کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

Published On April 28, 2025
دین کیا ہے؟

دین کیا ہے؟

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

فکرغامدی پر تنقید کا معیار

فکرغامدی پر تنقید کا معیار

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

مظلومینِ غزہ اور حسن الیاس کا بے رحم تبصرہ

مظلومینِ غزہ اور حسن الیاس کا بے رحم تبصرہ

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی صاحب کا علمی غبن اور غنودگی

غامدی صاحب کا علمی غبن اور غنودگی

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

سید اسد مشہدی ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے مصادر فکر کے تجزیے پر مبنی ہے۔ جب ہم نے اسی تناظر میں ایک علمی گفتگو ریکارڈ کروائی تو مختلف حلقوں سے ردعمل موصول ہوئے۔ ان میں ایک ردعمل جناب حسن الیاس صاحب کا تھا، جنہوں نے ہماری گفتگو کو اس کے اصل...

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی وڈیو نہیں بنائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث و سنت کی حجیت کے متعلق متعین سوالات
اپنی تازہ وڈیوز میں غامدی صاحب ریٹاریک کا بھرپور استعمال کرتے ہیں اور ایسے دعوے کرتے ہیں کہ میزان میں 1200 احادیث انھوں نے نقل کی ہیں۔ یقیناً کی ہوں گی، لیکن اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ حدیث تو منکرینِ حدیث کے رسالے طلوعِ اسلام کے سرورق پر بھی نقل ہوئی ہوتی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کتنی حدیثیں نقل کی ہیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ کے نظامِ فکر میں حدیث کا مقام کیا ہے؟ پچھلی بحث سے معلوم ہوگیا ہے کہ آپ نے حدیث اور سنت میں فرق کرکے اور پھر حدیث میں بیان کردہ امور میں حکمِ شریعت اور بیانِ فطرت میں فرق کرکے حدیث و سنت کے مقام اور حجیت کو کیسے تبدیل کردیا ہے۔ بہرحال جن دوستوں کی پھر بھی تشفی نہیں ہورہی، ان کے اصرار پر چند سوالات یہاں پیشِ خدمت ہیں۔ جب تک ان سوالات پر بحث نہ ہو، محض ادبی بلاغت کے نمونے پیش کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، سواے اپنے معتقدین سے خراجِ عقیدت وصول کرنے کے۔
۔1. کیا ’عملی متواتر سنت‘ کے علاوہ غامدی صاحب قرآن سے باہر رسول اللہ ﷺکی تشریعی حیثیت مانتے ہیں، خواہ آپ کا فیصلہ بطور خبر واحد روایت ہوا ہو؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ’اگر کسی کے نزدیک وہ قابل اطمینان ذریعے سے پہنچا ہے تو اس کےلیے وہ واجب الاتباع ہے‘ کیونکہ سوال کسی اور کے بارے میں نہیں، بلکہ آپ کے موقف کے بارے میں ہورہا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، سوال یہ ہے کہ کیا حدیث جب بطورِ خبرِ واحد روایت ہوئی تو وہ دین کا ماخذ ہے یا نہیں؟
۔2. کیا غامدی صاحب اب بھی حدیث کو اسی طرح مستقل بالذات شرعی احکام کا ماخذ سمجھتے ہیں، جیسے رجم کے متعلق مضامین ( مشمولہ: میزان حصہ اول) میں ان کا موقف تھا؟ مزید وضاحت سے، سوال یہ ہے کہ خواہ حدیث میں مذکور احکام کا قرآن کے کسی حکم کے ساتھ تعلق معلوم نہ ہو یا واضح نہ ہو، پھر بھی وہ حکم غامدی صاحب کے نزدیک واجب الاتباع ہوتا ہے، یا ان کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ پہلے حدیث کا قرآن میں ماخذ متعین کیا جائے، پھر دیکھا جائے کہ حدیث اس قرآنی آیت کی تبیین کی حدود کے اندر ہے یا اس سے متجاوز، اور جب تک یہ دونوں امور طے نہ ہوں، ان کے نزدیک حدیث میں مذکور حکم واجب الاتباع نہیں ہوتا؟
۔3. غامدی صاحب سنت کےلیے تواتر کی شرط کیوں رکھتے ہیں؟ سنت غیر متواتر کیوں نہیں ہوسکتی؟ کیوں یہ ضروری ہے کہ دین سارے کا سارا (قرآن اور آپ کی مزعومہ سنت) تواتر سے ہی نقل ہو؟ خبرِ واحد سے دین کے نقل ہونے سے اس کی دینی حیثیت کیوں قابلِ قبول نہیں رہتی؟
۔4. کیا حدیث میں بیان شدہ احکام کے بغیر دین مکمل تھا؟ کیا ان احکام کے اخذ کےلیے عقل و فطرت کی رہنمائی کافی تھی؟
۔5. جب آپ کہتے ہیں کہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ بیان ہوا ہے، تو اس اسوہ حسنہ کو سنت ماننے سے آپ گریز کیوں کرتے ہیں؟
۔6. حدیث میں بیان شدہ بعض احکام کو جب آپ ’شریعت کے بجاے بیان ِفطرت‘ کہہ دیتے ہیں، تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا آپ کے نزدیک یہ احکام شریعت کا حصہ نہیں ہیں؟ مولانا اصلاحی تو ’بدیہیاتِ فطرت‘کو شریعت کا ’واضح تر حصہ‘ قرار دیتے ہیں۔ آپ کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟
۔7. کیا سنداً منقطع حدیث، یا ایسی حدیث جس کے کسی راوی پر جرح کی گئی ہو، آپ کے نزدیک قابل حجت ہے؟ مثلا جماع فی الدبر کی ممانعت کے متعلق روایات کو بطور حدیث ماخذ دین مانا جاسکتا ہے یا نہیں؟ کیا اس فعل کو روکنے کےلیے انھیں غیر فطری قرار دینا آپ کے نزدیک بہتر ہے یا ضعیف حدیث سے استدلال اس مقصد کےلیے بہتر ہے، جبکہ وہ ضعیف حدیث شریعت کے عمومی اصولوں سے ہم آہنگ بھی ہو؟ بہ الفاظ دیگر، اگر حدیث سنداً صحیح ہو لیکن وہ آپ کے نزدیک قرآن سے متعارض ہو، جیسے رجم کے متعلق کئی روایات کے متعلق آپ کا موقف ہے، اور دوسری جانب حدیث سنداً ضعیف ہو لیکن وہ شریعت کے عمومی اصولوں سے ہم آہنگ ہو، تو ان دو صورتوں میں آپ کیا کرتے ہیں؟
ھذا ما عندي، والعلم عند اللہ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

غامدی صاحب کا علمی غبن اور غنودگی

غامدی صاحب کا علمی غبن اور غنودگی

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE