غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 61)

Published On April 3, 2024
کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ سوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حدیث و سنت کا مفہوم : اہل اسلام اور غامدی صاحب  غامدی صاحب کے اندراس شوخ چشمانہ جسارت کاحوصلہ کیوں پیدا ہوا ؟ اس لیے کہ وہ آپ کے طریقے اور عمل کو ’سنت ‘ سمجھنے کے لیے تیار نہیں؛ چناں چہ ان کے ٹیپ کا بند ملا حظہ فرمائیں ’’لہٰذا سنت صرف یہی...

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور تبیین پر نقد کا سلسلہ جاری ہے جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کے تصور تبیین کی نہ صرف یہ کہ لغت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ اس لفظ کے قرآنی محاورے و استعمالات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم غامدی صاحب یہ تاثر بھی...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

ڈاکٹر زاہد مغل  توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ دوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صحابہ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ اول

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ماہنامہ الشریعہ میں مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے کتابچے ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث وسنت‘‘ کا اور ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت بنام ’’الشریعہ کا طرز فکر اور پالیسی: اعتراضات واشکالات کا جائزہ‘‘ کا اشتہار دیکھا تو راقم نے نہایت ذوق وشوق کے...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل تعارف جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے...

مولانا واصل واسطی

کل ہم نےایک بات لکھی ہے کہ جناب غامدی نے قران کی آیت پرہاتھ صاف کیاہے۔ تو ہزار ممکن ہے کہ ان کے چاہنے والے اس بات کو ان کی تحقیر اور بے عزتی پر محمول کریں ۔اس لیے ہم آج کی اس محفل میں اس حوالے سے کچھ مزید باتیں کرنا عرض چاہ رہے ہیں ۔ ہم نے جناب غامدی کو پڑھا ہے۔ اگرسارا نہ بھی ہو تو ان کے افکار کا اکثر حصہ ہماری نظروں سے گذراہے ، الحمدللہ ۔ مگر یہ بات ہم بلاخوفِ تردید کہتے ہیں کہ وہ اپنے مقصود کےلیے دوسروں کی عبارات وافکار میں ہمیشہ  مغالطے دیتے ہیں ، صریح حقائق پر آنکھیں بند کرکے اس کی تردید اور نفی کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے ان پر دین کے متعلق اعتماد بالکل نہیں ہو سکتا ۔ اب ان باتوں کے لیے ہم فقط ایک ایک مثال ذکر کریں گے ۔ اوپر کی عبارات میں سورت المعارج  کی آیت 24 کو دیکھ لیں کہ انھوں نے کس طرح اسے اپنے مذموم مقصد کے ذبح کیا ہے ؟ دیگر باتوں کی اثبات کے لیے آج ہم ان کی عبارتیں پیش کرتے ہیں۔ جناب غامدی کی ایک کتاب ہے ،، برھان ،، اس کتاب کے اکثر مباحث معاصر افکار پر تنقید سے متعلق ہیں ۔اس کتاب میں انہوں نے اپنا علمی زور وقوت بھی خوب دکھایا ہے ۔ اور بڑے بڑے لوگوں کی تردید کی ہے ۔ مگر یہ جان کر بہت حیرت ہوتی ہے کہ وہ اس کتاب میں بھی اپنی اس عادت سے باز نہیں آئے ۔ ہم نے اپنے مضمون ،، متوازی دین ،، میں جناب کے اس طرزِ عمل کے کچھ نمونے دکھائے ہیں ۔ آج  کچھ دوسری باتیں احبابِ کرام کے حضور میں پیش کرتے ہیں مگر وہ باتیں تین مثالوں تک ہی محدود ہونگی ۔ اس کتاب ،، برھان ،، میں ،، رجم کی سزا ،، کے عنوان سے ایک مضمون موجود ہے ۔اس میں ایسے بہت لولوئے لالا موجود ہیں لیکن ہم اپنی بات کے پابند ہیں۔پہلی مثال یہ ہے کہ اس کتاب میں ایک آیت ان کے اور ان کے مخالفین یعنی عام علماء کرام کے درمیان باعثِ نزاع ہے ۔ وہ سورتِ نساء کی آیت 25 ہے ،، ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنات المؤمنات فمن ما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المؤمنات واللہ اعم بایمانکم بعضکم من بعض ، فانکحوھن باذن اھلھن وآتوھن اجورھن بالمعروف محصنت غیرمسافحات ولامتخذات اخدان فاذا احصن فان اتین بفاحشة فعلیھن نصف ماعلی المحصنات من العذاب ( ترجمہ ) اور اگر کوئی تم میں سے اتنی مقدرر نہ رکھتا ہو کہ آزاد مومنہ عورتوں سے نکاح کرسکے توان مومنہ لونڈیوں سے نکاح کرلے جوتمہارے قبضے میں ہوں ، اللہ تمہارے ایمان سے خوب واقف ہے ، تم سب ایک ہی جنس سے ہو ، سوان لونڈیوں سے نکاح کرلو ، ان کے مالکوں کی اجازت سے اور دستور کے مطابق ان کے مہرادا کردو ، اس حال میں کہ وہ پاک دامن رکھی گئی ہوں ، نہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں اورنہ چوری چھپے آشنائی کرنے والیاں ، پھر جب وہ پاک دامن رکھی جائیں اور اس کے بعد بدچلنی کی مرتکب ہو ں توآزاد عورتوں کی جو سزا اس کی نصف ان پر ہے ،، یہ ترجمہ جناب غامدی کا ہے۔ یہاں فی الاصل نزاع لفظِ ،،المحصنات ،، میں ہے  کہ یہ لفظ کن معانی میں استعمال ہوتاہے ؟ ہم اس پر اس وقت بحث نہیں کرناچاہتے ۔ ہم توصرف جناب کی دیانت دکھانا چاھتے ہیں ۔ جناب لکھتے ہیں کہ ،، لفظِ ،، محصنت ،، عربی زبان میں بالعموم تین معنوں میں استعمال ہوتاہے  (1) ایک شادی شدہ عورتیں (2) دوسرے پاک دامن عورتیں (3) اورتیسرے آزاد عورتیں (1)پہلے معنی کی نظیر قران مجید اورکلامِ عرب میں موجود ہے۔ سورہِ نساء میں محرمات کا ذکرکرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایاہے ،، والمحصنات من النساء الاما ملکت ایمانکم ( النساء 24) ،،اور، محصنات ، یعنی وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں   جوکسی کے نکاح میں ہوں الایہ کہ کہ وہ تمہاری ملکِ یمین بن جائیں ،، نابغہِ ذبیانی کا شعر ہے

شعب العلافیات بین فروجھم

والمحصنات عوازب الاطھار

،، وہ علافی کجاؤں پر سوار میدانِ جنگ میں ہیں اور ان کے بیویوں کے طہر ان کی رفاقت سے محروم ہیں  ،،

دوسرے معنی میں بھی قرانِ مجید اورکلامِ عرب سے ثابت ہیں ۔ سورہِ نورمیں ہے ان الذین یرمون المحصنت الغفلت المؤمنات لعنوا فی الدنیا والاخرة ولھم عذاب عظیم ( النور 23) ،، جو لوگ پاک دامن ، بھولی بھالی ، مومنہ عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ودنیا اورآخرت ، دونوں میں ملعون ہیں اور ان کے بڑاعذاب ہے ،، جریر فرزدق کی مدح کرتے ہوئے کہتا ہے

 تتبع فی الماخور کل مریبة

ولست باھل المحصنات الکرائم

تم گناہوں کی مجالس میں ہربدکار عورت کا پیچھا کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم پاک دامن شریف زادیوں کے قابل نہیں ہو ،،۔ تیسرے معنی میں یہ لفظ قران مجید میں سورہِ النساء میں آیا ہے ،، فان اتین بفاحشة فعلیھن نصف ماعلی المحصنت من العذاب ( النساء 25) ،، پھر اگر وہ کسی بدچلنی کا اتکاب کریں تو آزاد عورتوں  کےلیے جو سزا ہے اس کی نصف سزا ان پر ہے۔  ان سب معنوں  میں یہ لفظ عربی زبان میں مستعمل ہے ،، ( برھان ص 96) احبابِ کرام نے اس طویل عبارت کو دیکھ لیا ہے ۔اب جناب غامدی نے اس میں کیا گل کھلائے ہیں احباب اسے تھوڑی سی زحمت سے سمجھ سکتے ہیں  کہ اس جگہ جناب نے تین کارنامے انجام دیئے ہیں (1) ایک توجناب نے یہ کارنامہ انجام دیاہے کہ پہلے دومعنوں کے لیے قران مجید کے ساتھ کلامِ عرب کو بھی پیش کیا ہے  مگر تیسرے معنی کے لیے کلامِ عرب کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔اورکوئی مثال بھی ادھر اس کی موجود نہیں ہے ۔لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ ان تینوں معانی میں لفظِ ،،المحصنات ،، مستعمل ہے (2) دوسرا کارنامہ یہ انجام دیا ہے کہ ،، اس تیسرے معنی میں استعمال کےلیے اسی آیت کو بطورِ دلیل پیش کیا گیا ہے جس میں ان کےاور دیگر علماء کے درمیان نزاع موجود ہے یعنی سورتِ النساء کی آیت نمبر (25) ۔ایسے عمل اور استدلال کوعلماء کرام مصادرہ علی المطلوب سے تعبیر کرتے ہیں جو باطل ہے  (3) تیسرا کارنامہ یہ انجام دیا ہے کہ ادھر بلادلیلِ کلامِ عرب کو اس ،، تیسرے معنی ،، میں اس لیے قبول کیا ہے کہ جناب کا کام اس ،، معنی ،، سے بن رہا ہے ۔مگر جہاں ایسے لفظ یامعنی سے جناب کا کام خراب ہوتا ہو   یا پھرکم ازکم  کام بنتا نہ ہو تو وہاں وہ ایسے استدلال کو ببانگِ دہل یہ کہ کررد کردیتے ہیں کہ معنی کےلیے کلامِ عرب میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اس کی کلامِ عرب میں کوئی نظیر نہیں ہے۔ جناب کی اس عمل کے لیے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں  مگر ہم بقصدِاختصار صرف ایک مثال پراکتفاء کرتے ہیں ۔ جناب غامدی اپنی کتاب (میزان ص 526 ، 527) میں  ، کلالہ ، کے تین معانی زمخشری کی الکشاف سے نقل کرتے ہیں ۔ اخری دو معانی کو تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن پہلے معنی کے متعلق لکھتے ہیں ،، پہلے معنی یعنی اس شخص کے لیے جس کے پیچھے اولاد اور والد دونوں میں سے کوئی نہ ہو ، اس کا استعمال اگرچہ اصولِ عربیت کے مطابق ہے لیکن اس کی کوئی نظیر ہمیں کلامِ عرب میں نہیں مل سکی ،، دیکھا جب یہ بات جناب کی فکر کی مؤید نہیں تھی  تو انہوں نے کیا فرمایا ہے ؟ آگے ،،لکھتے ہیں کہ ،،  یہ تبدیلی ( یعنی ،، یوصی ،، کا مجہول استعمال ) صاف بتارہی ہے کہ ،، انکان رجل یورث کلالة او امراءة ،، میں یوصی کا فاعل ، یعنی مورث مذکور نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس آیت میں ،، کلالة ،، کو کسی طرح مرنے والے کےلیے اسمِ صفت قرارنہیں دیاجا سکتا۔یہ تغیرحجتِ قاطع ہے کہ قران مجید نے یہ لفظ پہلے معنی میں ، یعنی اس شخص کے لیے جس کے پیچھے اولاداوروالد ، دونوں میں سے کوئی نہ ہو ، استعمال نہیں کیا ہے ( میزان ص 527) یہاں جناب غامدی نے،، کلالہ ،، کے پہلے معنی کے متعلق یہ نہیں کہا ہے کہ ،،  قران میں یہ معنی موجود ہیں  ،، حالانکہ قران میں موجود ہے ،، قل اللہ یفتیکم فی الکلالة ان امرؤ ھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ماترک ( النساء 176) اس سے معلوم ہوتا ہے  کہ ،، کلالہ ،، ، من لاولد لہ ولاوالد ، کو کہتے ہیں ۔ پہلی بات صراحتا آیت میں موجود ہے ، دوسری ضمنا موجود ہے کہ ،، والدین کی موجودگی میں بھائی بہنوں کوحصہ نہیں ملتا مگر یہاں ملا ہے ۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ والدین اس کے موجود نہیں ہیں ۔ اب یہ بات اتنی واضح ہے مگر اس کو چھوڑ دیا ہے ۔مگر وہاں اس نزاعی آیت سے استدلال کیا ہے ۔ کیا ایسے افعال دین داری اورخوفِ خدا کیوجہ سے ہوتے ہیں ؟ اور پھر اس آیت میں جس تغیرکو حجتِ قاطع قرادیا ہے   اس میں ایک متواتر قراءت مجہول کے صیغے سے بھی ہے ۔ اب دیکھئے کہ کیا بچا ہے ؟ (2) دوسری مثال یہ ہے کہ وہ مولانا مودودی اور بعض دیگر علماء پر رد میں لکھتے ہیں جس کاخلاصہ یہ ہے  ،،  کہ ان لوگوں کا یہ استدلال محض غلط ہے کہ ایک لفظ جب کسی آیت کی ابتدا میں کسی معنی میں مستعمل ہو تو اس کے آخر میں بھی اسی معنی میں مستعمل ہوگا ۔ یہ قطعا لازم نہیں ہے کہ ایک لفظ اگر کسی آیت کی ابتدا میں ایک معنی میں مستعمل ہو تو وہ اس کی آخر بھی اس معنی میں مستعمل ہوگا ،، پھر اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ایک مصنوعی مثال پیش کی ہے۔ اور ایک قرانی مثال ۔مصنوعی مثال پر بات کرنا بالکل فضول ہے ۔ قرانی مثال ملاحظہ کرلیں ۔لکھتے ہیں کہ ،، وان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلاث ورباع ، فان خفتم الاتعدلوا فواحدة اوماملکت ایمانکم ، ذالک ادنی الا تعولوا وآتو النساء صدقاتھن نحلة( النساء 3 ، 4) یہاں ایک سلسلہِ بیان میں دوجگہ ، النساء ، کالفظ استعمال ہوا ۔اور دیکھ لیجئے کہ دونوں جگہ یتیموں کے ماؤں کے لیے آیا ہے ۔ لیکن شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کے لحاظ سے اسے ایک معنی میں نہیں لیا جاسکتا ( برھان ص 98) یہاں دو باتیں ہم کریں گے ۔ ایک یہ کہ ان علماء کرام نے کب اور کہاں یہ بات لکھی ہے کہ دوسرے مکرر لفظ میں اگر نئے معنی کے قرائن بھی موجود ہوں   تب بھی پہلے معنی کو ہی  لینا ضروری ہے ؟ اوراگر انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہے اور یقینا نہیں لکھی   تو پھر بلاوجہ ان کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں غلط ایہام پیداکرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟اور دین کی کونسی خدمت ہے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں مکرر لفظ یعنی  ،، النساء ،، کے ساتھ نئے معنی کا قرینہ موجود ہے جیسا کہ جناب نے خود بھی اس کا اقرار کیا ہے   کہ پہلے میں ، فانکحوا ، اور دوسرے میں ، وآتوا ،، ہے ۔اس لیے پہلے ، ،النساء ، سے غیر شادی شدہ عورتیں مراد ہونگی ، اوردوسرے میں ، النساء ، سے شادی شدہ عورتیں مراد ہونگی ۔مگر سورت النساء کی آیت 25 میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے   یا پھر وہ قرینہِ صریحہ نہیں ہے (3) اب تیسری مثال دیکھ لیتے ہیں۔ ایک جگہ ،، الف لام ،، جو عہد کےلیے آتاہے اس پر بحث کرتے ہوئے اس کی دو صورتیں متعین کرتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ لفظ پہلے نکرہ آئے بعد میں میں معرفہ کی صورت اختیار کرلے جیسے ،، فیھا مصباح المصباح فی زجاجة ،،  اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ مخاطب ومتکلم دونوں کےذہن میں پہلے سے متعین ہو   جیسے ،، لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ،،   یہ باتیں انہوں نے المفصل ، مغنی اللبیب ، اور شیخ رضی وغیرہ کی کتابوں سے لی ہیں جیسا کہ ان کی کتاب میں یہ تصریح موجود ہے۔ ان دو ،، الف لام عہدی ،، کے بعد لکھتے ہیں ،، تعریف عہد کی ان دو( مذکورہ ) صورتوں کے علاوہ کوئی تیسری صورت اس معنی پر دلالت کےلیے جس کا اثبات ان حضرات کے پیشِ نظر ہے ، عربی زبان میں ابھی تک دریافت نہیں ہوسکی ( برھان ص 100) یہاں ابن ہشام کی ،، مغنی اللبیب ،، کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ اس کے باوجود ،، الف لام عہدی  ،، کی تیسری قسم کی دریافت ہونے کا ان مذکورہ الفاظ میں انکار کیا ہے ۔حالانکہ ،، مغنی اللبیب ،، میں موجود ہے سارے احباب اسے دیکھ سکتے ہیں ،،، اب ان صاحب کو اس نفی پرکیا کہاجاسکتا ہے؟ مگر خداکا کرنا دیکھ لیں کہ چند دن بعد یہ آدمی کسی اور شخص کی تردید میں کوئی مضمون لکھتا ہے ۔ اس میں لکھتے ہیں کہ ،، مغنی اللبیب ،، اس فن کے جلیل القدرامام ابن ہشام نے اس ( المفصل ) کے دوصدی بعد تصنیف ہے ۔اس میں ہے کہ تعریف کا الف لام ان کے نزدیک حسبِ ذیل تین صورتوں میں آتا ہے (1) ایک یہ کہ کسی اسمِ نکرہ کا بعینہ اعادہ مقصود ہو ،، کماارسلنا الی فرعون رسولا فعصی فرعون الرسول ،، (2) دوسری یہ کہ اس کی اسم کا مصداق متکلم کے سامنے موجود ہو ۔ مثال کے طورپر جاءنی ھذالرجل ،،(3) تیسری یہ کہ یہ متکلم یامتکلم اورمخاطب دونوں کا معہود ذہنی ہو مثلا ،، اذ ھما فی الغار ،، الف لام کی یہی تینوں اقسام ہیں جن کے بعض دوسرے اہلِ نحو کے ہاں عہدِ خارجی کی اصطلاح مستعمل ہے ( برھان ص 109) پہلے جو ،، الف لام عہد ،، کی تیسری قسم کے دریافت کی نفی کی وہ بھی درست تھا ۔ اب جو اثبات کیا ہے  وہ بھی درست ہے ۔ایسے لوگوں پرآخر کس طرح دین کے حوالے سے اعتبار کیا جا سکتاہے ؟ہم بالکل نہیں جانتے ؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…