ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
ا
حناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق
شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔” اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی چار قسمیں ذکر کرتے ہیں: فرض ؛ واجب؛ سنت؛ اور نفل۔ پھر فرض کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فالفرض اسم المقدر شرعاً، لا يحتمل الزيادة والنقصان؛ وهو مقطوع به، لكونه ثابتاً بدليل موجب للعلم قطعاً من الكتاب، أو السنة المتواترة، أو الإجماع. “
پس فرض نام اس کے لیے جسے شریعت نے یوں مقرر کیا ہو کہ اس میں اضافہ یا کمی کی گنجائش نہ ہو ؛ اور یہ قطعی ہوتا ہے کیونکہ یہ کتاب،سنت متواترہ یا اجماع کی ایسی دلیل سے ثابت ہوتا ہے جو علم قطعی کو واجب کرتا ہے۔
چنانچہ امام سرخسی ایک جانب فرض اور سنت کو مشروعات کی دو الگ قسموں کے طور پر ذکر کرتے اور دوسری جانب بتاتے ہیں کہ فرض جن مآخذ سے معلوم ہوتا ہے ان کا قطعی ہونا ضروری ہے اور دو یہ تین ہیں : کتاب سنت متواترہ اور اجماع۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام سرخسی سنت کی اصطلاح دو الگ مفاہیم میں استعمال کر رہے ہیں اور دونوں مفاہیم کو ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
فرض، واجب اور نقل کے مقابل میں سنت
فرض اور واجب کی بحث کے بعد وہ مشروعات کی تیسری قسم، یعنی سنت، کی طرف آتے ہیں اور اس کی یہ تعریف کرتے ہیں:
وأما السنة في الطريقة المسلوكة في الدين.
جہاں تک سنت کا تعلق ہے، تو یہ دین پر چلنے کا طریقہ ہے۔
والمراد به شرعاً ما سله رسول الله صلى الله عليه وسلم والصحابة بعده عندنا
ہمارے نزدیک شریعت میں اس سے مراد وہ طریقہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے بعد صحابہ نے جاری کیا۔
اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ معلوم امر ہے کہ احناف کے نزدیک مشرکین عرب سے جزیہ وصول نہیں کیا جاسکتا تھا، نہ ہی ان کی عورتوں سے نکاح جائز تھا اور نہ ہی ان کا ذبیحہ کھانے کی اجازت تھی۔ دوسری طرف احناف کے نزدیک اہل کتاب سے جزیہ بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔ان کی عورتوں سے نکاح بھی جائز ہے اور ان کا ذبحہ کھانے کی بھی اجازت ہے۔ مجوس ایک لحاظ سے مشرکین سے مشابہ ہیں اور ایک لحاظ سے اہل کتاب سے۔ امام محمد بن الحسن الشیبانی (م: ۸۰۵/۱۸۹ ) نے موطا میں ان کے متعلق یہ ‘سنت’ ذکر کی ہے :
المئة أن تؤخذ الجزية من المجوس من غير أن تُنْكَحَ نِسَاؤُهُمْ، وَلَا تُوَكَّل زيَائِعُهُمْ، وَكَذَلِكَ بَلَعَنَا عَنِ اللَّهُمَّ صَلَهُ عَلَّى وَلَّمْ . “
سنت یہ ہے کہ مجوس سے جزیہ تو لیا جائے، لیکن ان کی عورتوں سے نکاح نہ کیا جائے، نہ ہی ان کا ذبیحہ کھایا جائے۔ یہی بات ہمیں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہنچی ہے۔
واضح رہے کہ یہ امور رسول اللہ صلی علیم سے ثابت ہیں۔ چنانچہ ہجر کے مجوس کے متعلق حدیث میں آیا ہے:
فَمَنْ أَسْلَمَ قَبلَ مِنْهُ، وَمَنْ لَا ضُرِبَتْ عَلَيْهِ الجزية في أنْ لَا تُؤْكَلَ لَهُ ذَبِيحَةٌ وَلَا تُنْكَحَ لهَ امرة “
ان میں جو مسلمان ہوا، آپ نے اس کا اسلام قبول کیا، اور جو مسلمان نہیں ہوا، اس پر جزیہ عائد کیا، مگر ان کا ذبیحہ کھانے کی اجازت نہیں دی، نہ ہی ان کی کسی عورت سے نکاح کی اجازت دی۔
یہی طرز عمل بعد میں خلفائے راشدین کا بھی رہا۔ اسی کو امام محمد نے یہاں سنت سے تعبیر کیا ہے۔ جو لوگ احناف کے تصور سنت سے غامدی صاحب کے تصور سنت کے لیے استدلال کر رہے ہیں، وہ اس تعریف کو لیے پھرتے ہیں، حالانکہ یہ تعریف اس سنت کی نہیں جو کتاب کے مقابل میں ذکر کی جاتی ہے (کتاب وسنت)، بلکہ یہ وہ سنت ہے جو فرض، واجب اور نفل کے مقابل میں ذکر کی جاتی ہے اور من جملہ مشروعات میں سے ہے۔
امام سرخسی شرعی حجتوں کے بارے میں ، یعنی شریعت کے ماخذ کے بارے میں ، ایک اور فصل قائم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اعلم بأن الأصول في الحج الشرعية ثلاثة الكتاب والسنة، والإجماع، والأصل الرابع وهو القياس هو المعنى المستنبط من هذه الأصول الثلاثة.
