قرآن کی من مانی تفسیر

Published On October 21, 2024
غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق جہلِ مرکب کا شاہ کار

فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق جہلِ مرکب کا شاہ کار

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   غامدی صاحب کا حلقہ اپنے متعلق ہمارے حسنِ ظن کو مسلسل ختم کرنے کے درپے ہے اور اس ضمن میں تازہ ترین کوشش ان کی ترجمانی پر فائز صاحب نے کی ہے جنھوں نے نہ صرف یہ کہ فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق اپنے جہلِ مرکب کا ، بلکہ فقہاے کرام کے متعلق اپنے...

روم و فارس کے ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جنگیں :اتمامِ حجت ،دفاع یا کچھ اور ؟

روم و فارس کے ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جنگیں :اتمامِ حجت ،دفاع یا کچھ اور ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   جناب غامدی صاحب کے مکتبِ فکر کےنظریۂ "اتمامِ حجت" ،جسے یہ مکتبِ فکر "قانون" کے طور پر پیش کرتا ہے ،کافی تفصیلی بحث ہم کرچکے ہیں ۔اس بحث کا ایک موضوع یہ بھی تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے روم و فارس کے خلاف جو جنگیں لڑیں ، کیا وہ...

عبد اللہ معتصم

اپنے پیش رو مرزا قادیانی کی طرح غامدی صاحب بھی قرآن کی من مانی تفسیر، الفاظ کو کھینچ تان کر اپنے مطلب کی بات نکالنے میں طاق ہیں۔ قرآن کی معنوی تحریف اور جمہور امت سے ایک الگ اعتزال کی راہ اپنانا اور ایک امتیازی رائے رکھنا ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ ”اسلام کے حدود وتعزیرات“ پر حضرت کی خامہ فرسائی ملاحظہ فرمائیں۔

موت کی سزا قرآن کی رو سے قتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں نہیں دی جاسکتی۔ الله تعالیٰ نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ ان دو جرائم کو چھوڑ کر، فرد ہو یا حکومت، یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص کی جان کے در پے ہو اور اسے قتل کر ڈالے۔

(سورة) مائدہ میں ہے: ﴿ُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعا﴾․(آیت:32) (جس نے کسی کو قتل کیا اس کے بغیر کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو، یازمین میں فساد برپا کیا ہو تو اس نے گویا سب انسانوں کو قتل کیا۔) (میزان ص283)

محولہ بالا عبارات میں غامدی صاحب نے یہ مغالطہ اور فریب دیا کہ سورة المائدہ کی پوری آیت نہیں لکھی۔ کیوں کہ اگر وہ پوری آیت لکھ دیتے تو اس سے وہ اپنا من پسند مفہوم کشید نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے مذکورہ آیت کا صرف اتنا حصہ لکھا جس سے ان کو اپنا خود ساختہ مفہوم نکالنے میں آسانی ہو۔ دراصل مذکورہ آیت کے مضمون کا تعلق بنی اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اسلامی حدود وتعزیرات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس آیت میں الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے قانون کا ایک اصول ذکر فرمایا ہے۔ سورة مائدہ کی اس آیت کی جو تفسیر غامدی نے کی ہے۔ اس کے استاذ امین حسن اصلاحی سمیت امت میں کسی عالم نے یہ تفسیر نہیں کی۔ کسی نے ان کو حدود وتعزیرات کا ماخذ نہیں سمجھا۔یہ صرف غامدی صاحب کا کمال ہے۔ شاید جاوید غامدی جمہور امت کی کی گئی تفسیر میں غلطیاں نکال رہے ہیں۔ جس طرح مرزاقادیانی اپنے بارے میں کہتا ہے: ”میں قرآن کی غلطیاں نکالنے آیا ہوں، جو تفسیروں کی وجہ سے واقع ہوگئی ہیں۔“(ازالة الاوہام ص708، خزائن ج3 ص482)

اسی طرح سورة الفیل کی بھی غامدی صاحب نے وہ تفسیر کی ہے جو سلف سے خلف تک کسی مفسر نے نہیں کی۔ ملاحظہ ہو ا : البیان ص239۔

سورة نصر مکی ہے

اہل علم ودانش بخوبی جانتے ہیں کہ سلف وخلف کے تمام مفسرین کے نزدیک سورة نصر مدنی ہے اور اس کے مدنی ہونے پر سب کا اتفاق واجماع ہے۔ جناب جاوید غامدی صاحب نے امت سے امتیازی رائے رکھنے کی قسم کھائی ہے۔ یہاں بھی ان کا راستہ وہ ہے جو امت میں سوائے مرزائیوں کے بعض مفسرین کے کسی نے نہیں رکھا۔ غامدی صاحب کا اصرار ہے کہ سورة نصر مکی ہے۔ اپنی تفسیر ”البیان“ میں لکھتے ہیں: ”سورة کافرون کے بعد اور لہب سے پہلے یہاں اس سورة (النصر) کے مقام سے واضح ہے کہ سورة کوثر کی طرح یہ بھی، ام القریٰ مکہ میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلہ ہجرت وبرأت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عظیم بشارت کی حیثیت سے نازل ہوئی۔“(البیان ص252)

اسی بات کو دوسرے مقام پر مختصر اور واضح طور پر یوں فرماتے ہیں: ”ساتواں باب سورة ملک سے شروع ہوکر سورة الناس پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں آخری دو معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔“(البیان ص6)

سورة نصر کے بارے میں یہی رائے مرزائیوں کے لاہوری گروپ کے بانی مولوی محمد علی کی بھی ہے۔ اپنی تفسیر ”بیان القرآن“ میں لکھتے ہیں: ”سورة کا نام نصر ہے۔ اس میں تین آیتیں ہیں۔ اس کو مکی سورتوں کے مجموعہ میں شامل کیا جاتا ہے۔“ (بیان القرآن، جلد سوم، سورة النصر)

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…