غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 67)

Published On April 3, 2024
کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ سوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حدیث و سنت کا مفہوم : اہل اسلام اور غامدی صاحب  غامدی صاحب کے اندراس شوخ چشمانہ جسارت کاحوصلہ کیوں پیدا ہوا ؟ اس لیے کہ وہ آپ کے طریقے اور عمل کو ’سنت ‘ سمجھنے کے لیے تیار نہیں؛ چناں چہ ان کے ٹیپ کا بند ملا حظہ فرمائیں ’’لہٰذا سنت صرف یہی...

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور تبیین پر نقد کا سلسلہ جاری ہے جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کے تصور تبیین کی نہ صرف یہ کہ لغت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ اس لفظ کے قرآنی محاورے و استعمالات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم غامدی صاحب یہ تاثر بھی...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

ڈاکٹر زاہد مغل  توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ دوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صحابہ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ اول

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ماہنامہ الشریعہ میں مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے کتابچے ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث وسنت‘‘ کا اور ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت بنام ’’الشریعہ کا طرز فکر اور پالیسی: اعتراضات واشکالات کا جائزہ‘‘ کا اشتہار دیکھا تو راقم نے نہایت ذوق وشوق کے...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل تعارف جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے...

مولانا واصل واسطی

اوپر جناب غامدی کی جو عبارت نقل ہوئی ہے   اس میں دوسری بات ،، اعتکاف اور ختنہ ،، کی انہوں نے کی ہے ۔ہم اس مبحث میں ،، اعتکاف ،، پر کچھ کہنا چاہیں گے ۔اگے پھر دیگر عنوانات ہوں گے۔ جناب غامدی نے ،، سنتِ ابراہیمی ،، کے حوالے سے دو باتیں لکھی ہیں ۔ ایک یہ کہ ،، سنتِ ابراہیمی ،، ہم جس عمل کو کہتے ہیں   وہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب معاشرے میں فعلا موجود ہوا ہے ۔ اور دوسری بات یہ لکھی ہے   کہ یہ ،، سنت ،، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بتواتر ہم تک منقول ہوئی ہے ۔ان کے لیے ہم ان کی عبارتیں پہلے نقل کرچکے ہیں ،، اعتکاف ،، کے متعلق ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں محلِ نظر ہیں۔ پہلی بات تو اس لیے درست نہیں ہے کہ اس کا کوئی مستند ماخذ موجود نہیں ہے ۔ اسی لیے تو جناب غامدی نے بھی اس کے لیے کسی ماخذ کا حوالہ نہیں دیا ہے ۔ ہمارے خیال میں اس بات کے لیے تین یا چار مآخذ میں سے کوئی ایک ہو سکتاہے  (1) پہلی بات یہ ہے کہ یا تو جناب غامدی اس کو مشرکینِ کے طریقے سے ماخوذ سمجھتے ہونگے   اور ان کے عمل کو اس ،، سنت ،، کا ماخذ قرار دیتے ہوں گے کیونکہ قران میں ان کے بارے میں وارد ہے کہ ،، انتم لھا عاکفین ،، اگر اس کو جناب ماخذ تسلیم کرتے ہیں۔ تو اس پر بحث اور نقد کرنے کے ہم کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے اسے فقط نقل کردینا ہی اس کی تردید کے لیے کافی و شافی ہے   (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب راھبینِ نصاری کا عمل اس بات اور اس ،، سنت ،، کے لیے ماخذ سمجھتے ہونگے کیونکہ قران مجید میں ان کے لیے بھی ،، ورھبانیة ابتدعوھا ماکتبنا علیھم ،، موجود ہے ۔ اگر ایسا ہو تو ہم عرض کریں گے کہ ،، بدعت ،، کیسے اور کس طرح ،، سنت ،، کاماخذ بن سکتا ہے ؟ اعتکاف ایک ،، سنت ،،  عمل ہے مگر اس کی بنیاد نصاری کی رہبانیت پر قائم ہو یہ بات قطعا ماننے کے لائق نہیں ہے  لہذا یہ ماخذ بھی ازکار رفتہ ہے  (3) تیسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی سیدنا موسی علیہ السلام  کا چالیس دن طور پر ریاضت کرنا اس بات کے لیے ماخذ سمجھتے ہونگے اور اسی طرح سیدنا عیسی علیہ السلام اورسیدنا یحیی علیہ السلام  کے عمل کو بھی جانتے ہونگے ۔اگر جناب اس کو اعتکاف کا ماخذ مانتے ہیں تو یہ بھی درست نہیں ہے اس کے درست نہ ہونے کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہم فقط دو یاتین وجوہ ذکر کریں گے ، (1) پہلی وجہ یہ ہے کہ جناب اس کو ،، سنت ابراہیمی ،، قرار دیتے ہیں   تو اس بات کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ اس عمل کو سیدنا ابراہیم سے براہِ راست نقل کیا جائے ۔دوسروں کے اعمال نقل کرنے سے ان کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا عمل اور ،، سنت ،، کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے  جبکہ ان میں اس بات کا اشارہ تک موجود نہ ہو ؟ اس بات کی تردید کےلیے اتنی ہی بات کافی اور بس  ہے (2) دوسری وجہ یہ ہے کہ سیدنا موسی علیہ السلام کا وہ عمل جو چالیس دن کی ریاضت پر مبنی تھا۔ وہ تو صرف وحی کے اخذ کرنے کے لیے تھا اوراسی طرح سیدنا یحی اور سیدنا عیسی علیھما السلام کا عمل بھی تھا اس لیے کہ وحی کے  ،، قول ثقیل ،،  کے لیے اس طرح کی ریاضت کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ خود جناب غامدی نے سیدنا موسی اور سیدنا عیسی علیھماالسلام کے متعلق اس طرح کی بات کی تصریح کی ہے کہ ،، نبی ( علیہ السلام ) جس ذمہ داری کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں ۔ اس کے لحاظ سے عبادت وریاضت میں بعض اوقات ان سے زیادہ اہتمام کا تقاضا کیاجاتاہے ۔ اس سے مقصود جمعیتِ خاطر بھی ہوتی ہے۔ تبتل الی اللہ کے ذریعے سے قلب ونظر کی تطہیر بھی ۔ اور علم وعمل میں استقامت بھی۔ موسی علیہ السلام کے بارے میں قران کا بیان ہے کہ انہیں جب تورات کی الواح دینے کا فیصلہ کیا گیا تو اس سے پہلے وہ اس بارِ عظیم کو اٹھانے کےلیے ذہنی وقلبی تیاریوں کی غرض سے چالیس دن تک جبلِ طور پرمعتکف رہے۔ سیدنا یحی اورسیدنا مسیح ( علیھماالسلام ) نے رہبانیت کی حدتک زہد وتجرد اختیار کیے رکھا ( میزان ص 141)  اس سے معلوم ہوا کہ یہ عمل فقط ،، وحی ،، کے لینے اور اخذ کرنے کے لیے تھا  (3) تیسری وجہ یہ ہے  کہ اس عمل کو اگر ہم اعتکاف کےلیے ماخذ مان بھی لیں   تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ تو اس میں جناب کے لیے پھر وہی اشکال پیدا ہوا کیونکہ ان کا تو اصل مقصد یہی تھا   کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس جاری وساری ہمیں دکھا دیں ۔مگر یہاں ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے۔ ان سادات یعنی سیدناموسی اور سیدناعیسی وسیدنا یحیی علیھم السلام  اور سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تو بہت زمانے کافاصلہ موجود ہے۔ اس زمانے میں اس کا وجود وجود ہونے سے ، اس زمانے میں اس کو کس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے ؟ گویا اس ماخذ سے بھی یہ خلا پر نہیں ہوسکتا (4) چوتھی بات یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غارِحراء والے عمل کو اس اعتکاف کے لیے جناب ماخذ مانتے ہوں ؟ مگر ہمارے نزدیک یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غارِحراء میں عبادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے کیونکہ بخاری میں  سیدہ عائشہ سے ایک روایت مروی ہے جس میں بعض الفاظ یہ ہیں کہ ،، وکان یخلو بغارِحراء فیتحنث فیہ ، وھو التعبد ،( فتح الباری ج1ص 29) مگر یہ بات بھی اعتکاف کا ماخذ بننے کے لائق نہیں ہے  کیونکہ اس عمل کے بواعث میں تین احتمال ہمارے نزدیک موجود ہوسکتے ہیں ۔

ایک احتمال یہ ہے کہ انہوں نے الہاما ایسا کیا ہو اور مستقبل میں نبی اور رسول ہونے والے شخص پر الہام کی ممانعت کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو جناب کی سنت والی بات پھر خراب ہوگئی ہے لہذا یہ ماننا جناب کے لیے کچھ مفید نہیں ہوتا  (2) دوسرااحتمال یہ ہوسکتا ہے   کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو اپنی پاکیزہ فطرت اورمنزہ طینت کی بنیاد پراختیار کیا ہو   جیسا کہ ہم نے اس کو پہلے ثابت کیا ہے۔ اگرایسا ہو تو یہ بات بھی جناب کے لیے باعثِ تسکین نہیں ہوسکتی کہ اس عمل سے اس کو ،، سنتِ ابراہیم ،، ثابت نہیں کیا جاسکتا (3) اورتیسرا احتمال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے عرب سے اس کو اخذ کیا ہو۔ یہ بات پہلے تو ثابت نہیں ہے ، کما صرحنا بہ مرارا فی مامضی من المباحث ، پھر اگر ہم اس بات کو بالفرض ثابت مان لیں تو پھر جناب کو یہ بتانا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قبل ازنبوت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ملت اور سنت کا اتباع لازم تھا ؟ جو آیت سورہِ نحل کی جناب غامدی اس سلسلے میں پیش کرتے ہیں  کہ ،، ثم اوحینا الیک ان اتبع ملة ابراھیم حنیفا وماکان من المشرکین ،، ( النحل 123) تو اس کا تعلق بعدازنبوت کی زندگی سے ہےلہذا جناب کو اس بات کے لیے اور پاپڑ بیلنے پڑیں گے ۔ اس آیت سے اس موضوع میں کوئی کام نہیں چلتا ۔اس آیت پر تفصیل کے ساتھ ہم ایک اورجہت سے اگے نقد وجرح کریں گے  ۔ مگر ادھر ایک چیز احباب کی نگاہ میں رہنی چاہئے  کہ ،، جناب غامدی جو اصول بناتے ہیں وہ دوسروں کے خاطر ہوتے ہیں ۔خود ان کے لیے تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن ۔ اور وہ کسی اصول کے پابند نہیں ہیں ۔ایک مثال اس بات کے لیے ملاحظہ ہو  کہ جناب نے درجِ بالا آیتِ سورتِ نحل(123) کو اس بات کے لیے دلیل بنایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ابراہیم علیہ السلام کے طریقے اور ملت کی پیروی فرض تھی۔ قران کے اس اوپر والی آیتِ نحل (123)میں سنت کا لفظ تو قطعی موجود نہیں ہے۔ ہم اس بات کے متعلق جناب کی عبارتیں اس سے قبل پیش کر چکے ہیں۔ اسے دوبارہ معاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس آیت میں جناب نے گھپلاکیاہے  مگر کس طرح کا گھپلا ہے ؟ احباب اس کو جان کراور دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگالیں گے کہ دین کے نام پرکیا ایسے گھپلے بھی ہوتے رہتے ہیں ؟ اب اس بات کی ذرا تفصیل سن لیں ۔ جناب نے تین کام اپنے اس  ،، نئے دین ،، کے مقصود کو پانے اورثابت کرنے کےلیے کیے ہیں (1) ایک کام یہ کیا ہے کہ آیتِ نحل میں وارد لفظِ،، ملت ،، کو ،، سنت ،، سے بدل دیا ہے ،، مبادئ تدبرِحدیث ،، میزان میں احباب اس کو دیکھ لیں (2) دوسرا کام یہ کیا ہے کہ پھر ،، سنت ،، کو جو اس درج آیت سے ثابت کی ہےفقط عملی امور تک محدود کیا ہے ۔ اور قران سے اس ،، سنت ،، کو یکسر خارج کردیا ہے الا یہ کہ قران ان ،، سنن ،، کی تاکید میں وارد ہو (3) تیسرا عمل یہ کیا ہے کہ پھر ان ،، سنن ،، کو صرف (26 ) اعمال تک محدود کیا ہے ،، باقی سارے اعمال جیسے زاید بر قران روایات وغیرہ سے تو ، اللہ اللہ خیر صلّا فارغ ہوگئے۔ ان تین باتوں کے حوالے  سے ہم  جناب کے حضور میں کچھ سوالات رکھتے ہیں (1) پہلا سوال یہ ہے کہ قران نے تو درجِ بالا آیت میں ،، ملت ،، کالفظ رکھا ہے آپ ،، سنت ،، کالفظ اس میں کہاں سے لائے ہیں ؟(2) دوسراسوال یہ ہے کہ پھر اس آیت کو صرف عملی احکام تک محدود کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ (3)  تیسراسوال یہ ہے کہ پھر عمل کو ان (26) ،، سنن ،، تک محدود کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ (4) چوتھا سوال یہ ہے کہ  پھر ،، سنت ،، کا ذکر قران میں بطور ،، فرضیت وسنتیت ،، کیوں نہیں ہو سکتا ہے کہ بطورِ تاکید ہوسکتاہے ؟ (5) پانچواں اورآخری سوال اس سلسلے میں یہ ہے کہ ،، جناب غامدی نے حافظ محب سے بلاحوالہ یہ قاعدہ نقل کیا ہے کہ ،، آحادیث سے ، قران ، کی تخصیص وتحدید ،  قطعا نہیں ہوسکتی ،، جناب اوپر اس مذکور عمل سے کہ قران مجید ،،  ان (26) ، سنن ، کا صرف بطورِ تاکید ذکر کر سکتا ہے بطورِ ، فرضیت اورسنتیت ، ان کا ذکر نہیں کرسکتا ہے ،، قران کی آیات کی ، تخصیص وتحدید ، ہوگئی ہے یا نہیں ہوئی؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو اس کو کوئی پاگل شخص ہی مان سکتا ہے  کیونکہ قران کی مندجہ ذیل  آیات  مثلا ،، کتب علیکم الصیام  ،، اور ،، اقیمواالصلوة وآتواالزکوة ،، اور ،، وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ،، وغیرہ کو تاکید صرف پاگل لوگ قرار دے سکتے ہیں ؟ اوراگر جناب کی اس عمل سے قرانی آیت کی نہیں بلکہ ،، آیات ،، کی تخصیص وتحدید ہوئی ہے ، اور یقینا ہوئی ہے توپھر اس کا مطلب یہی ہوا نا ں  کہ جناب خود تو قران کو ،، محدود ،، بھی کرسکتے ہیں اور ،، مخصوص ،، بھی ، مگر ،، آحادیث اور وحی ،، کو اس کی اجازت نہیں ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…