وحی و عقل ، چند قابلِ لحاظ پہلو

Published On November 21, 2023
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

ڈاکٹر زاہد مغل

غامدی صاحب کا “عقل اور وحی” کے تعلق پر مبنی ایک  پروگرام دیکھا جس میں وہ سائلین کے ساتھ اسی بحث میں پھنسے رہے کہ عقل پرائمری سورس آف علم ہے یا وحی اور پوری گفتگو عقل اور انسان سے متعلق چند غلط مفروضات پر مبنی تھی۔ مذھب اور عقل کے تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے چند باتوں کا خیال رکھنا لازم ہے
انسان ایک تاریخی و سماجی وجود ہے نہ کہ مجرد۔ اس کا مطلب یہ کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ تمام تعلقات و تصورات سے منقطع ایک “مجرد فرد” کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ خدا کیا چاہتا ہے۔ انسان کی تاریخ انبیاء کی تاریخ ہے، انسانیت کا آغاز ایک پیغمبر سے ہوا جس نے اپنی اولاد کو اپنے “وجود” (قول، فعل، جذبات) سے حق منتقل کیا اور اس کی اولاد نے اگلوں کو منتقل کیا۔ اس سلسلے میں جب ضرورت سمجھی گئی ایک نئے نبی کو بھیج دیا گیا۔ الغرض انسانوں کو راہنمائی کے بغیر کبھی نہیں چھوڑا گیا، انسانوں پر ایسا کوئی وقت نہیں گزرا جب حق کلیتا ان سے گھو گیا ہو اور اسے پہچاننے اور پہنچانے والا کوئی انسان نہ بچا ہو۔
جدید ڈسکورس میں “عقل” کا نام لے کر جس چیز کی گفتگو کی جاتی ہے انسان اس سے وسیع تر مفہوم کا حامل ہے (اس تصور عقل پر یہاں گفتگو کا محل نہیں) اور مذہب انسان کو اس کے کلی وجود کے ساتھ اپیل کرتا ہے۔ اللہ کا نبی ایک انسان ہوتا ہے، جو خوش بھی ہوتا ہے اور غمگین بھی، اسے راحت بھی محسوس ہوتی ہے اور تکلیف بھی، اس کی بیوی بچے بھی ہوتے ہیں اور دوست و دشمن بھی، وہ امن میں بھی رہتا ہے اور جنگ بھی کرتا ہے، اسے سکون بھی میسر ہوتا ہے اور اس پر خوف بھی لاحق ہوتا ہے۔ یہ ہے “علم کا اولین ماخذ”، ایک جیتا جاگتا معیاری انسان نہ کہ محض چند مجرد معیاری عقلی اصول۔ انسان اپنے مجموعی وجود کے ساتھ دعوت کا مستحق ہے اور اس کا بندوبست بھی ایسے ہی مجموعی وجود کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ نبی اپنے اس “کلی وجود کے ساتھ” انسان کو حق کی دعوت دیتا ہے اور لوگ اس کے اس “کلی وجود” کو دیکھ کر اپنے کلی وجود کے ساتھ اس کی طرف لپکتے ہیں، نہ کہ محض اس کی “منطقی” (دماغی عقلیت سے متعلق) باتوں کو دیکھ کر۔ حق کی پہچان کرانے کا واحد، حتمی و کلی معیار دماغی عقلیت نہیں ہے بلکہ عمل کی پختگی اس سے بڑھ کر ہے، زیادہ لوگ رسول اللہﷺ اور صحابہ کے عمل کو دیکھ کر مسلمان ہوئے۔ اگر کسی حق کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کا عمل اس کی سچائی کی دلیل نہیں دے رہا تو بھلا وہ کتنے لوگوں کو اس کی سچائی کا یقین دلا سکیں گے؟
خدا نے وحی کی صورت میں منطق و حساب کے ایسے اصول نازل نہیں کئے جن میں مجرد اصول تو نافذ العمل ہوتے ہیں جبکہ متعلقہ شے پیسو رہتی ہے۔ یعنی انسان کا معاملہ یوں نہیں ہے کہ ٹرائی اینگل تو کچھ نہیں کرتی سب کچھ فیثا غورث کے اصول کرتے ہیں جو بس ٹرائی اینگل کی حقیقت کو واضح کردیتے ہیں۔ چنانچہ انسان اور اس کی عقل کا معاملہ یوں نہیں ہے کہ عقل اپنے سے باہر موجود انسان اور حقیقت سے متعلق کچھ مجرد اصولوں کو “واضح” کرتی چلی جاتی ہے اور بس، نہیں ایسا نہیں ہے۔ جنہوں نے انسانی عقل کو یوں پہچانا انہوں نے انسانی عقل اور انسان دونوں کو نہیں پہچانا۔
عقل کے فنکشنل ہونے کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے سے ماقبل چند تصورات کو سچائی کے طور پر قبول کرتی ہے، چاہے اس کا سورس کوئی روایت ہو، خود انسان کی اپنی خواہشات ہوں اور یا پھر خدا کے پیغمبر کی بات۔ جو عقل کائنات کے بادشاہ کی انکاری ہے، اس کے سامنے یہ مقدمہ پیش نہیں کیا جائے گا کہ چلو آؤ وحی کو “مجرد عقل” پر جانچتے ہیں، ہرگز نہیں بلکہ اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ یہ بتاؤ کہ جس بت کی تم پوجا کررہے ہو اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا وہ انسان کو اس کی حقیقت سے متعلق تسلی بخش جواب دیتا ہے؟ اسے واضح کیا جائے گا کہ تم اس جھانسے میں ہو کہ تم نے کوئی پوزیشن نہیں لی ہوئی جبکہ سچ یہ ہے کہ تم نے موجودہ سسٹم اور علمیت کے سارے مفروضوں کو قبول کیا ہوا ہے۔ کافر کے ساتھ اولین بحث یہ ہے کہ تم کفر پر یعنی غلط جگہ کھڑے ہو۔ اس کے ساتھ تعلق مکالمے (ڈائیلاگ) کا نہیں ہے بلکہ دعوت (مانولاگ) کا ہے۔ اس دعوت کے لئے انسان سے متعلق سب ظروف کو استعمال کیا جائے گا، بشمول اس کی دماغی عقل جو کبھی اسے اپیل کرے گی اور کبھی نہیں۔ وحی کو ثانوی حیثیت دے کر کافر کے سامنے کبھی چھوڑ نہیں دیا جائے گا کہ “لو اپنی عقل سے جانچ لو اسے اور یہی درست علمی پیمانہ ہے”۔ مذھب کی سچائی بیان کرنے کے شوق میں مذھب اور مجرد عقل کے نام پر ایک ایسا ڈسکورس کھڑا کردینا جو وحی کی پرائمیسی کو داؤ پر لگا دے، یہ ایک غلط بلکہ خوفناک غلط طرز استدلال ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…