غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 69)

Published On April 3, 2024
کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ سوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حدیث و سنت کا مفہوم : اہل اسلام اور غامدی صاحب  غامدی صاحب کے اندراس شوخ چشمانہ جسارت کاحوصلہ کیوں پیدا ہوا ؟ اس لیے کہ وہ آپ کے طریقے اور عمل کو ’سنت ‘ سمجھنے کے لیے تیار نہیں؛ چناں چہ ان کے ٹیپ کا بند ملا حظہ فرمائیں ’’لہٰذا سنت صرف یہی...

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور تبیین پر نقد کا سلسلہ جاری ہے جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کے تصور تبیین کی نہ صرف یہ کہ لغت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ اس لفظ کے قرآنی محاورے و استعمالات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم غامدی صاحب یہ تاثر بھی...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

ڈاکٹر زاہد مغل  توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ دوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صحابہ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ اول

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ماہنامہ الشریعہ میں مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے کتابچے ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث وسنت‘‘ کا اور ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت بنام ’’الشریعہ کا طرز فکر اور پالیسی: اعتراضات واشکالات کا جائزہ‘‘ کا اشتہار دیکھا تو راقم نے نہایت ذوق وشوق کے...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل تعارف جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے...

مولانا واصل واسطی

سنن کی اس فہرست میں ادھر جناب غامدی نے آخری چیز کا ذکر ،، ختنہ ،، کیا ہے۔ پر اس کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ،، دینِ ابراہیمی کی روایت کا یہ حصہ جسے اصطلاح میں ،، سنت ،، سے تعبیر کیاجاتاہے  قران کے نزدیک خدا کا دین ہے ۔وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتِ ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیتا ہےتوگویا اس کو بھی پورا کاپورااپنانے کی تلقین کرتا ہے ( میزان ص 46)  اس کتاب میں تو جناب نے ان چند چیزوں کو ،، سنتِ ابراہیمی ،، سے تعبیر کیا ہے   مگر اپنی تفسیر میں سورہِ نحل کی آیت (123) کے تحت ،، سنن ،، کی اس فہرست میں بہت ساری چیزوں کا اضافہ بیان کیا ہے ۔تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، یہاں یہ امرملحوظ رہے کہ دین کا جو حصہ اس وقت ،، سنت ،، کہلاتا ہے وہ اسی حکم کے تحت جاری کیا گیا ہے  لہذا وہ اسی طرح واجب الاطاعت ہے جس طرح قران کی دوسری ہدایات واجب الاطاعت ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی تجدید واصلاح اوراس میں بعض اضافوں کے ساتھ اس کے جواحکام مسلمانوں کے اجماع اور تواتر سے منتقل ہوئے ہیں وہ یہ ہیں ( البیان ج 3 ص 57) ہم اس عبارت کے تعلق سے چند باتیں اپنے احباب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں (1) پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جناب غامدی نے ،، سنن ،، کی اس فہرست کو باقی قرانی ہدایات کی طر ح واجب الاطاعت قرار دیا ہے ۔لیکن اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ،، نکاح وطلاق اوراس کے متعلقات ،، کو رکھا ہے ( ایضا )  تو سوال یہ ہے کہ کیا طلاق دینا بھی واجب الاطاعت ہے ؟ یایہ محض اجازت ہے ؟ مگرجناب غامدی نے اس  ،، طلاق ،،  کو بھی سنن کی اس ،، فہرست ،، میں رکھا ہے۔، تواب بندہ اس سے کیا سمجھے ؟ کہ ،، طلاق ،، دینا سنت ہے ؟ یا پھر ،، طلاق ،، میں بیوی کا خاوند سے الگ رہنا  ،، سنت ،، ہے ؟ پھر اس کو بالفرض ہم ،، سنت ،،ان کے کہنے پر مان بھی لیں تو پھر سوال ہے کہ ،،  رجعی طلاق ،، میں بیوی کا خاوند سے الگ اور دور رہنا ،، سنت ،، ہے یا پھر ،، طلاق بائن ،، میں ؟ اسی طرح ان ،، دونوں کے متعلقات ،، بھی ہیں ، جیسے  ، عدت ، ظہار ، ایلاء ، لعان ،  وغیرہ بھی ،، سنت ،، ہیں۔ بہر حال یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ ، عدت ، کے متعلق تو اس مکتب کے دانشوروں کا کہنا ہے  کہ اس سے مقصود تو عورت کا حاملہ ہونا یا نہ ہونا معلوم کرنا ہے ۔ وہ اب ڈی این اےسےمعلوم ہوسکتاہےلہذا عورت کو  تین ماہواری یا پھر چار مہینے دس دن تک تکلیف دینے کی آخرکیاضرورت ہے ؟ بہرحال جدید سہولت پسند طبائع کے لوگوں کو مژدہ ہو کہ ان کے لیے  ،، طلاق ،، بھی واجب الاطاعت ،، سنت ،، ہے ۔ اس ،، سنت ،، کے ذریعے اب وہ پرانے بیویوں سے چھٹکارا ان شاءاللہ بآسانی پاسکیں گے ۔ اور دوسری چیز ،، حیض ونفاس میں زن وشو کا تعلق ہے۔ ،، اگر جناب حیض ونفاس کو ،، سنت ،، کہتے ہیں تو بھی مسئلہ درپیش ہے ۔اوراگر ان دوچیزوں کے دوران عورتوں کے ،، جماع اورصحبت ،، سے بچنا ،، سنت ،، ہےتب بھی مسئلہ ہے   کیونکہ اللہ تعالی نے اس کو ،، اذی ،، سے تعبیرکیا ہے ۔  اس سے معلوم ہوا کہ یہ طبی مسئلہ ہے جس میں جماع کرنےسے انہیں کچھ نقصان ہوسکتا ہے جیسا کہ بعض جدید محققین نے اس کی صراحت کی ہے ۔ شرعی مسئلہ بالکل نہیں ہے ۔ طبی مسائل میں یہ کہنا کہ وہ واجب الاطاعت ہے محلِ تامل ہے ۔ اس وجہ سے بعض روایات میں جماع کرنے سے دینار یانصفِ دینار صدقہ ادا کرنے کا حکم ہوا ہے ۔ طبی مسئلے کی  یہ بات ہم نے جناب غامدی کے مکتب کو پیشِ نظر رکھ کر لکھی ہے  کہ وہ ایسی بات کو آخر کس طرح سنت قرار دے سکتے ہیں ؟ اسی طرح جناب نے ،، ختنہ ،، کو بھی واجب الاطاعت سنت قرار دیا ہے ۔ اگر یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے واجب الاطاعت رہاہے   تو پھر جناب کو چاہئے کہ اس کی دلیل فراہم کردیں ۔ اوراگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ وجوب کے درجہ تک پہنچ گیا ہے   تو آحادیثِ نبویہ میں اسے واجب کرنے کی کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک زمانے میں عورتوں کے ختنے کی بات بھی ،، اشراق ،، میں چلی تھی۔ اب پتہ نہیں کہ جناب دونوں کے ختنہ کو لازم سمجھتے ہیں یا پھرصرف بچوں کے ختنہ کو واجب الاطاعت جانتے ہیں ؟ (2) دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جناب اوپر مذکور عبارت میں ان سب  ،، سنن ،، کو واجب الاطاعت قرار دیتے ہیں ۔ اس کابظاہر یہی مطلب ہواکہ نماز ، زکوة ، روزہ ، حج ، ،صدقہِ فطر ، اعتکاف ، اور ختنہ وغیرہ سب کا ایک ہی  درجہ ہے ۔ اگر اس عبارت سے یہی مقصود ہے تو اس سے زیادہ فاسد بات شایددنیا میں کہیں موجود ہو ۔ جناب کو غالبا تواتر کے لفظ سے شبہ پڑا ہے حالانکہ تواتر سے ثابت ساری چیزیں واجب الاطاعت نہیں ہوتیں۔یہ بات صرف ہم اپنی فکر کی لحاظ سے نہیں کہتے ہیںبلکہ جناب غامدی کی فکر سے بھی ایسی بات معلوم ہوجاتی ہے ۔ اب دیکھئے کہ کسی نبی علیہ السلام نے داڑھی نہیں منڈوائی ، اور کسی صحابی نے داڑھی نہیں منڈوائی ،  اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ساری آحادیث صحاح میں وارد ہیں جن میں انھوں نے فرمایاہے کہ داڑھی بڑھالو ، اور مونچھیں پست کرو ۔مگرجناب غامدی اسے سنت نہیں مانتے ۔ لطف یہ ہے کہ مونچھوں کو پست کرنا ،، سنت ،، مانتے ہیں حالانکہ داڑھی اورمونچھوں کا ذکر ایک ہی جگہ میں موجود ہے ۔خلاصہ یہ ھے کہ ،، سنن ،، کی اس فہرست میں چار پانچ چیزوں کے علاوہ باقی سب سے اس داڑھی کا درجہ قولا بھی بہت بڑا ہے اور فعلا و عملا بھی بڑاہے مگر جناب اسے متواتر ماننے کے لیے تیارنہیں ہیں ۔عصرِحاضر کے بعض دیگر متجددین نے سیدنا ابوامامہ کی ایک ضعیف روایت کی بنا پراپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ داڑھی کا مسئلہ معلول بعلة ہے اس لیے کہ اس میں ،، خالفوا اھل الکتاب ،، کے الفاظ وارد ہیں۔ اور قاعدہ ہے کہ الحکم یدور مع العلةوجودا وعدما ۔اب اگر وہ علت ان میں موجود نہ ہو بلکہ اس کا مخالف عمل ہو تو پھر ان کی مخالفت بالعکس کرنا لازم ہوگا ۔ مگر اس متجدد صاحب کی یہ بات دو وجوہ سے غلط ہے۔، (1) ایک وجہ تو اس کی یہ ہے کہ داڑھی کے متعلق مروی عمومی آحادیث میں اس علت کاکوئی ذکرموجود نہیں ہے۔ صرف سیدناابوامامہ کی مسندِ احمداوربیہقی والی روایت میں یہ بات آئی ہےمگر وہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں قاسم سیدنا ابوامامہ سے ، ابن زبر قاسم سے ، اور زیدبن یحیی ابن زبر سے روایت کرنے میں متفرد ہے ، اور عدمِ ثقاہت اس کا اس کے علاوہ ہے  (2) دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ ،، علت ،، ہمیشہ اس لیے نہیں ہوتی  کہ اس کے معدوم ہونے سے حکم معدوم ہوجائے یا پھر اس کے بدل جانے سے شرعی حکم میں تبدیلی آجائے بلکہ وہ بعض اوقات  اس لیے آتی ہے کہ کسی فعل کی زیادہ شناعت وقباحت ظاہر کرے۔ یعنی اگر یہ علت بھی موجود ہے  تب تو یہ فعل بہت ہی شنیع اورقبیح ہے ۔ اوراگر یہ علت موجود نہیں ہے تب بھی یہ فعل درست نہیں ہے ۔ اس بات کی توضیح کےلیے صرف ایک دومثالیں اس مبحث میں احباب نوٹ فرمالیں   کیونکہ یہ مسئلہ طویل الذیل ہے تفصیل پھر کبھی ان شاءاللہ ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ،، ذالک بانھم کانوا یکفرون بآیات اللہ ویقتلون النبیین بغیرالحق ( البقرہ 61 ) اب اس آیت کا یہ مطلب کوئی اغبی الاغبیاء شخص ہی لے گا کہ ،، بغیرالحق ،، والی علت اگر بدل جائے   تو پھر اس کی وجہ سے اس مسئلے کاحکم بھی بدل جائے گا ۔کیونکہ انبیاء کرام کبھی ایسے افعال کرتے ہی نہیں   جن کی بنا پر ان کا قتل لوگوں کے لئے جائز ہو جائے ۔ یہاں اس علت کا مقصد فعلِ مذکور کی شناعت وقباحت کو ظاہر کرنا ہے ۔ اب ایک دوسری مثال نوٹ فرمالیں کہ ایک جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ،، ولاتاکلوا الربا اضعافا مضاعفة( آل عمران 130) یہاں یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر سود چند درچند نہ ہو تو اس کا کھاناجائز ہوگا۔ بڑا ظلم کرتا ہے جو شخص اس آیت کا یہ مطلب لیتا ہے   اس لیے کہ یہاں بھی اس فعل کی شناعت وقباحت کااظہار مقصود ہے۔ اسی طرح زیادتِ حفاظت اور کثرتِ افادت کے اظہار کےلیے بھی علل وقیود آتے ہیں   جن سے مقصود یہ ہوتاہے کہ اگر فلان علت موجود ہو تو یہ فعل بہت ہی احسن اورزیادہ مفید ہے   ورنہ اس کے بغیر بھی یہ فعل حسن اور فایدہ سے خالی نہیں ہےلہذا اسے کرنا چاہئے ۔ایسے مقامات کے درمیان فرق نہ جاننے کی وجہ سے متجدد قسم کے لوگ ہمارے معتقدات اور مسلمات پرحملہ آور ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح کا ایک اور حملہ ایک دوسرے مغرب پرست متجدد کا احباب دیکھ لیں۔ قران میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ،، یاایھاالنبی قل لازاوجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین علیھن من جلابیبھن ، ذالک ادنی ان یعرفن فلایؤذین وکان اللہ غفورارحیما ( احزاب 59) اب اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر ، ایذا ، کاخطرہ ہو تو پھر پردہ بہت ہی  احسن اور زیادہ مفید ہے ، اور اگر ، ایذا ، نہ ہو تب بھی وہ حسن اور فایدہ سے خالی نہیں ہےلہذا اسے ہرحال میں کرنا چاہئے ۔مگر جنابِ متجدد لکھتے ہیں کہ ،، ان الفاظ سے بھی واضح ہے اورحکم کا سیاق وسباق بھی بتارہا ہے   کہ یہ عورتوں کے لیے پردے کا کوئی حکم نہیں تھا  جیسا کہ عام طور پرلوگوں نے سمجھا ہے ۔ بلکہ مسلمان عورتوں کے لیے الگ شناخت قائم کردینے کی ایک وقتی تدبیر تھی جو اوباشوں اورتہمت تراشنے والوں کے شر سے ان کو محفوظ رکھنے کےلیے اختیار کی گئی۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ وہ اندیشے کی جگہوں پرجائیں تو دوسری عورتوں سے الگ پہچانی جائیں ۔ اوران کے بہانے سے ان پرتہمت لگانے کے موقع پیداکرکے کوئی آذیت نہ دے ۔ روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمان عورتیں جب رات کی تاریکی میں یاصبح منہ اندھیرے رفعِ حاجت کےلیے نکلتی تھی تو منافقین کے اشرار ان کے درپے آزار ہوتے اور اس پرگرفت کی جاتی توفورا کہہ دیتے تھے  کہ ہم نے فلان اورفلان کی لونڈی سمجھ کر ان سے فلان بات معلوم کرنی چاہی تھی ( البیان ج4 ص 163) ہمارے نزدیک جناب کی یہ تحقیق بالکل مصنوعی بنائی گئی ہے کیونکہ محققین تصریح کرتے ہیں کہ ،، کان ناس من فساق اھلِ المدینة یخرجون باللیل حین یختلط الظلام الی طرق المدینة یتعرضون للنساء وکانت مساکن اھل المدینة ضیقة فاذاکان اللیل خرج النساء الی الطرق یقضین حاجتھن فکان اولئک الفساق یتبعون ذلک منھن فاذا راوا امراءة علیہا جلباب قالو ھذہ حرة کفوا عنھا واذا راوا المراءة لیس علیھا جلباب قالوا ھذہ امة فوثبوا الیھا، ( ابن کثیر ج5 ص 209) اس عبارت سے ہماری بات کی تصدیق الحمدللہ ہوگئی ہے ۔اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ یہ فاسق لوگ تھے ، نہ ،، تہمت ،، لگانے کا مسئلہ ادھردرپیش تھا اور نہ ،، بات معلوم ،، کرنے کا کوئی افسانہ تھا جیساکہ جناب نے اسے رنگ دیا ہے ، پھر جو لوگ اس ،، علت ،، کاحکم  بھی دیگر متبدل علل کی طرح سمجھتے ہیں وہ کیاان لونڈیوں کوان فساق کے سامنے اسی طرح بے کس وبے بس چھوڑدینا چاہتے ہیں کہ وہ ان سے حاجتیں پوری کریں ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…