نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب

Published On February 20, 2024
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

ڈاکٹر تزر حسین

غامدی صاحب اور حسن الیاس جب نیشن سٹیٹ کی بات کرتے ہیں تو وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم نشین سٹیٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے دینی فکر میں موجود اصظلاحات جدید دور میں قابل عمل نہیں اور اس چیز نے دینی فکر کو جمود کا شکار کردیا ہے۔ انکی رائے میں دین میں ایسا کوئی حکم نہیں جو کہ نشین سٹیٹ کی تردید میں ہو۔ اور اس بنیاد پر جدید دور کے پڑھے لکھے لوگ اس کی موقف کی تائید بھی کرتے ہیں اور غامدی صاحب کی فکر سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ اور عمومی طورپر غامدی صاحب بھی اس بدلی ہوئی دنیا کے ساتھ چلنے کی بات کرتے ہیں اور اس حوالے سے روایتی فکر پر تنقید کرتے ہیں۔ اس نیشن سٹیٹ کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نیشن سٹیٹ میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور نہ ہی ائین میں کوئی مذہبی بات کی جاسکتی ہے کیونکہ ایسا کرنا نیشن سٹیٹ کے تصور کے خلاف ہیں اور یہ کہ ایسا کرنا کوئی مذہبی بنیاد نہیں رکھتا۔

وہ اسلامی احکام کو ایک پارٹی کے منشور کی سطح پر لے کر اتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دینی احکام کو نافذ کرنا مسلمان حکمران کا کام ہے یہ ریاست سے متعلق نہیں۔ وہ اس حوالے سے سیکولرزم کے بہت قریب پہنچتے پہنچتے رک جاتے ہیں اور اپنی فکر اور سیکولرزم میں ایک لائن کھینچ لیتے ہیں۔

اج حسن الیاس صاحب نے جزیرہ نما عرب کے حوالے سے پوسٹ کی اور یہ کہا کہ جزیرہ نما عرب میں مندر اور کسی اور عبادت خانہ بنانے کی اجازت نہیں۔ اور ابھی جو عرب امارات میں جو مندر بنا ہے یہ دینی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر بہت سارے جدید پڑھے لکھے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ نیشن سٹیٹ کے اس دور میں اس حکم کی کیا حیثیت بنتی ہے۔ کہ اپ ہر جگہ مسجد بناتے رہے لیکن اپنے مقدس زمین پر کسی اور کی عبادت خانہ بنانے کی اجازت نہ ہو۔ بہت سارے لوگوں کو غامدی صاحب کی طرف سے یہ موقف عجیب لگتا ہے۔ اور وہ اسکو جدید دور کے تقاضوں کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ اور اس حوالے سے حسن صاحب اور غامدی صاحب کا جواب بھی یہی ہے جو کہ عمومی طور پر روایتی فکر کیطرف سے اتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جدید دور کے لوگ مغربی تہذیب سے اتنے مرعوب ہوچکے ہیں کہ انکو معیار جدید مغربی تہذیب ہے اور یہ لوگ صرف کلچرل مسلمان ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق جو معیار جدید تہذیب کی طرف سے اتا ہیں دین کا وہی حکم انکے لیے قابل قبول ہیں۔ حسن صاحب نے ایسے لوگوں کو بالکل اسی انداز میں جواب دیا ہے جس طرح روایتی فکر کے لوگ انکو نیشن سٹیٹ کے حوالے سے دیتے ہیں۔

اس بحث میں میرے لیے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جدید فکر اور مغربی تہذیب کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر ایک کنفلکٹ ضرور موجود ہیں۔ اور جب غامدی صاحب یہ بات کہتے ہیں کہ نیشن سٹیٹ کو مان کر ہمیں اگے جانا چاہیے تو وہ خود بھی نیشن سٹیٹ کے تصور یا اسکے بعض پہلووں کو رد کرتے ہیں جہاں وہ اسکے دینی فکر کے مقابل اجائے۔ غامدی صاحب ٹکراو کی اس لائن کو بہت قریب جاکر کینچھتے ہیں اور باقی لوگ تھوڑا فاصلہ سے اسکو کھینچ لیتے ہیں۔ اور دوسری اہم بات یہ کہ غامدی صاحب کے ہاں بھی جو اصل بحث ہے وہ یہ ہونی چاہیے کہ دین کیا کہتا ہے یہ نہیں کہ فلاں اصطلاح اج کے دور میں قبول ہے یا نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ غامدی صاحب جدیدیت کے بہت سارے اقدار کو مان کر بھی بعض مغربی اقدار کے خلاف ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تزر حسین صاحب نے السٹر یونیورسٹی (یوکے) سے کمپوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اسی مضمون سے بطور لیکچرار منسلک ہوں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…