جان لو کہ شرعی حجتوں میں بنیادیں تین ہیں ۔ کتاب ، سنت اور اجماع : اور چوتھی بنیاد، جو کہ قیاس ہے ، وہ معنی ہے جو ان تین بنیادوں سے مستقبط کیا جائے۔
اب یہاں سنت جب بطور ماخذ قانون ذکر کی جارہی ہے اور کتاب، اجماع اور قیاس کے ساتھ ذکر کی جارہی ہے تو آیئے دیکھتے ہیں کہ وہ اس کی تعریف کیسے بیان کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ شرعی حجتیں دو قسم کی ہیں: ایک وہ جن سے قطعی علم حاصل ہوتا ہے اور دوسری وہ جن سے ظنی علم حاصل ہوتا ہے۔ پہلی قسم میں وہ چار چیزیں ذکر کرتے ہیں۔
کتاب: وہ سنت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے براہ راست سنی گئی (یعنی صحابہ کے لیے ؛ وہ سنت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تواتر کے ساتھ نقل ہوئی (صحابہ کے بعد کی نسلوں کے لیے )؛ اور اجماع ۔ ” اس کے بعد پہلے وہ کتاب پر بحث کرتے ہیں پھر سنت کی طرف آتے ہیں اور یہاں خبر متواتر، خبر مشہور اور خبر واحد کی تفصیلات ذکر کرتے ہیں جو کہ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں اس دعوے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ غامدی صاحب سنت اور حدیث میں جس فرق کے قائل ہیں ، احناف کا بھی وہی موقف ہے؟
غامدی صاحب کے تصور سنت و حدیث میں اصل مسئلہ
اس بحث سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب سنت سے وہ چیز مراد لیتے ہیں جسے فقہائے کرام التطريقة المملوكة في الدين” سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن ایک تو وہ اسے “مشروعات ، (یعنی فرض، واجب اور نفل) کے بجائے اسلامی قانون کے ماخذ میں رکھ دیتے ہیں ؛ اور دوسرے، وہ اس سنت کے لیے تواتر کی شرط لگاتے ہیں۔ یوں وہ نہ صرف سنت کی ساری بحث کو تلپٹ کر کے رکھ دیتے ہیں، بلکہ سنت مشہورہ اور اس سنت کو جو خبر واحد سے ثابت ہو رہی ہے، الطريقة المسلوكة في الدين سے بھی نکال دیتے ہیں! یہ موقف ظاہر ہے کہ فقہائے کرام کے موقف سے مختلف ہے۔
جب فقہائے کرام سنت کو اسلامی قانون کے ماخذ کے طور پر ذکر کرتے ہیں اور اسے کتاب کے مقابل ذکر کرتے ہیں (کتاب و سنت)، تو وہاں فقہائے کرام کی مراد الطريقة المسلوكة في الدین نہیں ہے، بلکہ ان کی مراد شرعی حجت ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اولین مخاطبین کے لیے براہ راست سماع سے اور دوسروں کو خبر سے ملی۔ یہ خبر متواتر بھی ہو سکتی ہے، مشہور بھی اور خبر واحد بھی۔ اس خبر کو حدیث کہتے ہیں۔ اس مفہوم میں کتاب و سنت کا اور قرآن و حدیث کا مفہوم ایک ہی ہوتا ہے۔
پھر فقہائے کرام سنت مشہورہ کو بھی الطريقة المسلوكة في الدین میں شمار کرتے ہیں اور خبر واحد سے ثابت عمل کو بھی، اگر چہ اس آخر الذکر کو وہ ظنی اور پہلی دو قسموں کو ( معمولی فرق کے ساتھ) قطعی قرار دیتے ہیں لیکن الطريقة المسلوكة في الدين میں بہرحال تینوں کو شمار کرتے ہیں۔
غامدی صاحب نے یہ ساری بحث خلط ملط کر دی ہے اور اب ان کے متبعین سنت کو پہلے مفہوم میں لیتے ہیں اور ناقدین کے ذہن میں سنت کا دوسرا مفہوم ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اس ساری بحث میں اصل مسئلہ یہی ہے کہ انھوں نے صدیوں سے رائج سنت کی اصطلاح کا مفہوم اور مقام تبدیل کر لیا ہے۔ اس کے بعد ان کے اس اصرار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ وہ سنت کی حجیت کے منکر نہیں ہیں؟