تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

Published On May 15, 2025

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

غامدی صاحب کے داماد نے یکسر جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نہایت بے دردی کے ساتھ، اور ہاتھ نچا نچا کر جس طرح فلسطین کے مسئلے پر ہفوات پیش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی، اس پر گرفت کریں، تو غامدی صاحب کے مریدانِ باصفا اخلاقیات کی دُہائی دینا شروع کردیتے ہیں۔ ان کے مصنوعی اخلاقیات پر تو بات کرتے ہی رہیں گے، لیکن ذرا ان کے استاذِ گرامی کی اخلاقیات پر بھی کچھ نظر ڈالنی ضروری ہے تاکہ معلوم ہو کہ درخت کے نیچے تاش کے پتّے کھیلنے سے محرومی کی بات سے تحت الشعور تک رسائی کے درمیان میں ان کے مریدانِ باصفا کیا کچھ نظرانداز کررہے ہیں۔
یہاں پیش کیے جانے والے سارے اقتباسات غامدی صاحب کی کتاب برہان سے لیے گئے ہیں۔اس کے مقدمے میں غامدی صاحب فرماتے ہیں :
”اس مجموعۂ مضامین کی تحریریں زیادہ تر معاصر مذہبی فکر کی تنقید میں ہیں۔ اِسی رعایت سے میں نے اِن کے لیے ’’برہان‘‘ کا نام تجویز کیا ہے۔ اِن کا اسلوب ، ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کے لیے گراں باری خاطر کا باعث ہو۔ یہ سب اگر ذوق خامہ فرسائی کی تسکین کے لیے ہوتا تو میں اِن کی اشاعت کے لیے کبھی آمادہ نہ ہوتا ، لیکن جس احساس ذمہ داری کی بنا پر یہ لکھی گئی تھیں، اُس کا تقاضا ہے کہ یہ قارئین تک پہنچتی رہیں۔“
یہاں میں جو اقتباسات برہان سے پیش کررہا ہوں، ان کے متعلق بھی مان جائیے کہ وہ اسی احساسِ ذمہ داری کے تحت پیش کیے جارہے ہیں۔
غامدی صاحب نے 1980ء کی دہائی کی ابتدا میں رجم کی سزا کے متعلق مولانا اصلاحی کی راے کی توضیح اور دفاع کا بیڑا اٹھایا اور اس راے پر تنقید کرنے والوں کو جواب دینے کی ٹھان لی۔ ان کی اس کاوش سے چند نمونے پیشِ خدمت ہیں۔ فرماتے ہیں:
”قحط علم کے اِس زمانے میں ، ہو سکتا ہے کہ لوگ اُن کی بے معنی سخن سازیوں کو تحقیق کا شاہ کار قرار دیں ، لیکن اُنھیں سوچنا چاہیے کہ علم و استدلال کی عدالت میں وہ اپنی اِس کاوش کو دیانت دارانہ ثابت کرنے میں بھی کیا کامیاب ہو سکیں گے؟“
ممتاز عالمِ دین مولانا احمد سعید کاظمی کے متعلق غامدی صاحب کے الفاظ نوٹ ملاحظہ کیجیے:
”یہ اعتراض صرف اِس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ مولانا غالباً ائمۂ نحو کے اُن اختلافات سے واقف نہیں ہیں جو ماہیت جنس اور عہد ذہنی کی اِن اصطلاحات کے بارے میں اُن کے مابین ہوئے ہیں۔ “
مزید بھی دیکھ لیجیے۔ کاظمی صاحب کے متعلق غامدی صاحب کی اخلاقیات کا مظاہرہ۔ فرماتے ہیں:
”مولانا کا یہ اعتراض اُن کے مبلغ علم کے لحاظ سے درست ہے۔“
یہ بھی کافی نہیں، تو غامدی صاحب کا ایک اور اخلاقی تبصرہ دیکھ لیجیے:
”مولانا موصوف کی خدمت میں معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ وہ اگر تقسیم و تخییر کے فرق سے بھی واقف نہیں تھے تو اُن کے لیے اِس طرح کے فنی مباحث پر قلم اٹھانے سے گریز ہی بہتر تھی۔“
ایک اور صاحبِ علم کے متعلق غامدی صاحب کا اخلاقی تبصرہ ملاحظہ کیجیے:
”یہ کیا کوئی معمولی بات ہے کہ جس مسئلے کی تحقیق میں شاطبی نے اپنی کتاب ’’الموافقات‘‘کے دسیوں صفحے سیاہ کیے ہیں، ہمارے محقق نے کمال بے نیازی کے ساتھ محض ایک سطر (اور وہ بھی حاشیہ میں) لکھ کر اُسے ہمیشہ کے لیے حل کر دیا ہے۔ اِس زمانے کے لوگ اگر اب بھی علم و تحقیق کی دنیا میں قحط الرجال کا ماتم کرنے پر مصر ہیں تو ہمارے پاس اِس کے سوا کیا چارہ ہے کہ ہم اُن کی عقلوں کا ماتم کریں۔۔۔ِس بحث و تمحیص کے دوران میں لغت و نحو کے فن میں جو حیرت انگیز دریافتیں موصوف نے فرمائی ہیں او ر جن میں سے ایک کا ذکر اوپر ہم نے بطور نمونہ کیا بھی ہے، وہ تو حق یہ ہے کہ صدیوں تک اہل فن کو سربہ گریباں رکھیں گی۔ ارباب ذوق کو اِس طرح کے معارف کسی اور سے کہاں میسر آئیں گے۔“

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…