عبد اللہ معتصم
احادیث مبارکہ محدثین کی اصطلاح میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں۔ احادیث مبارکہ کی گراں قدر امانت حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ، صحابہ کرام سے تابعین، تبع تابعین اور پھر ہر دور میں ایک جماعت سے سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچی ہے۔ غامدی صاحب نے دوسرے عقائد واعمال کی طرح احادیث پر بھی اپنا زہریلا پنجہ مار دیا۔ لکھتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے ،ان کے بارے میں دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب علم انہیں ماننے سے انکار نہیں کر سکتا۔ ایک یہ کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ واشاعت کے لیے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بناء پر یہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوا۔“ (میزان ص68)
انکار حدیث کے لیے بطور مقدمہ کے غامدی صاحب نے جو دو دعوے پیش کیے وہ بالکل بے بنیاد اور مبنی برجہل ہیں۔ پہلی بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی حفاظت واشاعت کا اہتمام نہیں کیا، غلط اور بے اصل ہے۔ اس لیے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو احادیث سننے، ان کو حفظ کرنے اور ان کی کتابت وتحریر کرنے کی تاکید فرمائی اور ایسا کرنے والوں کے حق میں دعا فرمائی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ اور کتابت دونوں ذرائع سے کام لیتے ہوئے احادیث کی حفاظت اور ان کی تبلیغ واشاعت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ”نضّر الله امرأ سمع منا حدیثاً فحفظہ حتیٰ یبلغہ غیرہ․“ (ترمذی، رقم:2656) (کہ الله اس آدمی کو تروتازہ اور شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سن کر یاد کر لی اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا۔)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز جو خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس میں فرمایا: ”ویبلغ الشاہد الغائب․“ (بخاری:154) (کہ جو یہاں حاضر ہے وہ میری باتیں غائبوں تک پہنچائے۔) صحابہ کرام نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ یاد کر لیا۔ اسے لکھ کر محفوظ کیا۔ اس پر عمل کیا اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا۔ مرزاقادیانی بھی احادیث مبارکہ کا انکار کرتا ہے۔ لیکن وہ ایک قدم بڑھ کر سخت بے ادبی کے الفاظ استعمال کرکے احادیث مبارکہ کی توہین بھی کرتا ہے۔ چناں چہ لکھتا ہے: ”میرے اس دعویٰ کی بنیاد حدیث نہیں، بلکہ قرآن مجید اور وحی ہے، جو میرے پرنازل ہوئی۔ ہاں! تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔“(اعجاز احمدی، ص30، خزائن ج19 ص140)
جاوید غامدی نے بھی احادیث کو ناقابل استدلال قرار دیا اور دین سے خارج قرار دیا اور مرزاقادیانی نے بھی ناقابل اعتبار گردانا۔ فرق صرف یہ کہ غامدی صاحب نے تمہید باندھ کر اور الفاظ کو گھما پھرا کر احادیث کی حجیت سے انکار کیا ہے اور مرزاقادیانی نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کر کے خوب دھڑلے سے انکار کیا۔