قرآن کی تعلیم: فقہی روایت اور مکتب فراہی ( ایک مکالمہ)

Published On April 7, 2025
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

ڈاکٹر زاہد مغل

یہ مکالمہ چند امور کو واضح کرنے کے لئے تحریر کیا گیا ہے۔ “م ف” سے مراد مکتب فراہی کے منتسب ہیں اور “ف ر” سے مراد فقہی روایت کے منتسب۔

م ف: مدارس میں براہ راست قرآن مجید کی تعلیم تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں کلام، اصول فقہ، فقہ، حدیث، لغات وغیرہ وغیرہ کی تعلیم پر اصل زور ہے۔

ف ر: کلام، اصول فقہ، فقہ وغیرہ سب قرآن ہی کی تفہیم سے متعلق ہیں، قرآن کی تعلیم کا مطلب صرف یہ نہیں کہ پہلے ایک معین آیت پڑھ کر اس کا ترجمہ کیا جائے اور پھر اس کے تحت کچھ کہا جائے بلکہ اس کے مقدمات، لوازمات، اطلاقات وغیرہ سے متعلق سب علوم قرآن کا ہی مطالعہ ہے۔

م ف: لیکن یہ براہ راست اللہ کی کتاب کا مطالعہ اور اسے محور بنانا تو نہ ہوا۔

ف ر: اچھا! ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مثلاً جناب غامدی صاحب نے ایک کتاب “میزان” کے نام سے تحریر کی، آپ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کتاب قرآن پر مبنی دین و شریعت کا بیان ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک دقیق کتاب ہے اس لئے آپ لوگوں کے مطابق اسے اچھے سے سمجھنے کے لئے ان کے کئی سو گھنٹوں پر مبنی وہ دروس بھی سننا چاہئیں جو انہوں نے اس کتاب کو پڑھانے پر ریکارڈ کرائے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ 23 اعتراضات کی ایک سیریز کی کوئی 200 اقساط بھی ریکارڈ ہوئی ہیں جنہیں سننا چاہئے تاکہ ان کا موقف اور اس پر وارد ہونے والے اعتراضات کی غلطی دونوں سمجھ آسکیں۔ پھر غامدی صاحب کے ایک شاگرد ان کی ان 200 اقساط کا کوئی خلاصہ و تفہیم بھی ریکارڈ کرا رہے ہیں وہ بھی دیکھنا چاہئے۔ پھر ان کے ایک شاگرد ان کے ان ریکارڈڈ پروگرامز کو تحریر کی صورت ڈھال کر کتب بنا رہے ہیں جیسے بزرگوں کے “ملفوظات” جمع کئے جاتے تھے، پھر ان کے ایک شاگرد ان کی کتاب “میزان” پر توضیحی حواشی لکھ رہے ہیں اور کچھ خطبات بھی دے رہے ہیں۔ پھر ان کے نظریہ بیان کے مطابق تمام احادیث کا مفہوم مقرر کرنے کے لئے ریسرچرز کی ایک ٹیم دن رات کام پر مشغول ہے، اس مقصد کے لئے ریکارڈڈ پروگرامز کی ایک سیریز “تفہیم آثار” کے نام سے بھی چل رہی ہے۔ ان کے ایک شاگرد نے قرآن و حدیث پر ان کے نظریہ بیان کی توجیہ کے لئے کئی سال لگا کر تحقیقی کتاب بھی لکھی ہے۔ پھر عوام کو متوجہ کرنے کے لئے “اوپن مائیک سیشنز” وغیرہ بھی چل رہے ہیں، مختلف ماہرین علم کو اپنے پلیٹ فارم پر انگیج کرنے کی ایکٹیویٹیز بھی ہورہی ہیں۔

تو میں یہ سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ اس سب ایکٹیویٹی میں “براہ راست قرآن” کی تعلیم کہاں ہے؟ ایک سادہ سا ٹیسٹ لیجئے کہ مثلا پچھلے ایک ماہ میں غامدی سینٹر کے تحت ان سب محققین کی مختلف پروگرامز پر مبنی جتنے گھنٹوں کی ریکارڈنگ وغیرہ جاری ہوئی ان میں کتنے فی صد وقت کی ریکارڈنگ “براہ راست قرآن” کی بات پر تھی؟ یہ سب لوگ مل جل کر ایک یا چند خاص اشخاص کے خیالات و افکار ہی کو مفہوم کرانے اور انہیں فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں، مجھے تو ان میں سے کوئی بھی قرآن پڑھتا نظر نہیں آرہا۔

م ف: یہ سب امور قرآن ہی کے ارد گرد ہیں۔

ف ر: یہی ہم کہتے ہیں کہ ہمارے سب علوم اسی طرح قرآن ہی کے ارد گرد ہیں، فرق بس اتنا ہے کہ آپ نے کچھ اپنے اصول بنالئے ہیں۔ تو جس طرح آپ کو لگتا ہے کہ قرآن کی اصلی تعلیم وہ ہے جو آپ کے اصولوں کے مطابق ہو یہی دوسروں کو لگتا ہے۔

م ف: لیکن ہم تقلید جامد نہیں کرتے اور اختلاف کو روا رکھتے ہیں، آپ لوگوں نے فقہی شناختیں پیدا کرکے لوگوں کو پابند سلاسل کردیا ہے۔

ف ر: یہ اصل موضوع سے ایک الگ بات ہے، لیکن اس پر بھی گزارش ہے کہ جب کوئی فکر ابتدائی سٹیج میں ہو تو وہاں اجمال، عموم و ابہام کی وجہ سے متعدد باتیں کہنا آسان ہوتا ہے، پھر جوں جوں سنجیدہ و ذہین لوگ کسی فکر کو اپناتے ہیں امور کی تحقیق ہوتی چلی جاتی ہے اور آراء پختہ ہوکر سامنے آجاتی ہیں جن میں نئی بات کہنے کی گنجائش بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ فقہی روایات میں صدیوں کے سوچ بچار اور نقد و تحلیل کے عمل کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، آراء اور ان کے دلائل کو اچھی طرح پرکھا جاچکا ہے، اور اب کچھ نیا کہنے کے لئے پہلے اس سب کہے ہوئے کو سمجھنے اور پھر اضافے کے لئے دل گردہ چاہئے۔ لہذا اہل علم کے لئے آراء میں انتخاب اب واضح ہے کہ یا آپ لائن سے ادھر ہیں اور یا ادھر، تحقیق کے بعد ایسا دائرہ بہت محدود ہوگیا ہے کہ میں ہم آھنگی کو برقرار رکھتے ہوئے لائن کے ادھر بھی کھڑا رہوں اور ادھر بھی۔ اب اس علمی خوبی و گہرائی کو اگر کوئی تقلید جامد وغیرہ کہتا ہے تو کہتا رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ ایک غیر سنجیدہ تبصرہ ہے جو علم کی دنیا میں چند گلیوں بعد آگے جا کے ایک بند گلی میں ختم ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ ایک دائرے میں آپ بھی تقلید جامد ہی کرتے ہیں کیونکہ آپ کے بھی ابھی سے چند موٹے موٹے ایسے اصول ہیں کہ اگر کوئی انہیں نہ مانے تو وہ مکتب فراہی میں شمار نہیں ہوسکتا، مثلا نظم قرآن کا خاص تصور، قرآن و سنت کے تعلق کا خاص اصول پر مبنی ہونا، وغیرہ۔ جو انہیں نہ مانے وہ آپ کے نزدیک اسی طرح مکتب فراہی سے خارج ہے جیسے مثلا عام کی قطعیت کو نہ ماننے والا حنفیوں کے نزدیک بالعموم حنفی فقہی مذہب سے باہر ہے۔

م ف: ہم اس بات کے قائل نہیں کہ آراء کے اختلاف کو گروہ بندی اور سیاسی رشہ کشی کا موضوع بنائیں جیسا کہ آپ کی تاریخ ہے۔

ف ر: ابتدائی سٹیج کی فکر والوں کو یہ باتیں اسی طرح محسوس ہوتی ہیں جیسے مثلا مخالف رشتے داروں کے چھوٹے بچوں کو اپنے بڑوں کی سب لڑائیاں بے معنی و غیر معقول لگتی ہیں۔ جب آپ کو یہ یقین ہو کہ آپ قرآن کی درست تعلیم کو بیان کررہے ہیں اور لوگوں کی بھلائی اس کے ساتھ وابستہ ہے تو آپ کے لئے یہ کوشش کرنا عین جائز اور فطری بات ہے کہ وسائل کا رخ اپنی جانب کرنے کی سب جائز کاوشیں کریں۔ کیا آپ اپنے لئے عوامی وسائل بصورت ڈونیشن (چندہ) زیادہ سے زیادہ حصول کی کوشش نہیں کرتے، جبکہ یہ معلوم ہے کہ آپ کے پاس آنے والا ہر ایک ڈالر و روپیہ کسی دوسرے کے مقصد کی راہ میں رکاوٹ کا باعث ہے؟ آپ کو جب میڈیا ایکسپوژر ملا تو کیا آپ نے کوشش نہ کی کہ زیادہ سے زیادہ پرائم ٹائم والا سکرین وقت آپ کو ملے؟ کیا آپ کی یہ تمنا نہیں کہ پالیسی ساز عہدوں پر آپ کے لوگوں کی نمائندگی ہو؟ کیا آپ یہ نہیں چاہتے کہ شہر شہر آپ کے ادارے کی شاخیں پھلیں پھولیں؟ حق کے فروغ کے لئے وسائل کے حصول اور قربانیاں دینے کی یہی مخلصانہ تگ و دو گروہی عصبیت کو مضبوط کردیتی ہے جس پر آپ اہل فقہ پر شکوہ کناں ہیں۔ یہ بات البتہ آپ کو کچھ بڑے ہوکر سمجھ آئے گی۔

خیر، بات کچھ دور نکل گئی، ان پر کسی وقت مزید بات کرلیں گے۔ فی الوقت اس بات پر واپس چلتے ہیں کہ آپ سب محققین کی ایکٹیویٹیز میں براہ راست قرآن کی تعلیم کہاں اور کتنی ہے؟

م ف: ہمارے بزرگوں جیسے کہ مولانا فراہی و اصلاحی و غامدی صاحبان نے قرآن کو ٹھیک سے سمجھنے کے اصول اور ان سے ماخوذ اکثر و بیشتر مسائل بیان کر دئیے ہیں اور ہم نے دلیل اور غور و فکر سے اس پر تسلی کی ہے، ان چیزوں کو بار بار ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں۔

ف ر: یہی ہم کہتے ہیں۔

والسلام

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…