حسان بن علی
جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں
“یہ چیز حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے” (ميزان)
جیسے
سود دینے والے کی مذمت میں اگرچہ حدیث صراحتا بیان ہوئی ليكن غامدی صاحب اپنے اسی اصول کی روشنی میں اس کی تاویل کرتے ہیں
چنانچہ وہ لکھتے ہیں
“سود کا مسئلہ قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر زیر بحث آیا ہے، مگر ہر جگہ دیکھ لیجئے اس نے ایک لفظ بھی سود دینے والوں کی مذمت میں نہیں کہا، بلکہ انہیں مظلوم قرار دیا اور تندرست ہوں تو اصل زر کی واپسی کے لیے مہلت دینے کی تلقین فرمائی ہے. جو لوگ اسے ممنوع قرار دیتے ہیں ان کے استدلال کی بنیاد قرآن کی کوئی آیت یا اس کا اقتضا یا اشارہ نہیں ہے، بلکہ ایک حدیث ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور کھلانے والے دونوں پر لعنت کی ہے” (مقامات)
اس کی بجائے مولانا حمید الدین فراہی حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل، اسی طرح مولانا امین حسن اصلاحی (لیکن اس بابت دونوں حضرات کے منہج کی خرابی ترتیب الأدلة يا كيفية التعامل مع الأدلة المعتارضة کے باب سے ہے، جسے آگے چل کے واضح کریں گے) درجہ ذیل میں مولانا فراہی کا كلام ملاحظہ کیجیے، جس میں وہ احادیث احکام کی حجیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں
فاعلم هداك الله ان احكام رسول الله صلى الله عليه وسلم من حيث نسبتها بالكتاب الى ثلاثه اقسام موجوده وقسمين مفروضين
“القسم الاول ما صرح فيه الرسول بانه حكم بالكتاب ولم يكن الحكم بظاهر الكتاب ونصه فقد علمنا انه كان يستنبط منه وقد امره الله ان يبين للناس ما نزل اليهم كما مر.
والقسم الثاني من الاحكام ما لم يصرح فيه بذلك ولكن وجه استنباطه من الكتاب ظاهر على العارف بدلالات الكلام فالحكم بكونه مأخوذ من الكتاب اقرب الى الصواب فان الله قد أمره بالحكم بما اراه الله من نص الكتاب او او غامضه
والقسم الثالث ما لا نجد في الكتاب ولكن الزياده به محتملة فجعلنا السنة فيه اصلا مستقلا فان الله قد امرنا عموما بالطاعه الرسول وامر الرسول بالحكم بما يريه الله سواء كان بالكتاب او بالنور والحكمة التي ملأ الله بها قلبه
والقسم الرابع وهو ما يزيد على الكتاب من الاحكام التي لا يحتملها الكتاب وكذلك القسم الخامس الذي هو مخالف ما في الكتاب فهذان جسمان مفروضان لا وجود لهما في الحقيقة فان فيهما نسخا خفيا او جليا للكتاب وفيهما قد تخاصم العلماء
ترجمہ: پس جان لو، اللہ تمہیں ہدایت دے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (حديث) احکام کی نسبت قرآن سے تین حقیقی اقسام کو شامل ہے اور (اس کے علاوہ) باقی دو اقسام فرضى ہیں.
پہلی قسم جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سے صراحت کر دیں کہ انہوں نے یہ حکم کتاب سے دیا ہے (چاہے) حکم ظاہر کتاب اور اس کی ظاہر نص سے نہ (معلوم ) ہو (کیونکہ) ہم جان چکے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے حکم کا استنباط کرتے تھےاور جیسا کہ گزر چکا کہ بيشک اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چیز کے لیے مامور کیا کہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر ديں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے.
دوسری قسم ان احکام کی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود سے صراحت نہ کریں (کہ یہ حکم کتاب سے مستنبط ہے) لیکن اس حکم کا قرآن سے مستنبط ہونا کلام کی دلالتوں سے معرفت رکھنے والے پر عیاں ہو، تو اس حکم کو بھی قرآن سے مأخوذ قرار دینے کا قول صواب کے قریب تر ہے.
تيسرى قسم جس میں ہم (اس) حکم کو قرآن میں نہ پائیں لیکن قرآن پر اس حكم کے اضافے کا احتمال موجود ہو تو ہم نے اس میں سنت (حديث احكام) کو مستقل اصل قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں عموم کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ ہم رسول کی اطاعت کریں اور رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ بتلائیں اس میں سے جو کہ اللہ انہیں سجھائے، چاہے وہ حكم کتاب سے ہو، چاہے نور سے یا اس حکمت سے جس سے اللہ تعالی نے ان کے سینے کو بھر دیا تھا.
