مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت

Published On January 8, 2025
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

بنیاد پرست

قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ” اللہ نے انہیں اپنی طرف بلند کر دیا “وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کے درجات بلند کر دیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلندی کا یہ فائدہ ہوا کہ صلیب پر وہ زندہ رہے اور یہود کو شبہ لگ گیا کہ وہ وفات پا چکے ہیں اور وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے ، عیسی  پھر کسی اور علاقہ میں چلے گئے وہاں تقریبا نصف صدی حیات رہے پھر طبعی وفات پائی اور انکی قبر کشمیر میں ہے، اب ایک نیا مسیح پیدا ہونا تھا جو کہ ایک مخبوط الحواس بھینگے ، میٹرک فیل، دجال و کذاب مرزا قادیانی کی شکل میں پیدا ہوا ہے۔ یہی عقیدہ تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ غامدی کا ہے، یہ بھی ان قادیانیوں کی طرح وفات عیسی کا عقیدہ رکھتے ہیں، لیکن کہانی تھوڑی سی مختلف بیان کرتے ہیں۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کو صلیب کے قریب ہی موت دی گئی، پھر انہیں کہیں دفن کرنے کے بجائے ان کا جسم آسمان پر اٹھا لیا گیا اور اب وہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔

غامدی اور قادیانی دونوں آیت اذ قال الله بعیسی اني متوفيك ورافعك الى. [ آل عمران ) ۳۵ پارہ ۳) میں متوفیک” سے “موت” مراد لیتے ہیں اور اس لفظ کو اپنے عقیدہ وفات مسیح کے لیے نص قطعی قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب اس آیت کی تشریح کرنے والی متواتر صحیح احادیث اور جید صحابہ کے اقوال کو تسلیم نہیں کرتے، جبکہ قادیانی انہی احادیث سے مسیح علیہ السلام کے دوبارہ پیدا ہونے کا عقیدہ گھڑ کر مرزا قادیانی کو مسیح قرار دیتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک مرزا قادیانی نے تو محض عیسی علیہ السلام کی سیٹ خالی دیکھ کر خود کو مسیح کہلوانے کے لیے قرآن سے عیسیٰ کی وفات کا عقیدہ اور اس کی قبر کے قصے گھڑے، اس کے کذب، چال بازیوں، بیہودہ تاویلات پر سینکڑوں دفعہ بات چیت ہو چکی ہے، آج ہم غامدی صاحب کی اس عقیدہ کے متعلق عبارات پر تبصرہ ان کی پسند کے مطابق صرف قرآن سے پیش کریں گے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں :۔

سید نامسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ میں قرآن مجید سے سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کی روح قبض کی گئی اور اس کے فورا بعد ان کا جسد مبارک اٹھا لیا گیا تھا تا کہ یہود اس کی بے حرمتی نہ کریں۔ یہ میرے نزدیک ان کے منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا تھا، چنانچہ قرآن مجید نے اسے اس طرح بیان کیاہے۔ انی متوفيك ورافعك الى . اس میں ، دیکھ لیجیے تو فی وفات کے لئے اور رفع اس کے بعد رفع جسم کے لیے بالکل تصریح ہے ۔

 ماہنامہ اشراق، اپریل ۱۹۹۵ ص: ۴۵)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:۔

حضرت مسیح کو یہود نے صلیب پر چڑھانے کا فیصلہ کر لیا تو فرشتوں نے ان کی روح ہی قبض نہیں کی ان کا جسم بھی اٹھا کر لے گئے کہ مبادا یہ سر پھری قوم اس کی توہین کرے۔ [ اشراق جولائی ۱۹۹۴ ص: ۳۲]

القرآن يفسر بعضه بعضا:۔

قرآن کی آیات کی تفسیر کے چند اصول ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی آیت کی تفسیر کے لیے سب سے پہلے قرآن میں دیکھا جائے گا کہ آیا کوئی دوسری آیت اس کے مطلب کی وضاحت کر رہی ہے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، پھر اقوال صحابہ سے مدد لی جائے گی۔ اس عقیدہ رفعِ نزول وحیاتِ عیسیٰ کی تائید میں احادیث تو اتنی موجود ہیں کہ اتنی ارکان اسلام کے متعلق بھی نہیں ، بیس سے زائد جید صحابہ روایت کر رہے ہیں۔ اسی طرح صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، آئمہ اور تمام بڑے علمائے امت کے ان پر اتفاق و اجماع کیوجہ سے ان کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ غامدی صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح اور ان کے شاگردوں کی تفاسیر کو قبول کرنے کے لیے تو تیار نہیں ،ہم ان کی پسند کے مطابق ان کے اس عقیدہ کی بنیا د سورة آل عمران کی اس آیت کی القرآن يفسر بعضه بعضا ( قرآن کے کچھ حصوں کی قرآن کی دوسرے حصے تفسیر کرتے ہیں) کے تحت قرآن سے ہی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا قرآن کی دوسری آیات ان کی ( غامدی صاحب ) اس آیت کی تشریح کی تائید کرتی ہیں؟ کیا واقعی احادیث اور صحابہ و علمائے امت کا اجماع قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے؟

مسئلہ حیات ِعیسی اور قرآن :۔

غامدی صاحب نے جو آیت پیش کی ہے اس سے پہلے آنے والی آیت میں ہے” و مکرو او مكر الله والله خبر المکرین ”  اور ان کافروں نے ( عیسی علیہ السلام) کے خلاف خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ اس تدبیر کی اور پھر اگلی آیت جس کے ایک لفظ کی بنیاد پر غامدی صاحب ساری امت سے عقیدہ میں اختلاف کیے بیٹھے ہیں، کی وضاحت

سورة النساء کی آیت ۱۵۷  یوں کرتی ہے:۔

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبِّة لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يقيناً، بل رفعه الله إِلَيْهِ وَكَانَ اللهُ عَزِيزاً حَكِيماً . (۱۵۷ – ۱۵۸ ، ۲]

ترجمہ: اور یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسی کوقتل کیا تھا، نہ انہیں سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہو گیا تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں ، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ وہ عیسی کو قتل نہیں کر پائے۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھالیا تھا۔ اور اللہ بڑا صاحب اقتدار، بڑا حکمت والا ہے۔ ( آسان ترجمہ القرآن ، ۱۵۸،۱۵۷

آیت سے دوباتیں بالکل واضح ہیں: پہلی بات آیت میں “وما قتلو . ” وما صلبو” و ما قتلو یقینا” کے الفاظ سے ان کے قتل/ موت کی مطلق نفی کی گئی ہے۔ دوسری قتل سے بچانے کا انتظام یہ کیا گیا کہ بل رفعہ اللہ الیہ، بلکہ اللہ نے اٹھا لیا اس کو اپنی طرف۔ یہاں بل ” کے بعد بصیغہ ماضی رفعہ کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے الیہ ” یعنی اپنی طرف اٹھالیا تھا۔ ” و كان الله عزيزا حكيما

لفظ “توفی“ کی قرآن سے وضاحت:۔

منکر ِحدیث ، قادیانی اور غامدی آیت إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى آلَ عمران : ۵۵، پارہ:۳) میں متوفيك ” سے مطلق موت مراد لیتے ہیں ، جبکہ اگر یہاں اس سے موت مراد لے لی جائے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کافروں نے جو عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی تھی وہ اس میں کامیاب ہو گئے تھے ۔۔ !! جبکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ بہتر تد بیر اللہ کی ہی رہی ۔ لفظ “توفی “ کی وضاحت کے لیے بھی ہم قرآن سے رجوع کرتے ہیں۔

ا لله توفى الأنفسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمتَ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى ” [ الزمر: ۴۲، پ : ۲۴)

ترجمہ: اللہ تمام روحوں کو انکی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی ، انکو بھی انکی نیند کی حالت میں، پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کر لیا ، انہیں اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چھوڑ دیتا ہے۔

اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ توفی ” بمعنی موت کے نہیں ہیں، بلکہ “توفی” موت کے علاوہ کوئی شے ہے جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہو جاتی ہے تو کبھی نیند کے ساتھ۔ اور “حین موتھا” کی قید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ “تو فی موت کے وقت بھی ہوتی ہے عین موت نہیں ہوتی ۔  جس طرح اللہ تعالی لوگوں کو رات کو توفی دیتا ہے اور صبح اٹھ کر لوگ ایک بار پھر زندہ ہو کر اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں ، اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام “توفی“ کے بعد بھی حیات ہیں اور قیامت سے قبل حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا، جس کی وضاحت احادیث میں موجود ہے۔

” وهو الذي يتوفاكم بالليل “الخ [ الانعام: ۲۰ ، پاره: ۷]

ترجمہ: وہ ہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روح قبض کر لیتا ہے۔“

اس مقام پر بھی توفی ” موت کے بجائے نیند کے موقع پر استعمال کیا گیا۔ اگر توفی سے مرادصرف موت ہی ہوتی تو یہاں اسکو استعمال نہ کیا جاتا۔

 ” حتى يتوفاهن الموت” [ النساء : ۱۵، پ : ۲۴

ترجمہ: یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کر لے جائے۔

اگر توفی کا معنی بھی موت تھا تو آگے لفظ “موت لانے کی کیا ضرورت تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ توفی ” کے ساتھ موت اور اس کے لوازم کا ذکر ہوگا ۔ اس جگہ “توفی ” سے مراد موت لی جائے گئی ۔ جیسے ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ يَتَوَفَّاكُم مِّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وَكُلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ [السجدة: ا ب : ۲۱]

ترجمہ: تو کہہ قبض کر لیتا ہے تم کو فرشتہ موت کا جو تم پر مقرر ہے پھر اپنے رب کی طرف پھر جاؤ گے۔”۔

اس مقام پر ملک الموت کے قرینہ سے توفی” سے مراد موت کی جائے گی۔

اسی طرح قرآن میں دوسرے انبیاء علیہم السلام کی موت کا جہاں کہیں تذکرہ ہے، وہاں موت کا لفظ استعمال فرمایا گیا۔

 نبی علیہ السلام کے لیے : انک میت وانھم میتون ، افان مت فھم الخلدون

سلیمان عليہ السلام کے لئے : فلما قضينا عليه الموت  مادل علی موتہ

جبکہ عیسی علیہ السلام کے لیے رفع اور توفی استعمال کیا ہے۔ اور توفی ، جیسا کہ اوپر دی گئی آیات کی مثالوں سے ظاہر ہے جسمانی موت کے لیے وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں اس کے ساتھ موت کے لوازمات کا بھی ذکر کیا جائے، جبکہ غامدی صاحب کی پیش کی گئی آیت میں اس لفظ کے بعدموت کی کسی علامت کا تذکرہ کرنے کے بجائے قرآن کی دوسری آیت کی ہی تائید میں “رافعك ” کا ذکر ہے، یہی بات ” فلما توفيتنى كنت انت الرقيب عليهم ” ۔ میں بھی ہے۔ اس ساری تفصیل سے یہ واضح ہے کہ عیسی علیہ السلام کے متعلق غامدی صاحب کے عقیدہ کو قرآن بھی غلط قرار دے رہا ہے۔

غامدی صاحب محض ایک ذو معنی لفظ کی بنیاد پر عیسی علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ گھڑتے ہیں، پھر جسم او پر اٹھائے جانے کا واضح قرآنی اشارہ نظر آتا ہے تو جسم کو لاش قرار دے کر تاویل کرتے ہیں کہ جی سر پھری قوم کہیں اس کی تو ہین نہ کرے اور یہ منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا بھی ہے ۔ ۔ شاید ان کے علم میں نہیں کہ اسی سر پھری قوم نے زکریا ، یحییٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے دوسرے ہزاروں نبی کس بے دردی سے شہید کیے تھے، حیرت ہے اس سے منصب نبوت یا شان الہی میں کوئی فرق نہیں آیا؟ آسان اور سادہ سی بات تھی کہ یہود نے مل کر عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی ، اللہ نے اس کو ناکام بناتے ہوئے عیسی کو زندہ سلامت اپنی طرف اٹھا لیا ۔ غامدی صاحب نے اپنی من مانی تشریح کے ذریعے اس واضح اور متفقہ عقیدہ کی بھی عجیب کھچڑی بنا کر رکھ دی۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…