قرآن کی تعلیم: فقہی روایت اور مکتب فراہی ( ایک مکالمہ)

Published On April 7, 2025
قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس

قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد فرماتے ہیں:۔خود کو احمدی کہلوانے والوں کے ماوراے عدالت قتل کا سبب 1984ء کا امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ہے؛ جس کا سبب 1974ء کی آئینی ترمیم ہے جس نے خود کو احمدی کہلوانے والوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا؛ جس سبب قراردادِ مقاصد ہے جس...

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ علم کلام ناگزیر علم نہیں اس لئے کہ قرآن تک پہنچنے کے جس استدلال کی متکلمین بات کرتے ہیں وہ قرآن سے ماخوذ نہیں نیز قرآن نے اس بارے میں خود ہی طریقہ بتا دیا ہے۔ مزید یہ کہ علم کلام کا حاصل دلیل حدوث ہے جس کا پہلا مقدمہ (عالم حادث...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ڈاکٹر اسرار احمد پر طنز اور استہزا کا اسلوب اب اس باب سے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جو غامدی صاحب نے ’احساسِ ذمہ داری‘ کے ساتھ ڈاکٹر اسرار صاحب پر تنقید میں لکھا۔ یہاں بھی انھیں بقول ان کے شاگردوں کے، کم از کم یہ تو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ ڈاکٹر...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد نے یکسر جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نہایت بے دردی کے ساتھ، اور ہاتھ نچا نچا کر جس طرح فلسطین کے مسئلے پر ہفوات پیش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی، اس پر گرفت کریں، تو غامدی صاحب کے مریدانِ باصفا اخلاقیات کی دُہائی...

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!۔ فلسطین کے مسئلے پر غامدی صاحب اور ان کے داماد جناب حسن الیاس نے جس طرح کا مؤقف اختیار کیا ہے، اس نے بہت سے لوگوں کو حیرت کے ساتھ دکھ میں مبتلا کیا ہے، غزہ میں ہونے والی بدترین نسل کشی پر پوری دنیا مذمت...

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں "یہ چیز حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے" (ميزان) جیسے سود دینے والے کی مذمت میں اگرچہ حدیث صراحتا بیان ہوئی ليكن غامدی...

ڈاکٹر زاہد مغل

یہ مکالمہ چند امور کو واضح کرنے کے لئے تحریر کیا گیا ہے۔ “م ف” سے مراد مکتب فراہی کے منتسب ہیں اور “ف ر” سے مراد فقہی روایت کے منتسب۔

م ف: مدارس میں براہ راست قرآن مجید کی تعلیم تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں کلام، اصول فقہ، فقہ، حدیث، لغات وغیرہ وغیرہ کی تعلیم پر اصل زور ہے۔

ف ر: کلام، اصول فقہ، فقہ وغیرہ سب قرآن ہی کی تفہیم سے متعلق ہیں، قرآن کی تعلیم کا مطلب صرف یہ نہیں کہ پہلے ایک معین آیت پڑھ کر اس کا ترجمہ کیا جائے اور پھر اس کے تحت کچھ کہا جائے بلکہ اس کے مقدمات، لوازمات، اطلاقات وغیرہ سے متعلق سب علوم قرآن کا ہی مطالعہ ہے۔

