تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

Published On February 18, 2025
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

شعیب احمد

غامدی تصورِ جہاد؟

شهادت علی الناس:۔

شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود اقوام عالم پر شہادت علی الناس کا یہ منصب اعزازی اور خصوصی طور سے دیا گیا ہے۔ اور روم و فارس کا جہاد اسی شہادت کا مظہر تھا۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:۔

(صحابہ کی ) دعوت شہادت علی الناس” ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ وہی دعوت ہے جس سے دین کی حجت پوری دنیا پر قائم ہوگئی ہے . جب آپ نے اپنی قوم پر اتمامِ  حجت کر دیا تو جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے آپ کی صحبت اٹھائی ، وہ خدا کی زمین پر حق کا ایسا نمونہ بنے کہ سارے اخلاقی تصورات ان کے وجود میں بالکل مجسم ہو گئے یہاں تک کہ خود پروردگار عالم نے انھیں خیر امت قرار دیا…. اس جماعت کی یہی حیثیت تھی جس کی بنا پر قرآن نے انھیں مخاطب کر کے اعلان کیا ہے کہ تم ایک ” امت وسط ” یعنی  درمیان کی جماعت ہو جس کے ایک طرف اللہ کا رسول اور دوسری طرف الناس یعنی دنیا کی سب اقوام ہیں لہذا جو شہادت رسول نے تم پر دی ہے ، اب وہی شہادت باقی دنیا پر تم دو گے …… صحابہ کرام کو اللہ تعالی نے اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت ورسالت کے لیے منتخب کرتا ہے…… چنانچہ جس طرح رسولوں کو اپنی قوم پر اتمام حجت کے بعد یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اسے عذاب کے حوالے کر دیں، اسی طرح صحابہ کو بھی ، جب وہ رسول کی شہادت کے پس منظر میں اور خیر امت بن کر اٹھے تو بحیثیت جماعت یہ حق حاصل ہوا کہ وہ روم و ایران کی سرحدوں  پر کھڑے ہو کر انھیں اسلام کی دعوت دیں اور اسے قبول نہ کرنے کی صورت میں جہاد و قتال کے ذریعے سے زیر دست بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیں …. نبوت جس طرح نبی پر ختم ہو گئی، اسی طرح شہادت کا یہ منصب اور اس کے ساتھ منکرین حق  سے قتال اور ان پر جزیہ عائد کرنے کا حق بھی ان نفوس قدسیہ پر ختم ہوا۔ ہم مسلمانوں کو یہ دعوت پیغمبر کے ان صحابہ ہی سے ملی ہے اور ان کی اس شہادت ہی کے حوالے سے ہم اسے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ ہماری حیثیت ان کے تابعین اور تبع تابعین کی ہے۔ (میزان ۲۰۳)

اور عمار خان صاحب اس بارے میں یوں گویا ہیں :۔

شہادت علی الناس کے منصب کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ عالم کا پروردگار کسی خاص گروہ سے اپنی وفاداری اور اطاعت کا عہد و پیمان لے کر اسے دین و شریعت کی نعمت سے نواز تا آزمائش اور ابتلاء کے مختلف مراحل سے گزار کر اس کے تزکیہ وتربیت کا اہتمام کرتا اور اس امتحان میں کامیابی پر اسے دنیوی حکومت واقتدار سے بہر یاب کر دیتا ہے۔ یہ گروہ اپنے اجتماعی وجود کے لحاظ سے یوں سراپا حق اور مجسم عدل و انصاف ہوتا اور اپنی دعوت اور کردار کے ذریعے سے حق کی اس طرح عملی شہادت بن جاتا ہے کہ اللہ تعالی اسے دنیا میں کفر و طغیان کا رویہ اپنانے والی قوموں کو سزا دینے کا اختیار دے دیتا ہے۔ شہادت کے منصب پر فائز گروہ کے لیے اس اختیار اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی فتوحات کی حیثیت اللہ کے انعام کی ہوتی ہے اور اسے یہ حق دے دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کی سرزمین میں اس کی میسر کردہ نعمتوں اور وسائل کو اپنے تصرف میں لے آئے جبکہ مفتوح و مغلوب قوم کے لیے یہی عمل اللہ کی طرف سے سزا اور انتظام قرار پاتا ہے ۔ ( جہاد :۱۷۳)

 

ان لوگوں کی تحریرات کو از اول تا آخر بغور دیکھیں تو منصب شہادت کے اس اختراعی اور من گھڑت مطلب کے پیچھے ایک بھی صریح دلیل نہیں ملے گی ۔ پھر اس بات کی بھی دوٹوک دلیل کوئی نہیں کہ شہادت علی الناس کا منصب صرف صحابہ کے ساتھ خاص ہے۔ اور اگر اس کو مان لیں تو اصل بات یہ ہے کہ صحابہ کا روم و فارس کے خلاف جہاد اسی شہادت کے حق کا حصہ تھا اس کی سوائے غامدی صاحب کے ذوق وجدانی کے اور کوئی دلیل نہیں ۔ اور اگر صحابہ کا قتال اس کے تحت ہو تو پھر بھی باقی امت سے جہاد برائے غلبہ دین کی نفی کا اس سے کوئی لزوم نہیں۔

پھر خود غامدی صاحب کی عبارت میں تعارض ہے ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ صحابہ روم و فارس کی سرحدوں پر اسی منصب شہادت کے تحت کھڑے ہوئے تھے اور دوسری طرف یہ بھی لکھتے ہیں:۔

ہم (یعنی آج کل کے مسلمانوں کو یہ دعوت پیغمبر کے ان صحابہ ہی سے ملی ہے اور ان کی اس شہادت کے حوالے سے ہم اسے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ ہماری حیثیت ان کے تابعین اور تبع تابعین کی ہے۔” جب ہم سمیت بعد کی امت کی منصب شہادت میں حیثیت صحابہ کے تابعین کی ہے تو اس کے با وجود صحابہ کے علاوہ باقی امت کو جہاد کے حکم سے مستثنیٰ کرنے کا نہ جانے کیا جواز رہ جاتا ہے۔

اسی طرح ان کی عبارات اور فلسفے میں ایک اور الجھاؤ یہ ہے کہ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ جو شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ پر قائم کی وہی شہادت صحابہ روم و فارس پر قائم کریں گے حالانکہ صحابہ پر قائم ہونے والی شہادت کی ان کے بقول عملی شکل تزکیے اور مجسم اخلاق بن جانے کی صورت میں تھی، جبکہ روم و فارس کا تو صحابہ نے ایسا کوئی تزکیہ نہیں کیا اور نہ طویل عرصے تک ان میں رہ کر دین سے روشناس کروایا ہے۔ پھر وہی شہادت کیسے ہوگئی ؟

الغرض خود انہی کے بتائے ہوئے مطلب کے مطابق آپ ﷺ کی شہادت اور ہے اور روم و فارس پر صحابہ کی شہادت اس سے بالکل مختلف بلکہ متضاد ہے۔ اس کے باوجود پتہ نہیں غامدی صاحب کے پاس کون سا ایسا آلہ و پیمانہ ہے جس سے دونوں متضاد شہادتوں کو بالکل برابر کر کے یوں فرماتے ہیں کہ جو شہادت رسول نے تم پر دی ہے، اب وہی شہادت باقی دنیا پر تم دو گے پھر اگلا طرفہ تماشا یہ کہ صحا بہ والی شہادت باقی امت دے گی لیکن اس سے جہاد خارج کر دیا ۔ یہ کیسی نرالی منطق ہے کہ ایک ہی شهادت تین جگہوں پر دی جارہی ہے اور تینوں جگہ اس کی حقیقت مکمل طور سے بدل رہی ہے، اس کے باوجود بھی وہ ایک ہی شہادت ہے۔ فیا للعجب

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…