۔”حقیقت نبوت”: غامدی صاحب کے استدلال کی نوعیت

Published On February 25, 2025
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

ڈاکٹر محمد زاہد مغل

محترم غامدی صاحب اکثر و بیشتر دعوی تو نہایت عمومی اور قطعی کرتے ہیں لیکن اس کی دلیل میں قرآن کی آیت ایسی پیش کرتے ہیں جو ان کے دعوے سے دور ہوتی ہے۔ اس کا ایک مشاہدہ حقیقت نبوت کی بحث سے ملاحظہ کرتے ہیں، اسی تصور کو بنیاد بنا کر وہ صوفیا کی تبدیع و تضلیل کرتے ہیں اور حالیہ انٹرویو میں بھی انہوں نے ان پر بدعت کا فتوی لگایا ہے کیونکہ ان کے خیال میں ان کے تصور نبوت کے لئے نصوص کے الفاظ میں گنجائش نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جو تصور نبوت خود غامدی صاحب نے وضع کیا ہے اس کی دلیل کی لغوی و عقلی حالت کیا ہے۔ چنانچہ کتاب “میزان” میں “نبوت کی حقیقت” کا عنوان باندھ کر آپ لکھتے ہیں:۔

۔”نبوت کیا ہے؟ یہ مخاطبۂ الٰہی کے لیے کسی شخص کا انتخاب ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اِس منصب کے لیے جب اپنے بندوں میں سے کسی کا انتخاب کر لیتا ہے تو اُس سے کلام فرماتا ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ انسان کو اِس کا شرف ہمیشہ دو ہی طریقوں سے حاصل ہوا ہے ۔۔۔ انبیا علیہم السلام کے ساتھ مخاطبۂ الٰہی کے یہ طریقے قرآن نے ایک ہی جگہ بیان کر دیے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:۔

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ” (میزان)

یہاں دیکھا جاسکتا ہے کہ متعلقہ آیت میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس کا ترجمہ “نبی یا انبیاء” ہوسکے اور نہ ہی جملے کی کسی تالیف اور سیاق کلام سے یہ تعین ہوسکتا ہے کہ یہ “نبوت کی حقیقت” کا بیان ہے۔ آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی کسی “انسان” سے تین طرح کلام کرتا ہے لیکن غامدی صاحب نے مہارت کے ساتھ “کسی شخص” سے متعلق بات کو دوسرے جملے میں جا کر انبیاء سے متعلق کردیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی جامعہ کا افسر کہے کہ

“یونیورسٹی میں کسی انسان کے لئے روا نہیں ہے کہ میں اسے اپنے آفس آنے کی اجازت دوں مگر تین طریقے سے: یا میں اسے براہ راست آواز لگاؤں، یا میرا پی اے اسے اجازت دے اور یا اسے میری جانب سے کوئی تحریری اجازت نامہ موصول ہو”،۔

اور پھر کوئی اس کے کلام کا مفسریہ کہے کہ یہاں انسان سے مراد استاد ہیں۔ اس مفسر کا یہ دعوی از خود دلیل کا محتاج ہے۔ پھر اگر کسی سیاق کی بنا پر یہ مان بھی لیا جائے کہ مراد اساتذہ ہیں تب بھی اس سے یہ معنی کیسے نکل آیا کہ متکلم کی مراد “صرف اساتذہ” ہیں نیز متکلم کا مقصد یہ کہنا بھی ہے کہ وہ کسی طالب علم یا غیر طالب علم افسر کو اپنے آفس آنے کی اجازت نہیں دیتا نیز متکلم یہ بھی کہہ رہا ہے کہ انسان کے سوا کسی اور شے (مثلا بلی یا چیونٹی) کو وہ کسی اور طریقے سے آفس آنے نہیں دیتا؟ ایسے کلام کو اس قسم کے حصر پر محمول کرنا تحکم کے سوا کچھ نہیں کیونکہ لغت، کلام کے نظائر اور عقلی استدلال اس قسم کے حصر کے لئے کوئی دلیل فراہم نہیں کرتے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ اس آیت میں اگر کوئی حصر موجود ہے تو وہ صرف “بشر سے کلام کرنے کے طریقوں” کا حصر ہے نہ کہ “صرف بشر ہی سے کلام کرنے کا” اور نہ ہی “ہر قسم کی مخلوق سے کلام کی ممکنہ صورتوں” کا، الفاظ میں مذکور حقیقت سے آگے بڑھ کر یہاں “صرف انبیاء” اور “کلام کی ممکنہ صورتوں” کا حصر وہی فرض کرسکتا ہے جسے کلام کی تفہیم سے کوئی مناسبت نہیں۔

الغرض اس آیت سے یہ واضح نہیں کہ یہ “نبوت کی حقیقت” کا بیان کیسے ہے جو محترم غامدی صاحب کا اصل مدعا ہے نیز یہ بھی واضح نہیں کہ نبوت بس اسی (یعنی کسی بشر سے اور وہ بھی بشر کے لحاظ سے انبیاء سے اور وہ بھی شعوری اور وہ بھی قطعی) کلام میں (اور وہ بھی کلام کے صرف انہی طریقوں میں) بند ہے۔ ان سب اضافی دعووں کے لئے لفظ، جملے کی تالیف اور سیاق کلام میں کوئی دلیل موجود نہیں، اگر کوئی مفسر ان امور پر مصر ہے تو اس نے انہیں اپنی جانب سے متکلم کے کلام میں شامل کردیا ہے۔ ایسی عمومی آیت کو بنیاد بنا کر بڑے بڑے نتیجے اخذ کرلینا اور پھر اس پر اصرار کرتے ہوئے دیگر عمومی آیات کے معنی کی تحدید کردینا اور پھر اس فہم کو واحد درست فہم فرض کرکے پوری امت کے فہم کلام پر بدعت کے فتوے جاری کرنا یہ لغت فہمی میں خوارج اور مرجئہ کے منہج استدلال جیسا ہے جو اسی طرح کسی ایک آیت کو لے کر یا گناہ کبیرہ کے مرتکب کی تکفیر کردیا کرتے تھے اور یا کفر کے سوا کسی گناہ کو عقاب کا باعث نہ سمجھتے ہیں۔

چنانچہ ہم پھر کہتے ہیں کہ محترم غامدی صاحب جتنی بلند آواز اور قطعیت کے ساتھ یہ فرمائیں کہ “یہ بات قرآن میں لکھی ہے” اتنی ہی قطعیت سے ان سے پوچھنا چاہئے: “کہاں لکھی ہے؟”۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…