غامدی صاحب: تصوف اور غارحرا کی روایات

Published On September 24, 2024
فتنہ غامدیت 14

فتنہ غامدیت 14

مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی آیت [وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ…الآیۃ] کا مصداق بھی (نعوذباللہ) عہدرسالت کے ان مسلمانوں (صحابہ) کو قرار دے دیا ہے جنہوں نے ان کے زعم فاسد میں زناکاری کے اڈے کھول رکھے تھے،...

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

سید اسد مشہدی ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے مصادر فکر کے تجزیے پر مبنی ہے۔ جب ہم نے اسی تناظر میں ایک علمی گفتگو ریکارڈ کروائی تو مختلف حلقوں سے ردعمل موصول ہوئے۔ ان میں ایک ردعمل جناب حسن الیاس صاحب کا تھا، جنہوں نے ہماری گفتگو کو اس کے اصل...

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

ڈاکٹر خضر یسین

کیا غار حرا اور اس سے وابستہ واقعات پر مروی احادیث واقعتا صوفیاء کی وضع کردہ ہیں اور محض افسانہ ہیں جیسا کہ غامدی صاحب کا مؤقف ہے؟
کیا واقعی قرآن مجید کی سورہ والنجم کی آیات ان احادیث کی تردید کرتی ہیں جو صحیح بخاری میں “کیف بدء الوحی” کے عنوان کے تحت درج کی گئیں ہیں؟
بالفرض ایسا ہی ہے جیسے محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں تو ان کے مقدمے کی سچائی چند ضروری سوالات کا تسلی بخش جواب چاہتی ہے۔
آپ کا یہ مقدمہ کہ غار حرا اور اس سے وابستہ مروی واقعات مثلاََ اعلان نبوت سے قبل آپ علیہ السلام کا اس غار میں خلوت گزیں رہنا افسانہ ہے؟ کس علمی دیانت کے پیش نظر یہ دعوی فرما رہے ہیں؟ آپ علیہ سلام کے غارحرا تشریف لے جانے کو ایک انسانی واقعہ کے طور پر تاریخ و روایات کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔ کیا تاریخ کی نفی، استدلال سے کی جا سکتی ہے؟ جی بالکل کی جا سکتی ہے مگر استدلال کے مقدمات کا تاریخی ہونا ضروری ہے۔ آپ کا یہ خیال ہے، استدلال نہیں ہے۔
یاد رہے کہ تاریخی واقعات کا صدق و کذب کسی ایسے استدلال سے ممکن نہیں ہوتا جس میں آپ کا اپنا ان پٹ  ایک فریق کا ہو۔ تاریخ کو تاریخ کی نظر سے ہی دیکھنا ہوگا نا کہ اپنے مزعومہ آئیڈیالوجیز کی بنیاد پر تاریخ کی قطع و برید کی جا سکتی ہے۔ تاریخ  میں ایک واقعہ کا رد ہسٹری کے کسی دوسرے ایسے بیان سے ممکن ہوتا ہے جو خود بھی تاریخی ریکارڈ ہو۔
غامدی صاحب فرماتے ہیں: یہ صوفیاء کا وضع کردہ افسانہ ہے؟ مسلمانوں کی تاریخ اور تاریخی واقعات پر صوفیاء کی گرفت اس قدر مضبوط کب رہی ہے کہ وہ تاریخی ریکارڈ کے خالق و جاعل بن گئے ہوں؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں علماء، صوفیاء اور حکماء میں مسلسل علمی، فکری اور عملی تصادم چلا آیا ہے جس نے ہر فریق کے وضعیات کو بغیر کسی تردد کے طشت از بام کیا ہے۔
آخری سوال یہ ہےکہ
قرآن مجید کی جن آیات بینات کو آپ نے اپنے مؤقف کی تائید کے لئے پیش کیا ہے، اس میں کس آیت یا اس کے کس جزو سے یہ اشارہ، کنایہ ملتا ہے کہ یہ پہلی وحی کے متعلق ہے؟
پوری سورہ “والنجم” نزول وحی، حصول وحی اور ابلاغ وحی کی کیفیات کا بیان ہے۔ جس سے ان واقعات کی تردید ممکن ہے اور نہ تائید ممکن ہے جن پر آپ خط تنسیخ کھینچ رہے ہیں۔
میری گزارش یہ ہے کہ
تاریخی ریکارڈ کا جائزہ مطالعہ تاریخ کے منہج پر کیا جائے تو منظم مطالعہ ہوتا ہے۔ اس منہج میں کہیں بھی یہ شامل نہیں کہ اپنے ایمانی تصورات کو امام بنا کر جس طرف جی چاہے نکل جائیں۔ تاریخی مطالعات میں جب بھی پری کنسیوڈ آئیڈیاز نے کوئی کردار ادا کیا ہے تو ایک نیا تاریخی مواد وجود میں آیا ہے۔ تاریخ نگاری اس طرح تاریخ نگاری نہیں رہتی بلکہ تاریخ سازی بن جاتی ہے۔
محترم غامدی صاحب میرے محترم بزرگ ہیں، تاریخ نگار کی تاریخ سازی کے نتائج سے مجھ سے بہتر آگاہ ہوں گے۔ ان تاریخ نگاروں کی صف میں شامل نہ ہوں جو تاریخ سازی کرتے ہیں اور ایک نئی تاریخ سامنے اٹھا لاتے ہیں۔ ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ اور اس کی تحدیدات کا ادراک پیدا کریں اور محض خیال آرائی سے تاریخ نہ بنائیں۔

نبوت کماھی پر قناعت کرو تو سمجھ آئے

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

فتنہ غامدیت 14

فتنہ غامدیت 14

مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی...

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE