غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

Published On April 3, 2024
کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ سوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حدیث و سنت کا مفہوم : اہل اسلام اور غامدی صاحب  غامدی صاحب کے اندراس شوخ چشمانہ جسارت کاحوصلہ کیوں پیدا ہوا ؟ اس لیے کہ وہ آپ کے طریقے اور عمل کو ’سنت ‘ سمجھنے کے لیے تیار نہیں؛ چناں چہ ان کے ٹیپ کا بند ملا حظہ فرمائیں ’’لہٰذا سنت صرف یہی...

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور تبیین پر نقد کا سلسلہ جاری ہے جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کے تصور تبیین کی نہ صرف یہ کہ لغت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ اس لفظ کے قرآنی محاورے و استعمالات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم غامدی صاحب یہ تاثر بھی...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

ڈاکٹر زاہد مغل  توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ دوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صحابہ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ اول

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ماہنامہ الشریعہ میں مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے کتابچے ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث وسنت‘‘ کا اور ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت بنام ’’الشریعہ کا طرز فکر اور پالیسی: اعتراضات واشکالات کا جائزہ‘‘ کا اشتہار دیکھا تو راقم نے نہایت ذوق وشوق کے...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل تعارف جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی کے ،، استادامام ،، مولانا اصلاحی انہی آیاتِ سورہِ انعام کے متعلق رقم طراز ہیں کہ ،، اوپر کی آیات میں حضرت ابراہیم کی دعوت کے ساتھ ان کے روحانی وایمانی مدارج کابیان ہوا ۔اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اس دنیامیں بھی اللہ نے ان کو اوران کی دعوت کو رفعِ ذکراور شہرتِ دوام کی عزت وسرفرازی عطافرمائی ۔ان کی ذریت میں بڑے بڑے انبیاء اوربلند مرتبہ صالحین ومجددین اٹھے اوران سب کا دین وہی دینِ توحید تھا جس کی دعوت ابراہیم نے اوران سے پہلے نوح نے دی ، مطلب یہ ہے کہ یہی دین تمام انبیاء کامشترک دین ہے اورتم بھی اسی دین کی دعوت دے رہے ہو ، اگرتمہاری قوم اس کوقبول نہیں کرنا چاہتی توتم اس کی پروانہ کرو ،اللہ نے دوسروں کوکھڑاکردیا ہے ، جواس کے حامل بنیں گے ، تمھیں ان کی مخالفت سے بے نیاز ہوکر بہرحال انہی لوگوں کے دین کی پیروی کرنی ہے جن کو اللہ کی ہدایت نصیب ہوئی ، توتم ان کی پیروی کرو (تدبرِ قران ج3 ص 100) اور مفتی محمدشفیع لکھتے ہیں کہ ،، دوسری ہدایت خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے کہ آپ بھی سابقین کاطریقہ اختیار فرمائیں۔ یہاں یہ بات قابلِ غورہے کہ انبیاء علیھم السلام کی شریعتوں میں فروعی اورجزوی اختلافات پہلے بھی ہوتے رہے ،اورملتِ اسلام میں بھی ان سے مختلف بہت سے احکام نازل ہوئے ہیں ، توپھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوانبیاء سابقین کے طریق پرچلنے اورعمل کرنے کاکیامطلب ہوا ؟دوسری آیات اور روایاتِ حدیث کے پیشِ نظراس کاجواب یہ ہے کہ یہاں تمام فروعی اورجزوی احکام میں انبیاء سابقین کاطریقِ کار اختیار کرنے کاحکم نہیں  بلکہ اصولِ دین ، توحید ، رسالت اورآخرت میں ان کاطریقِ کار اختیار کرنا مقصود ہے   جو کسی پیغمبر کی شریعت میں ادل بدل نہیں ہوئے ( معارف القران ج3 395) ان کثیر عبارات کو نقل کرنے سے ہمارا مطلب صرف اس قدر ہے   کہ ان آیات سے اکابرمفسرین نے بھی یہی کچھ سمجھا ہے جو ہم احباب کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔نہ کہ وہ بات جو جناب غامدی اور حافظ محب کہتے ہیں۔ اب اصل بحث کی طرف دوبارہ توجہ کرتے ہیں۔ جناب غامدی نے حج وعمرہ کے متعلق لکھا ہے کہ ،، حج وعمرہ سے متعلق ہرصاحبِ علم اس حقیقت کو جانتاہے کہ قریش نے چند بدعتیں ان میں بے شک داخل کردی تھیں   لیکن ان کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اس وقت اداکی جاتی ہیں ۔ بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے   کہ لوگ ان بدعتوں پرلوگ متنبہ بھی تھے ۔ چنانچہ بخاری ومسلم  دونوں میں بیان ہواہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جوحج کیا تھا   وہ قریش کی ان بدعتوں سے الگ رہ کربالکل اسی طریقے پر کیا   جس طریقے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ جاری رہا ( میزان ص 46) ان آحادیث کو ہم ان شاءاللہ نقل کریں گے ۔ مگر اس سے پہلے سوچنے کی کچھ باتیں ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ جن دوآحادیث کا جناب غامدی نے حوالہ دیاہے ، ان کوہم نقل کریں گے ۔ مگر جناب غامدی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ،، بدعتوں ،، سے الگ رہ کرحج کیا ،، وہ بدعات کون کون سی تھی ؟ اورکہاں ان کا ذکرکیا گیاہے؟ اگر اس دعوی کےلیے بنیاد یہی دو روایات ہیں جن کاحوالہ جناب نے دیاہے ؟ توان میں فقط یہ بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ،، حمس ،، کے خلاف عرفات پرجانے کاعمل بھی بجالایا   مگر یہ تو صرف ایک بدعت تھی ۔ باقی کے بارے میں ہم کہاں معلوم کریں  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھی خلاف کیاہے ؟ اس بات کی وضاحت ہونی چاہئے (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے ابھی اوپر اقرار کیا ہے کہ ،، قریش نے کچھ بدعات اس حج اورعمرہ میں شامل کیے تھے ،،  ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حج عام عرب کے رواج کے مطابق کیا تھا ۔یعنی عرفات بھی گئے ، صرف مزدلفہ سے واپس نہیں ہوئے تھے جیسا کہ قریش یہ عمل اس زعم کی بنا پر کرتے تھے کہ ہم ،، حمس ،،  ہیں۔ اس سے یہ تو معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے میں قریش کے خلاف کیا ۔ مگر اس عمل سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ باقی لوگ بھی ان  ،، بدعات ،، پر متنبہ تھے ؟ جو مشرکینِ مکہ نے حج میں داخل و شامل کیے تھے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نبوت سے قبل ان ،، بدعات ،، کی قولا کوئی تردید بھی نہیں کی تھی ۔اگرچہ فعلا وہ اس سے الگ تھلگ رہے ۔ انہوں نے دیگر لوگوں کے طریقہِ عمل کو اپنایا تھا کیونکہ عام حالات میں کسی طریقہ کے خلاف عمل کرنا اس طریقہ کے ،، بدعت ،، ہونے کی دلیل تو نہیں ہوتی ؟(3) تیسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے خود بخود ہماری بات کی تایید ہورہی ہے ۔ وہ یوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اورقریش عرفات نہیں جاتے تھے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے حج کا طریقہ قریش سے نہیں سیکھا تھا ۔ اگر وہ حج کاطریقہ ان سے سیکھ لیتے   تو پھر وہ ان کی مخالفت کس طرح کر سکتے تھے ؟ کیونکہ اس پاک گھر کے خادم ، مجاوراور مقدس لوگ تو یہی قریش تھے ۔ پھر ان کے مقابلے میں وہ دوسرے معمولی درجے کے لوگوں کو ان پر کیسے فوقیت دے سکتے تھے؟ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی دوسرا ذریعہِ علم تو اس وقت نہیں تھا ؟ اب اگر کوئی ہم سے سوال کرے کہ   پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں سے یہ بات سیکھی جب کہ اس وقت وحی بھی انہیں نہیں آتی تھی ؟ تو ہمارے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ ہر نبی قبل ازنبوت شرک اور خبائث سے مکمل محفوظ ھوتا ہے۔ ان کی فطرت اللہ تعالی نے ایسی بنائی ہے کہ وہ ان چیزوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ مولانا اصلاحی نے ایک خوبصورت عبارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی فطرت کے متعلق لکھی ہے ۔مگر نام اس میں صرف ،، شرک ،، سے حفاظت کا لیا ہے حالانکہ وہ دیگر خبائث سے محفوظ ہوتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ،، حضرات انبیاء کرام علیھم السلام فطرتِ سلیم پر پیداہوتے اور فطرتِ سلیم ہی پر پروان چڑھتے ہیں ۔ نبوت سے پہلے بھی ان کوکبھی توحیداور شرک کے معاملے میں اشتباہ پیش نہیں آیا ۔ توحید توعہدِ فطرت ہے جوخدانے اولادِآدم سےان کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی لیا ہے ، اور قران سے ثابت ہے کہ اس عہدہی کی بنا پر توحید کےمعاملے میں ہرشخص عنداللہ مسؤل ہوگا ،خواہ اسے کسی نبی کی دعوت پہنچی ہو یانہ پہنچی ہو ، ایسی حالت میں کسی نبی کے متعلق یہ گمان کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی شرک سے آلودہ ہوسکتاہے۔ نبوت سے پہلے بھی حضرات انبیاء کرام جہاں تک مبادئ فطرت ہے کا تعلق ہے  بالکل فطرة اللہ پر ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ نخلِ فطرت کے بہترین ثمر ہوتے ہیں ۔اس دور میں انہیں جوجستجو ہوتی ہے   وہ خداکی نہیں بلکہ خداکی مرضیات اور اس کے احکام کی ہوتی ہے۔ یہ جستجو بھی درحقیقت ان کی فطرتِ سلیم کی ہی پیاس ہوتی ہے   جو اپنے بلوغ پر بھڑکتی ہے  ،اور سیرابی اور آسودگی کی خواہاں ہوتی ہے ۔یہ سیرابی ان کو وحی کی ابرِنیساں سے حاصل ہوتی ہے ، انبیاء کے لیے وحی کی حیثیت تاریکی کے اندر روشنی کی نہیں بلکہ روشنی کے اوپر روشنی کی ہوتی ہے ،، نورعلی نور یھدی اللہ لنورہ من یشاء ،، (تدبرِقران ج3 ص 99 ) اسی طرح کی ایک عبارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کے  متعلق مولانا مودودی کی بھی غالبا ،، تفھیمات ،، میں ہے   مگر وہ کتاب اس وقت مل نہیں رہی ہے ، وہ پھر سہی ان شاء اللہ ، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء کرام اپنی پاک طینتی کی وجہ سے بھی خبائث اور بدعات اسے محفوظ ہوتے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…