م ف: لیکن یہ براہ راست اللہ کی کتاب کا مطالعہ اور اسے محور بنانا تو نہ ہوا۔

ف ر: اچھا! ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مثلاً جناب غامدی صاحب نے ایک کتاب “میزان” کے نام سے تحریر کی، آپ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کتاب قرآن پر مبنی دین و شریعت کا بیان ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک دقیق کتاب ہے اس لئے آپ لوگوں کے مطابق اسے اچھے سے سمجھنے کے لئے ان کے کئی سو گھنٹوں پر مبنی وہ دروس بھی سننا چاہئیں جو انہوں نے اس کتاب کو پڑھانے پر ریکارڈ کرائے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ 23 اعتراضات کی ایک سیریز کی کوئی 200 اقساط بھی ریکارڈ ہوئی ہیں جنہیں سننا چاہئے تاکہ ان کا موقف اور اس پر وارد ہونے والے اعتراضات کی غلطی دونوں سمجھ آسکیں۔ پھر غامدی صاحب کے ایک شاگرد ان کی ان 200 اقساط کا کوئی خلاصہ و تفہیم بھی ریکارڈ کرا رہے ہیں وہ بھی دیکھنا چاہئے۔ پھر ان کے ایک شاگرد ان کے ان ریکارڈڈ پروگرامز کو تحریر کی صورت ڈھال کر کتب بنا رہے ہیں جیسے بزرگوں کے “ملفوظات” جمع کئے جاتے تھے، پھر ان کے ایک شاگرد ان کی کتاب “میزان” پر توضیحی حواشی لکھ رہے ہیں اور کچھ خطبات بھی دے رہے ہیں۔ پھر ان کے نظریہ بیان کے مطابق تمام احادیث کا مفہوم مقرر کرنے کے لئے ریسرچرز کی ایک ٹیم دن رات کام پر مشغول ہے، اس مقصد کے لئے ریکارڈڈ پروگرامز کی ایک سیریز “تفہیم آثار” کے نام سے بھی چل رہی ہے۔ ان کے ایک شاگرد نے قرآن و حدیث پر ان کے نظریہ بیان کی توجیہ کے لئے کئی سال لگا کر تحقیقی کتاب بھی لکھی ہے۔ پھر عوام کو متوجہ کرنے کے لئے “اوپن مائیک سیشنز” وغیرہ بھی چل رہے ہیں، مختلف ماہرین علم کو اپنے پلیٹ فارم پر انگیج کرنے کی ایکٹیویٹیز بھی ہورہی ہیں۔

تو میں یہ سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ اس سب ایکٹیویٹی میں “براہ راست قرآن” کی تعلیم کہاں ہے؟ ایک سادہ سا ٹیسٹ لیجئے کہ مثلا پچھلے ایک ماہ میں غامدی سینٹر کے تحت ان سب محققین کی مختلف پروگرامز پر مبنی جتنے گھنٹوں کی ریکارڈنگ وغیرہ جاری ہوئی ان میں کتنے فی صد وقت کی ریکارڈنگ “براہ راست قرآن” کی بات پر تھی؟ یہ سب لوگ مل جل کر ایک یا چند خاص اشخاص کے خیالات و افکار ہی کو مفہوم کرانے اور انہیں فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں، مجھے تو ان میں سے کوئی بھی قرآن پڑھتا نظر نہیں آرہا۔

م ف: یہ سب امور قرآن ہی کے ارد گرد ہیں۔

ف ر: یہی ہم کہتے ہیں کہ ہمارے سب علوم اسی طرح قرآن ہی کے ارد گرد ہیں، فرق بس اتنا ہے کہ آپ نے کچھ اپنے اصول بنالئے ہیں۔ تو جس طرح آپ کو لگتا ہے کہ قرآن کی اصلی تعلیم وہ ہے جو آپ کے اصولوں کے مطابق ہو یہی دوسروں کو لگتا ہے۔

م ف: لیکن ہم تقلید جامد نہیں کرتے اور اختلاف کو روا رکھتے ہیں، آپ لوگوں نے فقہی شناختیں پیدا کرکے لوگوں کو پابند سلاسل کردیا ہے۔

ف ر: یہ اصل موضوع سے ایک الگ بات ہے، لیکن اس پر بھی گزارش ہے کہ جب کوئی فکر ابتدائی سٹیج میں ہو تو وہاں اجمال، عموم و ابہام کی وجہ سے متعدد باتیں کہنا آسان ہوتا ہے، پھر جوں جوں سنجیدہ و ذہین لوگ کسی فکر کو اپناتے ہیں امور کی تحقیق ہوتی چلی جاتی ہے اور آراء پختہ ہوکر سامنے آجاتی ہیں جن میں نئی بات کہنے کی گنجائش بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ فقہی روایات میں صدیوں کے سوچ بچار اور نقد و تحلیل کے عمل کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، آراء اور ان کے دلائل کو اچھی طرح پرکھا جاچکا ہے، اور اب کچھ نیا کہنے کے لئے پہلے اس سب کہے ہوئے کو سمجھنے اور پھر اضافے کے لئے دل گردہ چاہئے۔ لہذا اہل علم کے لئے آراء میں انتخاب اب واضح ہے کہ یا آپ لائن سے ادھر ہیں اور یا ادھر، تحقیق کے بعد ایسا دائرہ بہت محدود ہوگیا ہے کہ میں ہم آھنگی کو برقرار رکھتے ہوئے لائن کے ادھر بھی کھڑا رہوں اور ادھر بھی۔ اب اس علمی خوبی و گہرائی کو اگر کوئی تقلید جامد وغیرہ کہتا ہے تو کہتا رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ ایک غیر سنجیدہ تبصرہ ہے جو علم کی دنیا میں چند گلیوں بعد آگے جا کے ایک بند گلی میں ختم ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ ایک دائرے میں آپ بھی تقلید جامد ہی کرتے ہیں کیونکہ آپ کے بھی ابھی سے چند موٹے موٹے ایسے اصول ہیں کہ اگر کوئی انہیں نہ مانے تو وہ مکتب فراہی میں شمار نہیں ہوسکتا، مثلا نظم قرآن کا خاص تصور، قرآن و سنت کے تعلق کا خاص اصول پر مبنی ہونا، وغیرہ۔ جو انہیں نہ مانے وہ آپ کے نزدیک اسی طرح مکتب فراہی سے خارج ہے جیسے مثلا عام کی قطعیت کو نہ ماننے والا حنفیوں کے نزدیک بالعموم حنفی فقہی مذہب سے باہر ہے۔

م ف: ہم اس بات کے قائل نہیں کہ آراء کے اختلاف کو گروہ بندی اور سیاسی رشہ کشی کا موضوع بنائیں جیسا کہ آپ کی تاریخ ہے۔

ف ر: ابتدائی سٹیج کی فکر والوں کو یہ باتیں اسی طرح محسوس ہوتی ہیں جیسے مثلا مخالف رشتے داروں کے چھوٹے بچوں کو اپنے بڑوں کی سب لڑائیاں بے معنی و غیر معقول لگتی ہیں۔ جب آپ کو یہ یقین ہو کہ آپ قرآن کی درست تعلیم کو بیان کررہے ہیں اور لوگوں کی بھلائی اس کے ساتھ وابستہ ہے تو آپ کے لئے یہ کوشش کرنا عین جائز اور فطری بات ہے کہ وسائل کا رخ اپنی جانب کرنے کی سب جائز کاوشیں کریں۔ کیا آپ اپنے لئے عوامی وسائل بصورت ڈونیشن (چندہ) زیادہ سے زیادہ حصول کی کوشش نہیں کرتے، جبکہ یہ معلوم ہے کہ آپ کے پاس آنے والا ہر ایک ڈالر و روپیہ کسی دوسرے کے مقصد کی راہ میں رکاوٹ کا باعث ہے؟ آپ کو جب میڈیا ایکسپوژر ملا تو کیا آپ نے کوشش نہ کی کہ زیادہ سے زیادہ پرائم ٹائم والا سکرین وقت آپ کو ملے؟ کیا آپ کی یہ تمنا نہیں کہ پالیسی ساز عہدوں پر آپ کے لوگوں کی نمائندگی ہو؟ کیا آپ یہ نہیں چاہتے کہ شہر شہر آپ کے ادارے کی شاخیں پھلیں پھولیں؟ حق کے فروغ کے لئے وسائل کے حصول اور قربانیاں دینے کی یہی مخلصانہ تگ و دو گروہی عصبیت کو مضبوط کردیتی ہے جس پر آپ اہل فقہ پر شکوہ کناں ہیں۔ یہ بات البتہ آپ کو کچھ بڑے ہوکر سمجھ آئے گی۔

خیر، بات کچھ دور نکل گئی، ان پر کسی وقت مزید بات کرلیں گے۔ فی الوقت اس بات پر واپس چلتے ہیں کہ آپ سب محققین کی ایکٹیویٹیز میں براہ راست قرآن کی تعلیم کہاں اور کتنی ہے؟

م ف: ہمارے بزرگوں جیسے کہ مولانا فراہی و اصلاحی و غامدی صاحبان نے قرآن کو ٹھیک سے سمجھنے کے اصول اور ان سے ماخوذ اکثر و بیشتر مسائل بیان کر دئیے ہیں اور ہم نے دلیل اور غور و فکر سے اس پر تسلی کی ہے، ان چیزوں کو بار بار ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں۔

ف ر: یہی ہم کہتے ہیں۔

والسلام

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…