وحی و عقل ، چند قابلِ لحاظ پہلو

Published On November 21, 2023
فتنہ غامدیت 14

فتنہ غامدیت 14

مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی آیت [وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ…الآیۃ] کا مصداق بھی (نعوذباللہ) عہدرسالت کے ان مسلمانوں (صحابہ) کو قرار دے دیا ہے جنہوں نے ان کے زعم فاسد میں زناکاری کے اڈے کھول رکھے تھے،...

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

سید اسد مشہدی ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے مصادر فکر کے تجزیے پر مبنی ہے۔ جب ہم نے اسی تناظر میں ایک علمی گفتگو ریکارڈ کروائی تو مختلف حلقوں سے ردعمل موصول ہوئے۔ ان میں ایک ردعمل جناب حسن الیاس صاحب کا تھا، جنہوں نے ہماری گفتگو کو اس کے اصل...

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

ڈاکٹر زاہد مغل

غامدی صاحب کا “عقل اور وحی” کے تعلق پر مبنی ایک  پروگرام دیکھا جس میں وہ سائلین کے ساتھ اسی بحث میں پھنسے رہے کہ عقل پرائمری سورس آف علم ہے یا وحی اور پوری گفتگو عقل اور انسان سے متعلق چند غلط مفروضات پر مبنی تھی۔ مذھب اور عقل کے تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے چند باتوں کا خیال رکھنا لازم ہے
انسان ایک تاریخی و سماجی وجود ہے نہ کہ مجرد۔ اس کا مطلب یہ کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ تمام تعلقات و تصورات سے منقطع ایک “مجرد فرد” کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ خدا کیا چاہتا ہے۔ انسان کی تاریخ انبیاء کی تاریخ ہے، انسانیت کا آغاز ایک پیغمبر سے ہوا جس نے اپنی اولاد کو اپنے “وجود” (قول، فعل، جذبات) سے حق منتقل کیا اور اس کی اولاد نے اگلوں کو منتقل کیا۔ اس سلسلے میں جب ضرورت سمجھی گئی ایک نئے نبی کو بھیج دیا گیا۔ الغرض انسانوں کو راہنمائی کے بغیر کبھی نہیں چھوڑا گیا، انسانوں پر ایسا کوئی وقت نہیں گزرا جب حق کلیتا ان سے گھو گیا ہو اور اسے پہچاننے اور پہنچانے والا کوئی انسان نہ بچا ہو۔
جدید ڈسکورس میں “عقل” کا نام لے کر جس چیز کی گفتگو کی جاتی ہے انسان اس سے وسیع تر مفہوم کا حامل ہے (اس تصور عقل پر یہاں گفتگو کا محل نہیں) اور مذہب انسان کو اس کے کلی وجود کے ساتھ اپیل کرتا ہے۔ اللہ کا نبی ایک انسان ہوتا ہے، جو خوش بھی ہوتا ہے اور غمگین بھی، اسے راحت بھی محسوس ہوتی ہے اور تکلیف بھی، اس کی بیوی بچے بھی ہوتے ہیں اور دوست و دشمن بھی، وہ امن میں بھی رہتا ہے اور جنگ بھی کرتا ہے، اسے سکون بھی میسر ہوتا ہے اور اس پر خوف بھی لاحق ہوتا ہے۔ یہ ہے “علم کا اولین ماخذ”، ایک جیتا جاگتا معیاری انسان نہ کہ محض چند مجرد معیاری عقلی اصول۔ انسان اپنے مجموعی وجود کے ساتھ دعوت کا مستحق ہے اور اس کا بندوبست بھی ایسے ہی مجموعی وجود کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ نبی اپنے اس “کلی وجود کے ساتھ” انسان کو حق کی دعوت دیتا ہے اور لوگ اس کے اس “کلی وجود” کو دیکھ کر اپنے کلی وجود کے ساتھ اس کی طرف لپکتے ہیں، نہ کہ محض اس کی “منطقی” (دماغی عقلیت سے متعلق) باتوں کو دیکھ کر۔ حق کی پہچان کرانے کا واحد، حتمی و کلی معیار دماغی عقلیت نہیں ہے بلکہ عمل کی پختگی اس سے بڑھ کر ہے، زیادہ لوگ رسول اللہﷺ اور صحابہ کے عمل کو دیکھ کر مسلمان ہوئے۔ اگر کسی حق کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کا عمل اس کی سچائی کی دلیل نہیں دے رہا تو بھلا وہ کتنے لوگوں کو اس کی سچائی کا یقین دلا سکیں گے؟
خدا نے وحی کی صورت میں منطق و حساب کے ایسے اصول نازل نہیں کئے جن میں مجرد اصول تو نافذ العمل ہوتے ہیں جبکہ متعلقہ شے پیسو رہتی ہے۔ یعنی انسان کا معاملہ یوں نہیں ہے کہ ٹرائی اینگل تو کچھ نہیں کرتی سب کچھ فیثا غورث کے اصول کرتے ہیں جو بس ٹرائی اینگل کی حقیقت کو واضح کردیتے ہیں۔ چنانچہ انسان اور اس کی عقل کا معاملہ یوں نہیں ہے کہ عقل اپنے سے باہر موجود انسان اور حقیقت سے متعلق کچھ مجرد اصولوں کو “واضح” کرتی چلی جاتی ہے اور بس، نہیں ایسا نہیں ہے۔ جنہوں نے انسانی عقل کو یوں پہچانا انہوں نے انسانی عقل اور انسان دونوں کو نہیں پہچانا۔
عقل کے فنکشنل ہونے کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے سے ماقبل چند تصورات کو سچائی کے طور پر قبول کرتی ہے، چاہے اس کا سورس کوئی روایت ہو، خود انسان کی اپنی خواہشات ہوں اور یا پھر خدا کے پیغمبر کی بات۔ جو عقل کائنات کے بادشاہ کی انکاری ہے، اس کے سامنے یہ مقدمہ پیش نہیں کیا جائے گا کہ چلو آؤ وحی کو “مجرد عقل” پر جانچتے ہیں، ہرگز نہیں بلکہ اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ یہ بتاؤ کہ جس بت کی تم پوجا کررہے ہو اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا وہ انسان کو اس کی حقیقت سے متعلق تسلی بخش جواب دیتا ہے؟ اسے واضح کیا جائے گا کہ تم اس جھانسے میں ہو کہ تم نے کوئی پوزیشن نہیں لی ہوئی جبکہ سچ یہ ہے کہ تم نے موجودہ سسٹم اور علمیت کے سارے مفروضوں کو قبول کیا ہوا ہے۔ کافر کے ساتھ اولین بحث یہ ہے کہ تم کفر پر یعنی غلط جگہ کھڑے ہو۔ اس کے ساتھ تعلق مکالمے (ڈائیلاگ) کا نہیں ہے بلکہ دعوت (مانولاگ) کا ہے۔ اس دعوت کے لئے انسان سے متعلق سب ظروف کو استعمال کیا جائے گا، بشمول اس کی دماغی عقل جو کبھی اسے اپیل کرے گی اور کبھی نہیں۔ وحی کو ثانوی حیثیت دے کر کافر کے سامنے کبھی چھوڑ نہیں دیا جائے گا کہ “لو اپنی عقل سے جانچ لو اسے اور یہی درست علمی پیمانہ ہے”۔ مذھب کی سچائی بیان کرنے کے شوق میں مذھب اور مجرد عقل کے نام پر ایک ایسا ڈسکورس کھڑا کردینا جو وحی کی پرائمیسی کو داؤ پر لگا دے، یہ ایک غلط بلکہ خوفناک غلط طرز استدلال ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

فتنہ غامدیت 14

فتنہ غامدیت 14

مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی...