اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

Published On November 25, 2024
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

محمد خزیمہ الظاہری

غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔

لیکن یہاں بات پوری نہیں ہوئی ہے. اصل مسئلہ یہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں حدیث کو ماننے کے دو واضح معیار ہیں. پہلا یہ کہ حدیث کو دین میں بنیادی حیثیت حاصل ہے, اگرچہ یہ حیثیت قرآن کے بعد دوسرے نمبر پر ہی کیوں نہ مانی جائے. لیکن بہر صورت حدیث دین ہے. دوسرا یہ کہ حدیث دین ہونے کے ساتھ ساتھ دین کی تشریح و وضاحت میں بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے. لہذا دین کا پیراڈائم وہی ہے جو احادیث کے مطابق طے پایا ہو۔

ان دو چیزوں میں اہل سنت کے جمیع طبقات میں کوئی اختلاف نہیں ہے. رہی بات ظنی اور قطعی کی, تواتر و آحاد کی. وغیرہ وغیرہ. کہ ان میں کئی بار محدثین و فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے تو ان سب اختلافات کے باوجود نہ تو کسی کے نزدیک حدیث دین سے باہر ہے اور نہ ہی دین کی تشریح میں بنیادی حیثیت سے فارغ ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ حدیث کے منکر نہ کہا جائے تو حدیث کی اس حیثیت کے بہر حال منکر ہی ہیں جو امت کے ہاں حدیث کو ہمیشہ حاصل رہی ہے. اور یہی انکار حدیث کا چور دروازہ ہے کہ حدیث کو اسکی حیثیت سے گرا دیں تو انکار کئے بغیر ہی راستہ بحال ہے۔

اب میزان میں غامدی صاحب کا طرز عمل کیا ہے ؟
شروع میں ہی قرآن و حدیث کا ایک ذیلی عنوان ہے جس میں ان احادیث کا جواب دیا گیا ہے جو علمائے اصول اور فقہاء نے اس طور پر پیش کی ہیں کہ یہ احادیث قرآن سے اضافی حکم پر مشتمل ہیں لہذا حدیث بھی دین کے احکام میں مستقل ہوئی. غامدی صاحب نے ان احادیث کو تکلّف کے ساتھ اس مفہوم پر ڈالا ہے کہ یہ بیانِ فطرت وغیرہ ہے. شرعی حکم قرآن ہی سے ثابت ہے اور بس. یہ ہے احادیث کو دین میں اصل اور مستقل حیثیت دینے سے جان چھڑانے کا رویہ اور یہ اسی طرح ہے جیسے قیاس کے منکرین قیاسی احکام کو زبردستی تکلف کے ساتھ نصوص سے ہی مستنبط کرتے ہیں جو بہت بار زبردستی کا استنباط ہوتا ہے. اسی طرح دین کا ہر مستقل حکم قرآن سے نکالنے میں تکلفانہ استدلال غامدی صاحب یا انکے حلقے کو کرنے پڑتے ہیں. تاکہ حدیث کی استقلالی حیثیت سے جان چھوٹ جائے۔

دوسری اہم چیز کنفیوژن ہے. غامدی صاحب حدیث سے متعلق لمبی چوڑی گفتگوئیں کرنے کے باوجود اس معاملے میں نہایت کنفیوژ ہیں. کیونکہ دین کو قرآن اور اعمال کے تواتر سے مکمل بھی کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف بار بار یہ بھی کہتے ہیں کہ : حدیث سے متعلق میرا موقف وہی ہے جو محدثین کا ہے. چنانچہ ایک طرف یہ کلیہ رکھا ہوا ہے کہ دین قرآن و سنت کا نام ہے. نہ کہ قرآن و حدیث کا. اور دوسری طرف یہ بہانہ بنایا ہوا ہے کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں. تا کہ انکار حدیث کی تہمت بھی نہ آئے اور حدیث کا صفایا بھی ہو جائے. ہو سکتا ہے بہت سے لوگوں کو یہ کنفیوژن نہ لگے لیکن انکے حدیث سے متعلق مضطرب اور متزلزل بیانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ انکا سارا حلقہ حدیث کی تشریح یا حیثیت نہیں, حدیث کی حجیت پر ہی کنفیوژ ہے۔

اسکے بعد یہ سوال اکثر ہوتا رہتا ہے کہ آپ آخر حتمی طور پر غامدی صاحب کے نظریہ حدیث سے متعلق کیا کہتے ہیں ؟
ہم نے جہاں تک دیکھا پڑھا ہے. غلام احمد پرویز بھی اس مفہوم میں پکے ٹھکے منکر حدیث نہیں ہیں کہ وہ حدیث کو مانتے ہی نہیں. بلکہ مقام حدیث میں کم و بیش اسی طرح کی باتیں ہیں جیسی جدت پسند مفکرین کرتے رہتے ہیں کہ ہم حدیث کو مانتے ہیں. بس یہ اور وہ کی قید لگاتے ہیں ساتھ. وغیرہ وغیرہ. اس لئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ حدیث کے منکر نہیں ہیں بلکہ حدیث کی اس حیثیت کے منکر ہیں جو اسے امت میں حاصل رہی ہے. لیکن اس فرق کے باوجود انکی گمراہی کسی بھی ایسے آدمی سے کم نہیں ہے جو انکار حدیث کا کھلم کھلا اقراری ہو. اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی کتب میں ہزار احادیث لکھیں یا چار ہزار. اسکے باوجود دین کی تشریح میں خود کو کسی ضابطے کے پابند نہیں سمجھتے. ماضی کے علماء و فقہاء کے اجماعات سے بڑھ کر کوئی قابل اطمینان ضابطہ نہیں ہے اور یہ اسکے بھی پابند نہیں بنے. اس لئے انکی گمراہی کی بنیاد “دین کی جدید تعبیر” ہے. جس میں مذہبی فکر کی اسطرح ری کنسٹرکشن ہوئی ہے کہ مواقف پوری تراث سے معکوس ہو گئے ہیں اور ایک نیا دین برآمد ہو گیا ہے جسکا تعلق حدیث سے بھی ثانوی ہے اور دین کی پوری تراث سے بھی ثانوی ہے۔

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…