چوتھی قسم ان (احادیث) احکام کی ہے جو کہ قرآن پر ایسا اضافہ ہو جس کا احتمال قرآن اپنے اندر نہ رکھتا ہو اور اسى طرح پانچویں قسم اس حکم کی ہے جو کہ قرآن کے مخالف ہو تو آخری دونوں قسمیں فرضی ہیں جن کا حقيقت میں کوئی وجود نہیں کیونکہ ان کے ذریعے قرآن میں نسخ خفی یا نسخ جلی كا وقوع لازم آتا ہے” (اِحكام الاصول باَحكام الرسول عليه السلام)
چنانچہ تیسری قسم کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ مولانا فراہی بخلاف غامدی صاحب حدیث کی استقلالی حجت کے قائل ہیں یعنی ان کے نزدیک حدیث کا یہ مقام ہے کہ وہ کسی ایسے حکم کے لیے ماخذ بن سکے جو قرآن میں متعین نہ کیا جا سکے.
لیکن کسی دوسری دلیل کے ساتھ تعارض کی صورت میں ان کے منہج میں سقم پایا جاتا ہے جیسے چوتھی قسم کے تحت مولانا فراہی حدیث کے ذریعے قرآن کی تخصیص کے قائل نہیں. مثلا حدیث رجم (شادی شدہ کے لیے رجم كى سزا) کے ذریعے قرآن (کے عموم، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں) کی تخصیص اور یہاں ان کے نزدیک تخصيص اصلا نسخ ہے.
ویسے تو احناف کا بھی یہی اختیار ہے کہ حدیث رجم (متاخر ہونے کی صورت میں) قرآن کے حکم پر اضافہ ہے جو کہ نسخ شمار ہوگی لیکن احناف بذریعہ حدیث (مشہور) قرآن کے نسخ کے قائل ہیں. لہذا وہ حدیث رجم کو اپنے ظاہر پہ رکھتے ہوئے، قرآن کی آیت کو شادی شدہ کے لیے منسوخ مان کر، اجماعی فہم کو متاثر نہیں ہونے دیتے.
یہی حال شافعیہ كا ہے کہ وہ اگرچہ حدیث کے ذریعے قرآن کے نسخ کے قائل نہیں لیکن زیر نظر مثال ان کے اصول کی روشنی میں حدیث کے ذریعے قرآن کی تخصیص کی ہے نہ کہ نسخ کی اور وه بذریعہ حدیث قرآن کی تخصیص کے قائل ہیں ( اور عام کی دلالت ان کے نزدیک ظنی ہے) لہذا نتیجتا وہ اسی جگہ کھڑے ہیں جس جگہ احناف.
الغرض مولانا فراہی کے نزدیک اگر حدیث کا تعارض قرآن کے عام کے ساتھ ہو تو ایسی صورت میں وہ دونوں نصوص کو ظاہر پر رکھتے ہوئے نہ تخصیص کے قائل ہیں اور نہ ہی نسخ کے (کہ ایک کو مقدم مان لیا جائے اور دوسرے کو مؤخر) بلکہ ایسی صورت وہ حدیث کو خلاف ظاہر تاویل دینے کا مسلک اختیار کرتے ہیں، چاہے اس تاویل سے اجماعی فہم کی خلاف ورزی کیوں نہ لازم آئے.
دوسرى طرف دونوں بڑے مکاتبِ اصول کے ہاں حدیث كو خلاف ظاہر تاویل دینے کی حاجت نہیں رہتی. يعنى دونوں مکاتبِ اصول، قرآن اور سنت کے مابين تعلق کی مختلف تشخیص (امام انور شاہ کشمیری کے مطابق احناف کے ہاں قرآن اور سنت کا رشتہ ظاہر الروایہ اور النوادر کی طرح جبکہ شافعیہ کے ہاں قرآن اور سنت کا رشتہ متن اور شرح کی طرح) کے باوجود نص کا متوارث فہم متاثر نہیں ہونے دیتے.
اس کے بجائے مولانا فراہی نے ان دونوں بڑے مکاتب کے اصولوں کے مابين تلفیق اختيار کی کہ ایک طرف وہ اس زير نظر مثال کو نسخ میں شمار کرتے ہیں یعنی احناف کے اصول کو لیتے ہیں اور دوسری طرف بذریعہ حدیث قرآن کے نسخ کے قائل نہیں یعنی یہاں شافعیہ کے اصول کو لیتے ہیں اور اگر وہ خود مجتہد فی الاصول ہیں تو بھی ایسا اصول مقرر کرنا جس سے خرق اجماع لازم آئے تو وه اصول کی کمزوری پرازخود دليل ہے.