غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط سوم)

Published On January 11, 2024
غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق جہلِ مرکب کا شاہ کار

فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق جہلِ مرکب کا شاہ کار

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   غامدی صاحب کا حلقہ اپنے متعلق ہمارے حسنِ ظن کو مسلسل ختم کرنے کے درپے ہے اور اس ضمن میں تازہ ترین کوشش ان کی ترجمانی پر فائز صاحب نے کی ہے جنھوں نے نہ صرف یہ کہ فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق اپنے جہلِ مرکب کا ، بلکہ فقہاے کرام کے متعلق اپنے...

روم و فارس کے ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جنگیں :اتمامِ حجت ،دفاع یا کچھ اور ؟

روم و فارس کے ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جنگیں :اتمامِ حجت ،دفاع یا کچھ اور ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   جناب غامدی صاحب کے مکتبِ فکر کےنظریۂ "اتمامِ حجت" ،جسے یہ مکتبِ فکر "قانون" کے طور پر پیش کرتا ہے ،کافی تفصیلی بحث ہم کرچکے ہیں ۔اس بحث کا ایک موضوع یہ بھی تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے روم و فارس کے خلاف جو جنگیں لڑیں ، کیا وہ...

ڈاکٹر خضر یسین

غامدی صاحب نے بعض دینی تصورات خود سے وضع کئے ہیں یا پھر ان کی تعریف ایسی کی ہے جو خانہ زاد ہے۔ ان تصورات میں “نبوت” اور “رسالت” سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء و رسل دونوں کا فارسی متبادل “پیغمبر” ہے۔ نبی بھی پیغمبر ہے اور رسول بھی پیغمبر ہے۔ مگر “رسالت” نبوت سے اور “نبوت” رسالت سے مختلف شے ہے۔ اس فرق کی اساس، ان کے ہاں دین یا تنزیلات ربانیہ پر نہیں ہے بلکہ ان کی دینی فکر پر ہے۔ ان کی فکر، دین پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان کا “تصور دین” ان کی فکر پر مبنی ہے۔ وہ “دینی فکر” کے بجائے “فکری دین” والے مذہبی اسکالر ہیں۔

ان کے نزدیک “نبوت” یہ ہے: انسانوں میں کوئی شخص وحی پا کر لوگوں کو حق بتائے۔ ان کے ماننے والوں کو قیامت میں انعام ملے گا اور نہ ماننے والوں کو جہنم کا عذاب ملے گا۔ نبی کی تعلیم دنیا میں کامیابی اور ناکامی کے لئے نہیں ہوتی بلکہ محض انذار و بشارت ہوتی ہے۔ نبی کی اتباع کرنے والا صرف آسمانی بادشاہت کا طالب ہوتا ہے، دنیا میں ذلت و نکبت اس  کامقدر ہوتی ہے تو یہ منزل من وحی کے خلاف نہیں ہے۔

رسالت یہ ہے: “نبوت” پر فائز کوئی شخص اس طرح سے خدا کی عدالت بن کر آئے، اس کی قوم اگر اسے جھٹلا دے تو اس بارے میں خدا کا فیصلہ اس پر دنیا میں نافذ کر کے وہ حق کا غلبہ عملا قائم کر دے۔

ہماری معروضات یہ ہیں

تنزیلات ربانیہ میں جو دین اور تصورات دین بتائے گئے ہیں، ان میں ایسی کسی تقسیم کا تذکرہ تو دور کی بات ہے، ادنی سا شوشہ بھی نہیں ملتا۔ یہ ان کا ذاتی اجتہاد ہے، جسے کسی دینی و ایمانی اصول کے ذریعے منتزع نہیں کیا گیا۔ حقیقت تو یہ ہےکہ یہ تقسیم کسی علمی و اخلاقی اصول سے بھی منتزع نہیں ہوتی۔ نبوت و رسالت کی یہ تقسیم منزل من اللہ حق کی حقانیت پر منحصر نہیں بلکہ اس انسان (رسول) پر منحصر ہے جس پر منزل اللہ حق کی حقانیت پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ انسان نبی ہو چاہے غیرنبی ہو، ایک عارضی ہستی ہے، آج ہے اور کل نہیں ہے۔ لیکن وہ “حق” جو آسمان سے نازل ہوا ہے اور دائمی ہے،محترم غامدی صاحب کے نزدیک کسی ایسے اصول و ضابطے کا حامل نہیں ہے، جس سے حق اور اہل حق، دنیا میں غالب ہو سکتے ہوں اور باطل اور اہل باطل شکست خوردہ ہو سکتے ہوں۔ وحی کے ذریعے جو حق انسانوں پر منکشف ہوتا ہے  اس کے ماننے والے اور اس کو جھٹلانے والے دنیا میں کامیابی و ناکامی کا ایک الگ اصول و ضابطہ رکھتے ہیں جو دونوں کے لیے یکساں کارآمد ہے۔ ان کے نزدیک “نبوت” اور اس کے احکام و اخبار کی اپنی حیثیت ان اخلاقی احکام سے زیادہ نہیں ہے جن کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہم خود کو اور دوسروں کو تلقین کر سکتے ہیں۔ ان اخبار و احکام کو زندگی اور موت مسئلہ بہرحال نہیں بنا سکتے۔

غامدی صاحب “رسول و رسالت” کی خود ساختہ تعریف میں مزید اضافہ کرتے ہیں اور اس کی عملی شکل یوں واضح کرتے ہیں

اللہ تعالی رسولوں کو دنیا میں اپنی جزا و سزا کے ظہور کے لئے منتخب فرماتا ہے اور ان کے ذریعے قیامت کبری سے پہلے قیامت صغری برپا کرتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک رسولوں کو بتا دیا جاتا ہے: وہ خدا کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں گے تو اس کی جزا دنیا میں مل جائے گی اور انحراف کریں گے تو اس کی سزا بھی دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اس سے ان کا وجود خدا کی نشانی بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی رسولوں کو حکم دیا جاتا ہے، وہ حق جس کا تم مشاہدہ کر چکے ہو، بلا کم و کاست اس کی تبلیغ کرو اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دو۔ غامدی صاحب کے نزدیک اس حق کا بلا کم و کاست اور قطعیت کے ساتھ لوگوں تک ابلاغ جس کا اللہ کے رسول اپنے سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکے ہوتے ہیں، “شہادت” کہلاتا ہے۔ جب یہ شھادت قائم ہو جاتی ہے تو دنیا و آخرت میں فیصلہ الہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ ان رسولوں کو غلبہ عطا فرماتے ہیں اور منکرین پر اپنا عذاب نازل فرما دیتے ہیں۔

ہماری معروضات

قیامت صغری کا تصور کہاں سے آیا ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔ البتہ یہ تصور “منزل من اللہ” ہرگز نہیں ہے۔ اگر یہ اجتہاد ہے تو اس کی بنیاد کیا ہے؟ غامدی صاحب کے سواء شاید کوئی نہیں جانتا۔ رسولوں کے متعلق یہ تصور بھی حیران کن ہے کہ وہ اللہ کی نشانی بن کر زمین چلتے ہیں لیکن انبیاء جو رسول نہیں ہوتے، اللہ کی نشانی نہیں ہوا کرتے۔ وہ نبی جو رسول نہیں ہے اس کا ابلاغ “شھادت” بھی نہیں ہوتا۔

حقیقت یہ ہے؛ جب کوئی شخص اللہ کے نبی کی حیثیت سے انسانوں کے پاس آتا ہے تو اس حق کو قبول کرنے اور نہ کرنے والے دو گروہ بن جاتے ہیں۔ اہل حق اور اہل باطل یا کافر و مومن۔ یہ حق پوشیدہ ہوتا ہے اور نہ رمز و کنایہ ہوتا ہے کہ جسے سمجھنا دوسرے انسانوں کے لئے دشوار ہو۔ جب تک وہ “منزل حق” باقی رہتا ہے، اللہ کا فیصلہ ہی ہوتا ہے۔ اسے ماننے والے اور نہ ماننے والے دنیا کی زندگی میں ایک دوسرے کے مقابل رہتے ہیں۔ اہل حق اور اہل باطل کے “مقاصد حیات” میں ٹکراو نہ صرف فطری ہے بلکہ یقینی بھی ہوتا ہے۔ نبی اہل ایمان پر شاہد ہوتا ہے اور اہل ایمان، لوگوں پر شاہد ہوتے ہیں۔ یہ شھادت “منزل حق” پر ایمان بالغیب سے میسر آتی ہے اور ایمان بالغیب کی وجہ سے یقینی اور قطعی ہوتی ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…