ڈاکٹر محمد مشتاق احمد احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...
شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”
ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟
مدثر فاروقی کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...
غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...
دینِ اسلام ہی واحد حق ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...
۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...
کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...
ڈاکٹر زاہد مغل
ایک ویڈیو میں جناب غامدی صاحب حالیہ گفتگو میں زیر بحث موضوع پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین یا شریعت خاموش ہونے سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ شریعت نے اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم ہی نہیں دیا بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ شارع نے یہاں کوئی معین حکم نہیں دیا ہوتا جیسے مثلا حدود کے معاملے میں کہا کہ چور کے ہاتھ کاٹو وغیرہ۔ چنانچہ جب شریعت نے اس طرح معین حکم نہ دیا ہو تو شرع کے قواعد نیز علت پر مبنی قیاس وغیرہ کے ذریعے ایک معین حکم معلوم کیا جاتا ہے اور یہ اجتہاد ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے انسانی اعضا کی پیوندکاری کا معین حکم شارع نے بیان نہیں کیا لیکن علما قواعد شریعت وغیرہ کے ذریعے اس کا حکم معلوم کرتے ہیں۔ لہذا یہ کہا جائے گا کہ انسانی اعضا کی پیوندکاری کے معاملے میں دین خاموش ہے، یعنی اس کا معین حکم خدا نے مقرر نہیں کیا، البتہ قواعد و دینی نظائر وغیرہ کے ذریعے مجتہد اس کا حکم معلوم کرے گا۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ان قواعد سے معلوم کردہ حکم بھی شریعت کی گویائی ہی ہے تو یہ کہنا بھی درست ہے، لیکن غامدی صاحب اپنے خاص مفہوم والی خاموشی کے لفظ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔
غامدی صاحب کے اس جواب سے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اسے نزاع لفظی قسم کی چیز سمجھتے ہیں کیونکہ خود انہوں نے مان لیا ہے کہ اجتہاد کے ذریعے معلوم شدہ حکم دین و شریعت بمعنی حکم اللہ ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ غامدی صاحب کے مدافعین کو یہاں ٹھنڈا سانس لینا چاھئے جو اس بابت ان کے موقف کی اپنی جانب سے توجیہات کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ غامدی صاحب نے “خاموشی” (مسکوت عنہ) کے مفہوم کو جس طرح بیان کیا ہے، اصول فقہ کے ماہرین اس سے بہتر طریقے پر اسے “منطوق” اور “مفھوم” کی اصطلاحات میں بیان کرتے ہیں (منطوق اور مفہوم کی تعریفات اور اقسام اصول فقہ کی کتب میں ملاحظہ کرنا چاھئے)۔ کلام کا “منطوق” معین حکم بیان کرنے سے وسیع اور جامع معنی کا حامل ہے (حنفی اصطلاح میں یہ “عبارت النص” سے قریب تصور ہے)۔ “مسکوت عنہ” کلام کے صرف منطوق کے لحاظ سے ہوتا ہے نہ کہ مفھوم کے، اور کلام میں یہ دونوں (منطوق و مفہوم) متکلم کے پیش نظر ھوتے ہیں۔ خطاب کے منطوق اور مفھوم دونوں کی نسبت متکلم ہی کی جانب ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ ایک کی شارع کی جانب اور ایک کی مجتھد کی جانب۔ اگر کوئی شخص ایسا شرعی حکم بیان کرے جس کی نسبت شارع کے خطاب کی جانب نہ ہو تو اسے بدعت کہتے ہیں نہ کہ اجتہاد۔ چنانچہ غامدی صاحب کا اس بات پر زور دینا کہ ایک خدا کا حکم ہے اور دوسرا مجتہد کا فہم، یہ کوئی بامعنی بات نہیں کیونکہ کل دین توقیف ہے۔ خدا کی جانب سے معین حکم مقرر کرنے کی کیفیت کبھی معین فرد و کیفیت کا حکم بیان کرنا ہوتا ہے اور کبھی عمومی قاعدے کی صورت جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس بھی شخص پر یہ لفظ درست ہو اس کا یہ حکم ہے۔ جیسے جب شارع نے کہا کہ “چور کے ہاتھ کاٹو” تو اس عمومی بیان کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس پر چور کا اطلاق ہے اس کا یہ معین حکم ہے۔ چنانچہ شریعت کے قواعد دراصل اسی کیفیت پر معین افراد و کیفیات کا معین حکم بیان کررہے ہوتے ہیں اور مجتہد بس انہیں ظاہر کرتا ہے۔ لہذا ان کی اختیار کردہ تعبیر اس پہلو سے بھی اولی نہیں۔
اگر وہ یہ کہیں کہ مجتہد کے اخذ کردہ حکم میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے نیز دیگر مجتہدین کا اس کے اجتہاد سے اختلاف جائز ہوتا ہے، تو یہ فرق بھی مفید مطلب نہیں اس لئے کہ جسے وہ شریعت کا معین حکم کہتے ہیں اس کے فہم میں بھی مجتہدین کا اختلاف ہوتا ہے نیز یہاں بھی ہر اختلاف موجب کفر و تضلیل نہیں۔ خود غامدی صاحب کو بھی ایسے متعدد “معین احکام” میں اختلاف ہے نیز کتاب “میزان” میں ان کے درج کردہ معین احکام میں سے ہر ایک سے اختلاف کرنے والوں کی وہ تضلیل و تکفیر بھی نہیں کرتے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس...
ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟
مدثر فاروقی کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات...
دینِ اسلام ہی واحد حق ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق...