تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)

Published On May 5, 2025
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

حسان بن علی

اور یہ واضح رہے کہ انکارِ حجیتِ حدیث کے حوالے سے غلام احمد پرویز، اسی طرح عبداللہ چکڑالوی کا درجہ ایک سا ہے کہ وہ اسے کسی طور دین میں حجت ماننے کے لیے تیار نہیں (غلام احمد پرویز حديث کو صرف سیرت کی باب میں قبول کرتے ہیں، دیکھیے کتاب مقام حدیث) اور اس سے کم تر درجہ اسلم جيراجپوری صاحب کا کہ وہ حدیث کو قرآن اور متواتر عمل (جسے چند مزید شرائط کے ساتھ غامدی صاحب سنت کا عنوان دیتے ہیں) کے دائرے میں (اور یہ دائرہ بھی وہ خود ہی تشکیل دیتے ہیں) قابل احتجاج سمجھتے ہیں لیکن حديث کی استقلالى حجيت کے منکر. یہی حال ہمارے غامدی صاحب کا ہے. اس سے کم تر مولانا امین احسن اصلاحی كا کہ وہ حدیث کی استقلالى حجیت کے قول کی طرف مائل ليكن اس معاملے میں ان کے منہج کا سقم ترتیب الأدلہ يعنى دلائل کی ترتیب کا ہے مثلا وه صرف مخصوص صورت میں ہی حدیث کے ذریعے قرآن کی تخصیص کے قائل ہیں (اور اپنے اس اصول کو انہوں نے مبادى تدبر حدیث میں خود ذکر کیا ہے) جیسے کہ وہ حدیث رجم کے ذریعے قرآن کی تخصیص کے قائل نہیں. اسى طرح وه سنت اور حدیث کو (باعتبار مصدر تشريع) الگ سے بیان کرتے ہیں*، جیسا کہ ان سے پہلے غلام قادیانی اور اس تقسيم کے درپردہ جو اشکال کار فرما ہے وہ عہد اول میں جمع حدیث (بمقابل قرآن) کے حوالے سے قلت التفات یا قلت اہتمام کا وقوع بیان کیا جاتا ہے!
* (بعض حضرات اس ضمن میں اس امر کو بنیاد بناتے ہیں کہ امام مالک بھی عمل اہل مدینہ کو اخبار احاد پر ترجیح دیتے تھے یا احناف کے نزدیک تواتر عملی کو اخبار احاد پر ترجیح دینے کا عمل تو اس پر یہ عرض ہے کہ یہ عمل تو عند تعارض الأدلة ہے نہ کہ اصل سے متعلق کیونکہ عند تعارض الأدلة اسی کو ترجیح حاصل ہے جو ثبوت کے لحاظ سے أقوی ہو. چنانچہ تواتر عملی کو خبر واحد پر ترجیح دی جائے گی، اسی طرح تواتر سندی کو خبر واحد پر. لیکن اگر ان کے درمیان تعارض نہیں تو جس طرح تواتر عملی سے کسى چیز کا مشروع ہونا يا سنت ہونا درست ٹھہرتا ہے، اسی طرح تواتر سندی اور خبر واحد سے بھی)
اسى طرح مولانا اصلاحى تواتر سندی کے قائل نہیں کہ ان کے مطابق خبر کا متواتر ہونا یہ ایسا اسم ہے جس کا کوئی مسمی نہیں چنانچہ وه سب احادیث کو احاد کی کیٹگری میں داخل کر کے سب کو مظنون ٹھہراتے ہیں، یہی حال مولانا حمید الدین فراہی کا ہے اور ان سے پہلے غلام قادیانی کا.
حاصل کلام یہ کہ غامدی صاحب کا اس معاملے میں موقف مستخفين حدیث کا ہے اور خاص اس معاملے وہ اسی جگہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں جس جگہ ان کے اسلاف کھڑے تھے. یعنی غامدی صاحب جب یہ بات کہتے ہیں کہ ان کے اور اسلاف کے موقف میں سر مو کوئی فرق نہیں تو جان لینا چاہیے کہ وہ کن اسلاف کی بات کر رہے ہیں. ذرا اسلم جيراجپوری صاحب کی یہ درجہ ذیل سطریں ملاحظہ کیجئے جو تشابهت قلوبهم کی مصداق ہیں
” یہ خیال اس وقت دل میں بمنزلہ تخم کے پڑ گیا جو برابر پرورش پاتا رہا. 1904 میں لاہور میں مجھ کو معلوم ہوا کہ مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی حدیث کے قائل نہیں ہیں. ان سے جا کر ملا. تین گھنٹے تک گفتگو رہی. جس کو انہوں نے اسی بحث میں ضائع کر دیا کہ رسول کا لفظ کلام مجید میں جہاں جہاں آیا ہے اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ایک مخصوص انسان. میں نے دیکھا کہ وہ حقیقت آشنا نہیں ہے انہوں نے سنت متواترہ یعنی عمل بالقرآن کا بھی انکار کر دیا تھا. اس وجہ سے سخت مشکل میں گرفتار تھے اور سوائے تاویلات ركیكہ کے عمل کے لیے کوئی راستہ نہیں پاتے تھے. پھر دوبارہ کبھی ان کی ملاقات کا موقع نہیں ملا.
جب قرآنی حقائق اللہ نے میرے دل پر کھولے اس وقت حدیث کی اصلی حیثیت بالکل واضح ہو گئی کہ وہ دینی تاریخ ہے خود اس کو دین سمجھنا صحیح نہیں اگر دین ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی طرح اس کو بھی لکھوا کر امت کو دیے جاتے. دین کے لیے قرآن کافی ہے جو کامل کتاب ہے اور جس میں دین مکمل کر دیا گیا ہے” (مقالات اسلم، صفحہ 35، 36)

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…