مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

Published On November 20, 2024
قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس

قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد فرماتے ہیں:۔خود کو احمدی کہلوانے والوں کے ماوراے عدالت قتل کا سبب 1984ء کا امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ہے؛ جس کا سبب 1974ء کی آئینی ترمیم ہے جس نے خود کو احمدی کہلوانے والوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا؛ جس سبب قراردادِ مقاصد ہے جس...

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ علم کلام ناگزیر علم نہیں اس لئے کہ قرآن تک پہنچنے کے جس استدلال کی متکلمین بات کرتے ہیں وہ قرآن سے ماخوذ نہیں نیز قرآن نے اس بارے میں خود ہی طریقہ بتا دیا ہے۔ مزید یہ کہ علم کلام کا حاصل دلیل حدوث ہے جس کا پہلا مقدمہ (عالم حادث...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ڈاکٹر اسرار احمد پر طنز اور استہزا کا اسلوب اب اس باب سے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جو غامدی صاحب نے ’احساسِ ذمہ داری‘ کے ساتھ ڈاکٹر اسرار صاحب پر تنقید میں لکھا۔ یہاں بھی انھیں بقول ان کے شاگردوں کے، کم از کم یہ تو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ ڈاکٹر...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد نے یکسر جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نہایت بے دردی کے ساتھ، اور ہاتھ نچا نچا کر جس طرح فلسطین کے مسئلے پر ہفوات پیش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی، اس پر گرفت کریں، تو غامدی صاحب کے مریدانِ باصفا اخلاقیات کی دُہائی...

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!۔ فلسطین کے مسئلے پر غامدی صاحب اور ان کے داماد جناب حسن الیاس نے جس طرح کا مؤقف اختیار کیا ہے، اس نے بہت سے لوگوں کو حیرت کے ساتھ دکھ میں مبتلا کیا ہے، غزہ میں ہونے والی بدترین نسل کشی پر پوری دنیا مذمت...

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں "یہ چیز حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے" (ميزان) جیسے سود دینے والے کی مذمت میں اگرچہ حدیث صراحتا بیان ہوئی ليكن غامدی...

حسان بن علی

اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔

غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش کے لشکر پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلے تھے نہ يہ کہ پہلے ابو سفیان کے قافلے کے تعاقب میں اور بعد میں لشکر قریش کی جانب. حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا اولا ابو سفیان کے تجارتی قافلے کا قصد کرنا روایت (سیرت ابن اسحاق، مصنف عبدالرزاق، جامع البیان طبری، دلائل النبوة البيهقي) میں صراحتا بیان ہوا ہے. لیکن مولانا اصلاحی نے سیرت کے اس واقعے کو بزعم خود خلاف قرآن قرار دیا (ان سے پہلے مولانا مودودى اور علامہ شبلی کی بھی یہی رائے تھی). اس روایت کے انکار کے پیچھے کہیں تو ان کے قرآن کا از خود فہم ہے تو کہیں پس منظر میں عقلی طور پہ اس چیز کو قبول نہ کر سکنا کہ مسلمان تجارتی قافلے پر بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں جس میں لوگوں کا حاجات کا سامان ہو، حالانکہ جس طرح حربی کافر کا خون مباح ہوتا ہے اسی طرح اس کا مال بھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تجارتی قافلے پر حملہ کرنا مال غنیمت کو حاصل کرنے کے سبب تھا جیسا کہ روايت میں بیان ہوا (لعل الله أن ينفلكموها)۔

مدرسہ فراہی جب قران کو حدیث پر حکم بنانے کی بات کرتا ہے تو اس کا اطلاق درحقیقت ان کے فہم قرآن (جو نظم قرآن اور سیاق کلام کی صورت میں برآمد ہوتا ہے) كو حدیث کے ذریعے برآمد ہونے والے فہم قرآن پر ترجیح دینے کی صورت میں ہوتا ہے. چاہیے تو یہ تھا کہ اگر قرآن کے بیان میں ایک سے زائد احتمال موجود ہے اور روايت کسی ایک احتمال کو واضح کر دیتی ہے تو روايت کی جانب رجوع کیا جائے اور اصول بھی یہ ہے کہ محتمل بیان کو غیر محتمل بیان کی جانب پھیرا جائے. اس کے بجائے امام حمید الدین فراہی نے (نظام القرآن وتأويل الفرقان بالفرقان میں) جو اصول وضع کیا اس کی روشنی میں قرآن کا بیان (اپنے نظم اور سیاق کلام کی روشنی میں) ہر صورت غیر محتمل (قطعى دلالت) ہے اور اخبار احاد کے رد و قبول کے بارے میں قرآن کا غیر محتمل بیان ہی حجت ہے اور اسے میزان کی حیثیت حاصل ہے. (أن القرآن هو الحاكم عند اختلاف بالأحاديث، وقال في موضع اخر فينبغي لنا ألا ناخذ منها إلا ما يكون مؤيدا للقرآن وتصديقا لما فيه)

مولانا اصلاحی کے بعد جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ہاں آیتوں کی تفہیم میں روایات سے تمسک مزید کم ہوتا چلا گیا. جیسے کہ صفا و مروہ کی سعی کے متعلق غامدی صاحب کا یہ موقف کہ حج و عمرہ میں صفا و مروہ کی سعى ضروری نہیں اور ان کا استدلال قرآن پاک کے یہ الفاظ (لا جناح) ہیں کہ تم پر کچھ (گناہ) نہیں اگر تم صفا و مروہ کی سعى کرو (سورۃ بقرہ آیت 158). غامدی صاحب کے مطابق یہ الفاظ (لا جناح) اس چیز پر دال ہیں کہ صفا و مروہ کی سعی واجب نہیں. حالانکہ اگر غامدی صاحب اس ضمن میں وارد حضرت عائشہ سے مروی متفق عليه روايت (ما أتم الله حج امرئ ولا عمرته لم يطف بين الصفا والمروة؛ کہ جو صفا و مروہ کی سعی نہ کرے تو اللہ اس کے حج و عمرہ كو پورا نہیں گردانتا) اور آیت کے شان نزول کو وہ اہمیت دیتے جس کی وہ مستحق ہیں تو وہ اس غلطی کا شکار نہ ہوتے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کے پس منظر میں وارد شان نزول (اور اس سلسلے میں وارد حدیث) کا اعتبار کیا لہذا صفا و مروہ کی سعی کے وجوب کے قائل رہے. اور جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے، اسی طرح مولانا اصلاحی کے نزدیک بھی، اگر صفا و مروہ کی سعی ضروری نہ ہوتی تو آیت کے الفاظ اس طرح ہوتے کہ تم پر کچھ نہیں اگر صفا و مروه کی سعى نہ کرو جبکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ تم پر کچھ نہیں اگر صفا و مروہ کی سعى کرو۔

اور اگر آیت کو نفي وجوب (سعى ضرورى نہیں) کے معنی میں ظاہر مانا جائے تب بھی اجماع اس میں مانع ہے جیسا کہ امام سرخسی نے المبسوط میں بہت عمدگی سے واضح کیا “یہ لفظ (لا جناح) إباجت کے لیے استعمال ہوتا ہے وجوب کے لیے نہیں اور آیت کا ظاہر اسی چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ سعى واجب نہ ہو لیکن ہم نے ظاہر کو اس مقام پہ چھوڑ دیا اور وجوب کا حکم لگایا اور اور یہاں ظاہر کو چھوڑنے کی دلیل اجماع ہے”

چنانچہ فیصلہ کن بات یہ نہیں ہے کہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب میزان میں کتنى ہزار روایات کو جگہ دی بلکہ فیصلہ کن امر یہ ہے کہ قرآن کی تفہیم میں روایات کو وہ جگہ دی گئی جو ان کا حق تھا یا نہیں ۔

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…