صاحب ہی بتائیں کہ کس نے یہ فیصلہ ماننا تھا؟ جنہیں آپ موردِ الزام ٹھہرارہے ہیں انہیں تو بات کرنے کا حق ہی نہیں تھا۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں: ’آپ اقوامِ متحدہ کا حصہ ہیں۔‘ کیا ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہے فلسطین تو آج بھی اقوامِ متحدہ کا باقاعدہ رکن نہیں ہے؟ کوئی یہ بات غامدی صاحب کو بتائے کہ آپ جب آج فلسطینیوں سے یہ مطالبہ کررہے ہیں، وہ بے چارے اب بھی اقوامِ متحدہ میں ’غیر رکن مبصر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

کیا اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے؟

غامدی صاحب اس وڈیو میں آگے مزید فرماتے ہیں کہ اسرائیل کو مان لینا چاہیے، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ ’عملی طور پر‘۔ تو کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اسرائیل کو قانونی طور پر تسلیم کیے بغیر صرف عملی طور پر تسلیم کرنا چاہیے؟ اگر یہی ان کا مؤقف ہے تو کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ عملی طور پر تو اسرائیل کا وجود سب نے تسلیم کیا ہوا ہے؟ جھگڑا تو اس کے قانونی طور پر تسلیم کرنے کا ہے۔ کیا واقعی غامدی صاحب کو بین الاقوامی قانون کی اصطلاحات ڈی فیکٹو ریکگنیشن اور ڈی جوری ریکگنیشن میں فرق معلوم نہیں ہے؟

غامدی صاحب یہ بھی نہیں بتاتے کہ تسلیم کون کرے، یعنی ان کے اس مطالبے کا رخ کس طرف ہے؟ اور دوسرے وہ یہ بھی نہیں بتارہے کہ وہ کس اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کا مطالبہ کررہے ہیں؟ کیا ان کا مطالبہ صرف اس اسرائیل کی حد تک ہے جو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے یہودیوں کو دیا؟ یا اس اسرائیل کو بھی جس نے 1967 میں بہت سارے علاقے مزید غصب کیے؟ اگرچہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اسرائیل کو مقبوضہ علاقے چھوڑ دینے چاہییں لیکن وہ یہ نہیں بتارہے، یا ان کا دھیان اس طرف نہیں گیا، کہ ان علاقوں میں بیت المقدس بھی شامل ہے جس کے متعلق اسرائیل کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس کا دارالحکومت ہوگا اور اسرائیل کا یہ دعویٰ امریکا نے تسلیم کرکے اپنا سفارت خانہ بھی ادھر منتقل کردیا ہے۔ غامدی صاحب یہ بھی نہیں بتاتے کہ اس وقت جاری ظلم کا تازہ ترین مرحلہ تو شروع ہی اس بات پر ہوا کہ اس مقبوضہ علاقے میں اسرائیل نے مزید یہودی بستیاں بسانے کا پروگرام بنایا اور جبراً لوگوں سے جگہیں خالی کرنی چاہیں۔ انہوں نے اس سوال پر بھی غور نہیں کیا کہ بیت المقدس اور دیگر علاقے تو 1967 میں اردن نامی ریاست کا حصہ تھے، تو اگر کبھی اسرائیل نے غامدی صاحب کی گزارش مان کر یہ علاقے خالی کر بھی لیے، تو اس وقت یہ علاقے فلسطین میں ہوں گے یا اردن میں؟ نہ ہی وہ یہ بتاتے ہیں کہ کیا فلسطین سے مراد 1947 کے منصوبے کے مطابق بننے والی ’عرب ریاست ہے‘، یا اوسلو معاہدے کے نتیجے میں’فلسطینی اتھارٹی‘ کو ملنے والے دو معمولی ٹکڑے، جنہیں دنیا غزہ اور مغربی کنارہ کہتی ہے اور جن دو ٹکڑوں کے درمیان اسرائیل نامی غاصب اور ظالم وجود حائل ہے؟

انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ قبضے کو غاصبانہ اور ناجائز ماننے کے بعد بھی غامدی صاحب قابض طاقت کے بجائے مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو ملامت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر 1948 میں اقوامِ متحدہ کا فیصلہ مان لیا جاتا تو یہ قتل و غارت نہ ہوتی، یہ جنگیں نہ ہوتیں، معاملات یہاں نہ پہنچتے، اب بھی مان لینا چاہیے۔

پچھلے ہفتے حسن الیاس صاحب نے یہی بات دہرائی ہے۔ وکٹم بلیمنگ کی اس سے زیادہ گھناؤنی مثال شاید ہی کوئی اور ہو۔

آخری بات: غامدی صاحب کی اس وڈیو میں بیت المقدس کا ذکر ہی غائب ہے، کیا وہ بتانا پسند کریں گے کہ بیت المقدس کے متعلق مسلمان ایسا کیا کریں کہ وہ غامدی صاحب کی ملامت سے بچ جائیں؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…