قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

Published On November 24, 2024
فتنہ غامدیت 14

فتنہ غامدیت 14

مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی آیت [وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ…الآیۃ] کا مصداق بھی (نعوذباللہ) عہدرسالت کے ان مسلمانوں (صحابہ) کو قرار دے دیا ہے جنہوں نے ان کے زعم فاسد میں زناکاری کے اڈے کھول رکھے تھے،...

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

سید اسد مشہدی ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے مصادر فکر کے تجزیے پر مبنی ہے۔ جب ہم نے اسی تناظر میں ایک علمی گفتگو ریکارڈ کروائی تو مختلف حلقوں سے ردعمل موصول ہوئے۔ ان میں ایک ردعمل جناب حسن الیاس صاحب کا تھا، جنہوں نے ہماری گفتگو کو اس کے اصل...

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

محمد خزیمہ الظاہری

منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔

متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات ایسے ہی منتشر تھی جیسے آج ہے اس وقت تک اسکے متواتر ہونے کا علم نہیں ہو سکتا۔

مثلاً آج کسی بھی چیز سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے سے آج تک یہ عمل ایسے ہی متواتر چلا آ رہا ہے تو ہمیں اس بات کا علم کیسے ہو گا کہ آج سے پانچ سو سال پہلے یہ عمل واقعی متواتر تھا؟

ہم نے صرف آج کے زمانے میں ہی اپنی آنکھوں سے متواتر قرار دی جانے والی چیزوں کو دیکھا ہے،اس سے چند صدیاں پیچھے جائیں گے تو اس دور کے حالات و احوال کیسے معلوم کریں گے؟

ما سوائے ان لکھی ہوئی روایات و اخبار کے اور کوئی ذریعہ نہیں جو اسکا پتہ دے،وہ اخبار و روایات جنہیں ہر حال میں ظنی کہا جاتا ہے۔

جب تک روایاتِ آحاد پر یقین سے اعتماد نہیں ہو گا اس وقت تک تواتر صرف ایک ہوائی خیال رہے گا،روایات ہی باتی ہیں کہ فلاں فلاں زمانے میں فلاں فلاں چیز متواتر تھی،یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اجماع ہوتا ہے کہ اسے نقل کرنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں جو اجماعات پر کتابیں لکھ کر بتاتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز پر اجماع ہے مگر از خود یہ چیز بیان کرنے والے چند گنے چنے لوگ ہوتے ہیں۔

تواتر کی اصطلاح جہاں سے آئی ہے اور جس فن کے ماننے والوں نے تواتر کو ثبوت کا قطعی ذریعہ بتایا ہے انکے ہاں بھی صراحت سے یہ بات نہیں ملتی کہ تواتر فی نفسہ الگ سے کوئی مستقل چیز ہے اور اپنے وجود میں آحاد و مظنونات کی محتاج نہیں ہے،بلکہ اسکے بر عکس یہ ضرور ملتا ہے کہ تواتر سے آپ کسی دوسرے پر حجت قائم ہی نہیں کر سکتے اگرچہ آپ خود اس متواتر چیز پر مطمئن ہوں (یہ گفتگو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب الرد على المنطقيين میں موجود ہے)۔

اسی طرح اس فن کے بہت سے اہل علم جن میں امام غزالی رحمہ اللہ سر فہرست ہیں،انہوں نے جہاں یقینی اور قطعی مقدمات کا ذکر کیا ہے وہاں تواتر کو کوئی جگہ نہیں دی،صرف اولیات،فطریات،مشاھدات اور تجربیات پر اکتفاء کیا ہے،۔

انہیں اخبار و روایات کی قدر نا کرنے کی وجہ سے عیسائیوں کو اس بحث کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ نعوذ باللہ عیسی علیہ السلام کا کوئی شخصی وجود بھی تھا یا وہ ایک فرضی شخص ہیں؟؟

اس ساری گفتگو سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جن چیزوں کو متواتر کا درجہ حاصل ہو گا انکی بنیاد اخبار و روایات پر ہی ہو گی اور ان اخبار و روایات کو (بعض صورتوں میں) قطعی تسلیم کیا جائے گا تو ہی متواتر کی حیثیت سامنے آ سکے گی۔

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

فتنہ غامدیت 14

فتنہ غامدیت 14

مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی...

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE