سود اور غامدی صاحب

Published On February 10, 2025
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

حسان بن علی

غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش کرتا ہے ليكن حدیث میں وارد الفاظ “مُوكِله” کا یہ ترجمہ اور مفہوم قطعا درست نہیں کیونکہ جیسے “آكِل الربا” کا ترجمہ سود کھانے والا کیا جاتا ہے اور درحقیقت اس سے مراد سود لینے والا ہوتا ہے اسی طرح “مُوکِل الربا” کا ترجمہ سود کھلانے والا جب کیا جائے گا تو درحقیقت اس سے مراد سود دینے والا ہی ہوگا نہ کہ وہ جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش کرے.
ليكن غامدی صاحب نے لفظی اردو ترجمے (سود کھلانے والا) کو مترجم زبان میں محاورے کا رنگ دیتے ہوئے، اس سے اپنی مرضی کا مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی ہے یعنی سود کھلانے والے سے مراد سود دینے والا نہیں بلکہ سود خور کو گاہک فراہم کرنے والا ہے، وہ اس طرح کہ وہ سود خوری کے گاہک فراہم کر کے سود خور کو سود کھلاتا ہے. ليكن در حقیقت یہ غلطی ان سے اپنی زبان میں محاورے کو گھسیٹنے سے ہوئی جبکہ کوئی عام عرب ایسی غلطی غلطی سے بھی نہیں کر سکتا.
مزید یہ کہ صحیح مسلم کی ہی ایک اور حدیث میں جہاں سود کی ایک خاص قسم (ربا الفضل) کی حرمت بیان ہوئی وہاں الفاظ یہ ہیں “الآخذ والمعطي سواء في الربا” یعنی سود کے معاملے میں لینے والا اور دینے والا جرم کرنے میں برابر ہیں اور زیر نظر حدیث کے آخر میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ سود کھانے والا سود کھلانے والا اسی طرح سود کی کتابت کرنے والا اور سود پر گواہ بننے والے سب جرم کرنے میں برابر ہیں (واضح رہے کہ دونوں چیزوں میں فرق ہے ایک یہ کہ جرم کرنے میں برابر ہونا اور دوسرا یہ کہ برابر کے مجرم ہونا)
دوسرا غامدى صاحب کا یہ اشکال کہ سود دینے والا (قرض دار) ہر حالت میں مظلوم يا لائق ہمدردی ہوتا ہے درست نہیں کیونکہ
ضروری نہیں کہ سود دینے والا (قرض دار) اپنی ذاتی ضرورت اور حاجت کے لیے قرض لے بلکہ سودی معاملے کی نوعیت تجارتی سود کی بھی ہو سکتی ہے کہ جہاں قرض لینے والے کی غرض بھی اس سے مزید مال بنانا ہو. کیا اس صورت میں بھی وہ سودى قرض لینے کے لیے مجبور سمجھا جائے گا اور ايسى مجبوری کا اعتبار كيا جائے گا؟
اسى طرح معاملے کی نوعیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قرض دار کا قرض خواه کو بڑھا چڑھا کر سود كى ادائیگی کی ضمانت دینا اور اپنے اس حربے کے ذریعے قرض خواه سے زیادہ قرضہ وصول کرنا ہو. تو کیا اس صورت میں بھی اس کا عمل لائق ہمدردی ہو سکتا ہے؟
درحقيقت غامدی صاحب کے اس موقف میں بھی جو اصل فکر يا اصول کار فرما ہے وہ یہی ہے کہ قرآن میں چونکہ سود دینے والے کى مذمت مذکور نہیں اور ان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حیثیت نہیں کہ وہ کوئی مستقل بذات حکم خود سے بیان کر سکیں جس کا قرآن میں کسی صورت ذکر نہ ہو لہذا اگر بالفرض حدیث میں ايسى کوئی چیز واضح طور نظر آ بھی رہی ہو تو اسے نظر کا دھوکہ سمجھا جائے گا!

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…