مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی آیت [وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ…الآیۃ] کا مصداق بھی (نعوذباللہ) عہدرسالت کے ان مسلمانوں (صحابہ) کو قرار دے دیا ہے جنہوں نے ان کے زعم فاسد میں زناکاری کے اڈے کھول رکھے تھے،...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)
جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت
جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE
غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید
سید اسد مشہدی ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے مصادر فکر کے تجزیے پر مبنی ہے۔ جب ہم نے اسی تناظر میں ایک علمی گفتگو ریکارڈ کروائی تو مختلف حلقوں سے ردعمل موصول ہوئے۔ ان میں ایک ردعمل جناب حسن الیاس صاحب کا تھا، جنہوں نے ہماری گفتگو کو اس کے اصل...
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...
ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟
مدثر فاروقی کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...
غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...
ڈاکٹر خضر یسین
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، خاتم الوحی ہے اور آنجناب علیہ السلام کی ذات، خاتم النبیین ہیں۔ قرآن مجید کے بعد نہ ایسی وحی ممکن ہے جو انسانیت پر واجب الایمان و العمل ہو اور نہ آنجناب علیہ السلام کے بعد کوئی نبی و رسول ممکن ہے۔ آنجناب علیہ السلام پر نازل ہونے والی میں آنے والے تمام اخبار “منزل من اللہ” ہیں، ان کی فہرست میں کمی بیشی ممکن ہے اور نہ “منزل احکام” کی فہرست میں ترمیم و تنسیخ جائز ہے۔ قرآن مجید میں جو خبر نازل ہو چکی ہے، وہ انسان کے متعلق ہو یا آسمان سے تعلق رکھتی ہو، اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ عیسی بن مریم کے وجود کا انکار اسی طرح کفر ہے جس طرح وجود باری تعالی کا انکار کفر ہے۔ ابلیس کے وجود کا منکر بھی کافر ہے اور جبریل کے وجود کا منکر بھی کافر ہے اور دونوں بالکل ایک جیسے کافر ہیں۔
اب اگر :ذریت ابراہیم” علیہ السلام کی حیثیت اسی طرح منتخب من اللہ جماعت کی ہے، جس طرح رسول و نبی انسانوں میں منتخب من اللہ ہوتے ہیں اور یہ قرآن مجید میں آیا ہے تو اس پر ایمان رکھنا اتنا ہی واجب ہے جتنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنا واجب ہے۔
یہاں ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہئے؛ “نبوت” محل الرائے نہیں ہے۔ اگر آپ “تنزیلات ربانیہ” کے حضور اپنی رائے موقوف نہیں کر سکتے تو آپ ایک صاحب ایمان کی طرح سوچنے کے اہل نہیں ہیں۔ “تنزیلات ربانیہ” کے حضور اپنی رائے محفوظ رکھنا تو دور کی بات ہے، یہاں پر اپنی رائے نہ رکھنا ضروری ہے۔
ختم نبوت کے بعد “منزل اخبار و احکام” میں صرف ترمیم و تنسیخ سے ہم دست کش نہیں ہوئے، انہیں اخبار و احکام تک اپنے دین کو مقید و محدد رکھنے کے بھی ہم پابند ہیں۔ اگر “ذریت ابراہیم” ع کی یہ حیثیت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے تو ہم پر ایمانا واجب ہے کہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے منکر کو کافر کہیں۔ لیکن اگر یہ محض ایک خیال آرائی ہے یا آیات قرآنی سے ایک انتزاع ہے تو اس کی حیثیت زیادے سے زیادہ “رائے” کی ہے۔
میں نے جیسے پہلے عرض کیا ہے؛ ختم نبوت کے بعد تمام منزل اخبار دینی عقائد ہیں جو پہلے آنجناب علیہ السلام پر واجب الایمان و العمل ہیں اور آنجناب علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں امت پر واجب الایمان و العمل ہیں۔
غامدی صاحب کا ایک تصور جو اسی سلسلے کی اگلی کڑی ہے، وہ امت محمدیہ کے علماء کے متعلق ہے۔ وہ فرماتے ہیں؛ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف کے جانے کے بعد لوگوں کو دین پر قائم رکھنے کے لئے “انذار” وہ واحد ذریعہ ہے، جسے علمائے امت نے کام میں لانا ہے۔ علماء کی ذمہ داری انذار ہے، بشارت کیوں نہیں ہے؟ مجھے اس کا بالکل علم نہیں ہے کہ محترم غامدی صاحب نے یہاں صرف انذار پر کیوں اصرار کیا ہے؟
غامدی صاحب اپنی تحریر و تقریر میں کہیں بھی یہ بات نہیں کرتے؛ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “تنزیلات ربانیہ” کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور امت آپ علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں بالکل اسی طرح مکلف و مخاطب ہے جس طرح آنجناب علیہ السلام تھے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے غامدی صاحب کے نزدیک امت کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک ایسا گروہ ہے، جس کے فرد اول آنجناب علیہ السلام نہیں ہیں۔ امت ایک طرف کھڑی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسری طرف کھڑے ہوئے ہیں۔ امت کا یہ تصور “تنزیل من رب العالمین” کے شایان شان نہیں ہے اور نہ تنزیل کے درست ادراک پر مبنی ہے۔ قرآن مجید نے “یا ایھا النبی” سے شروع ہونے والے خطاب کو جس فراوانی سے “جمع مخاطب” میں بلاتردد بدلا ہے، اس کی روح کے ادراک سے لسانیاتی ذوق رکھنے والے انسان کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
“الأمة من حيث الأمة” کا غلط تصور، دین اور اس کی ماہیت کو سمجھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ انسانی گروہ جس کے فرد اول آنجناب علیہ السلام نہ ہوں، الأمة کبھی نہیں ہو سکتا۔ امت کے علماء کا وظیفہ “تنزیلات ربانیہ” کو امت کے دوسرے طبقات تک اسی دیانت داری سے پہنچانا ہے، جس دیانت داری کے ساتھ آنجناب علیہ السلام نے پہنچایا تھا۔ جو کچھ اوپر سے نازل ہوا تھا، آنجناب علیہ السلام نے بلا کم و کاست انسانوں کے سامنے رکھ دیا اور پوری دیانت داری کے ساتھ اس پر عمل کیا اور اپنی اطاعت و اتباع کی طرف انسانوں کو دعوت دی۔ جب کوئی عالم “ابلاغ نبوت” کی ذمہ داری کا بیڑا اٹھاتا ہے تو اس کا وظیفہ غیرمعمولی حساس نوعیت کا ہے، اس پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے ادنی درجے کی بھی اس میں مداخلت نہ کرے اور آنجناب علیہ السلام کی طرح پوری دیانت داری کا مظاہرہ کرے۔ اسی طرح جب کوئی مسلمان حکمران بنتا ہے تو اس وظیفہ حکم اللہ کی تعمیل یقینی بنانا ہے جس طرح آنجناب علیہ السلام نے بطور حکمران “حکم اللہ” کی تعمیل و نفاذ یقینی بنایا تھا۔ “الأمة” میں مختلف طبقات ہیں، جو فرد جس طبقے سے تعلق رکھتا ہے، اس پر واجب ہے کہ “تنزیلات ربانیہ” پر اسی طرح عمل کرے جس طرح آنجناب علیہ السلام نے کیا تھا۔
غامدی صاحب کا “تصور دین” روایتی علوم اور علماء سے ماخوذ ہے۔ وہ کہتے ہیں؛ “نبوت” ختم کر دی گئی ہے اور لوگوں کو دین پر قائم رکھنے کے لئے انذار کی ذمہ داری اب قیامت اس امت کے علماء پر ہے، تو دراصل نہ صرف وہ “ابلاغ نبوت” کی حساس ترین ذمہ داری کو نظرانداز کر دیتے ہیں بلکہ “الأمة” کے وجود کا درست ادراک بھی ضائع کر دیتے ہیں۔
اسلام اور ایمان میں بنیادی فرق صرف اتنا ہے کہ الأمة کی تہذیبی ثقافت اسلام ہے اور اس تہذیبی ثقافت کا غائی پہلو ایمان ہے۔ اسلام “الأمة” کا قابل مشاہدہ پہلو ہے اور ایمان الأمة کا اقداری پہلو ہے۔ اسلام کی بنیادیں پانچ چیزوں پر نہیں ہیں، جیسا کہ روایتی علما سمیت غامدی صاحب کا خیال ہے۔ اسلام درحقیقت تمام “منزل اخبار و احکام اور اعمال” یعنی کتاب و سنت پر مبنی ہے۔ جیسا کہ پہلے میں عرض کر چکا ہوں؛ تمام “منزل اخبار” پر ایمان کا اقرار، اسلام ہے، تمام “منزل احکام” کی تعمیل، اسلام ہے اور تمام “منزل اعمال” کی اسی طرح بجا آواری واجب ہے جس طرح سے آنجناب علیہ السلام نے کر کے دیکھائی ہے۔ لیکن غامدی صاحب کا اسلام اسی طرح پانچ چیزوں پر کھڑا ہے جیسا کہ روایتی علماء کا اسلام پانچ چیزوں پر مبنی ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
فتنہ غامدیت 14
مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی...
غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید
سید اسد مشہدی ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے...
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس...