خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

Published On April 17, 2025
فتنہ غامدیت 14

فتنہ غامدیت 14

مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی آیت [وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ…الآیۃ] کا مصداق بھی (نعوذباللہ) عہدرسالت کے ان مسلمانوں (صحابہ) کو قرار دے دیا ہے جنہوں نے ان کے زعم فاسد میں زناکاری کے اڈے کھول رکھے تھے،...

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

سید اسد مشہدی ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے مصادر فکر کے تجزیے پر مبنی ہے۔ جب ہم نے اسی تناظر میں ایک علمی گفتگو ریکارڈ کروائی تو مختلف حلقوں سے ردعمل موصول ہوئے۔ ان میں ایک ردعمل جناب حسن الیاس صاحب کا تھا، جنہوں نے ہماری گفتگو کو اس کے اصل...

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

ڈاکٹرزاہد مغل

علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ قرآن نے خود ہی ان مسائل کو بیان کردیا ہے (نوٹ کیجئے کہ غامدی صاحب اصول فقہ کو بھی ناگزیر علم مان رہے ہیں)۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ دلیل حدوث کمزور مقدمات پر مبنی ہے جس کی گویا ضرورت نہیں۔

ان کے اس دعوے پر متعدد طرز پر گفتگو ہوسکتی ہے، سر دست سوال یہ ہے کہ کیا واقعی علم کلام غیر ضروری امور سے بحث کرتا ہے؟ کیا واقعی دلیل حدوث سے مفر ممکن ہے؟ آئیے اسے سمجھنے کے لئے “خدا پر ایمان” سے متعلق خود غامدی صاحب کی دلیل کا تجزیہ کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:۔

“انسان مخلوق ہے، مذہب کا مقدمہ اسی حقیقت کے ادراک سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک وجودی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہم جب چاہیں اپنی آنکھوں سے کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی تخلیق کن بے جان عناصر سے ہوتی ہے۔” (“مقامات”: خدا پر ایمان)

اس کے بعد آپ اس عمل کی کچھ تفصیلات بیان کرتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں یوں اور ووں احوال ہوتے ہیں جن کا ہم اب مشاہدہ کرسکتے ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان بنا ہوا یعنی مخلوق ہے۔

کیا واقعی ہم انسان کے “بننے” یا “تخلیق” کا مشاہدہ کرتے ہیں جیسا کہ اس مقدمے میں دعوی کیا گیا ہے؟ درست بات یہ ہے کہ انسان کے بننے کا ہمارا کوئی مشاہدہ نہیں ہے اور نہ ہی “انسان مخلوق ہے” یہ صرف مشاہدے پر مبنی قضیہ ہے۔ انسانی بصری مشاہدہ صرف یہ ہے کہ ہم ایک شے کو ایک حال سے دوسرے حال پر تبدیل ہوتا دیکھتے ہیں، باالفاظ دیگر ہم ایک ایسا حال جو موجود نہیں تھا اسے موجود ہوتا دیکھتے ہیں اور بس۔ متکلمین کی اصطلاح میں کہا جائے تو بات یوں ہے کہ اشیا سے متعلق ہمارا مشاہدہ حدوث کا ہے۔ اس کے بعد ہم بدیہی علم پر مبنی اس قضئے کو بروئے کار لاتے ہوئے استدلال کرتے ہیں کہ “جو عدم سے وجود ہو وہ محتاج و ممکن ہوتا ہے” اس لئے کہ عدم از خود وجود کی توجیہہ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ یہ قضیہ کہ “انسان محتاج یا ممکن ہے”، یہ صرف مشاہدے سے نہیں آیا بلکہ دو مقدمات پر مبنی استدلال سے حاصل ہوا ہے جہاں ایک بدیہی علم پر مبنی ہے اور دوسرا حسی مشاہدے پر:

الف) انسان پر ایک کے بعد دوسری کیفیت لاحق ہوتی ہے، یعنی اس پر حدوث لاگو ہے۔ یہ قضیہ حس سے حاصل ہوا۔

ب) جس پر حدوث لاگو ہو وہ محتاج و ممکن ہوتا ہے، یہ بدیہی علم پر مبنی ہے۔

ج) انسان محتاج و ممکن ہے۔

یہاں ہم فی الوقت اس بحث کو اگنور کردیتے ہیں کہ “احتیاج” کے حکم کی بنیاد کیا ہے، حدوث یا کچھ اور، نیز اس سوال کو بھی اگنور کردیتے ہیں کہ خود اس بدیہی قضئے (ب) کی حیثیت کیا ہے (یعنی یہ کسی حقیقت سے متعلق ہے یا بقول کانٹ کے نرا خیال ہے)، اور مان لیتے ہیں کہ حدوث کے مشاہدے اور اس بدیہی قضیے کی بنیاد پر انسان کا محتاج و ممکن ہونا ثابت ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا محتاج و ممکن ہونا کبھی مشاہدے میں آسکتا ہے؟ قطعاً نہیں، یہ حکم عقلی ہے۔ معلوم ہوا کہ “انسان مخلوق ہے” تو کجا “انسان محتاج ہے”، یہ بھی مشاہدے میں نہیں آتا اور نہ ہی صرف مشاہدے سے حاصل علم ہے۔

یہاں تک پہنچنے کے بعد کے بعد اگلا قدم یہ سوال ہے کہ جو محتاج و ممکن ہو کیا وہ مخلوق ہوتا ہے، اگر ہاں تو کس معنی میں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شے محتاج و ممکن ہوتے ہوئے قدیم بھی ہو؟ ممکن کو علت کی احتیاج کس نوع کی ہے، کیا یہ کہ وہ اس کے موجود ہونے کا گراؤنڈ فراہم کرتی ہے یا یہ کہ وہ اس کے عدم سے وجود کی توجیہہ کرتی ہے؟ پھر یہ واضح کرنا بھی لازم ہے کہ “مخلوق ہونے” کا کیا مطلب ہے؟ مثلاً مسلم فلاسفہ کے نزدیک مخلوق ہونے کا مطلب ایک ایسی وجوبی علت کی احتیاج ہے جس سے کائنات کا صدور بطریق لزوم ہو، یوں ان کے نزدیک کائنات قدیم ہوتے ہوئے بھی مخلوق ہے اور یہی اس کے ممکن ہونے کا مطلب ہے۔ کیا اس دعوے سے کائنات کے مخلوق ہونے اور اس کی علت کے خالق ہونے کا وہ مفہوم ادا ہوجاتا ہے جو قرآن میں بیان ہوا؟ اگر نہیں ہوتا، تو کیا مخلوق ہونے کے مفہوم کا تقاضا یہ کہنا ہے کہ حوداث کا جو سلسلہ ہمارے مشاہدے میں ہے یہ بھی حادث ہے (یعنی عالم عدم سے وجود میں آیا)؟ پھر اس “عدم” کا کیا مطلب ہے؟

ابھی ہم نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ انسان کے انسان ہونے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی زید، راشد و صہیب کو جب انسان کہا تو ان کے مابین “انسانیت” نامی مشترک چیز کیا اشتراک معنوی ہے یا اشراک لفظی ہے؟ اگر یہ اشتراک معنوی ہے تو جزیات سے متعلق یہ کلی معنی کہاں متحقق ہیں: خارج میں جزیات سے الگ، خارجی جزیات کے تحت، صرف ذہن میں یا خارج و ذہن دونوں میں، یا “لاوجود و لامعدوم حال” میں؟ پھر یہ مشترک معنوی کلیات بھی کیا جعل جاعل سے ہیں یا حقائق کی طرح ہیں؟ کیا کلیات کسی کے فعل کا اثر ہو سکتی ہیں؟ کیا اس اشترک معنوی یا کلی کو بغیر جعل جاعل مانتے ہوئے “انسان مخلوق ہے” کی تصدیق کا شرعی تقاضا پورا ہوجاتا ہے؟

فی الوقت یہاں مجھے ان سب امور کے جواب سے بحث نہیں کرنا، سوال یہ ہے کہ کیا ان سوالات کو بائے پاس کرکے یہ کہنا کہ “انسان مخلوق ہے” اور “یہ مشاہدے سے معلوم ہوگیا ہے” اور “یہ فطری دعوی ہے” وغیرہ وغیرہ، اس قسم کی گفتگو سے کیا ہم واقعی یہ ثابت کرلیں گے کہ “انسان مخلوق ہے” نیز اس سے متعلق جس بات کی تصدیق کا شرعی تقاضا ہماری طرف متوجہ ہے وہ پورا ہوجاتا ہے؟ یہ سب سوالات باہم ملے ہوئے ہیں اور کسی سنجیدہ علمی منہج میں ان کے جواب سے مفر محال ہے اور علم کلام ان ناگزیر امور پر بحث سے جنم لیتا ہے۔ کیا ان سوالات کے جواب کی نوعیت یہ ہے کہ ان کے جوابات قرآن میں بنے بنائے موجود ہیں یا یہ کہ خطاب کرنے والے نے ان کے پیش نظر بات کی ہے؟ جس کا دعوی ہے کہ خلق کے معنی سے متعلق ان امور کا بنا بنایا جواب آیات میں موجود ہے، وہ ان آیات کو پیش کرسکتا ہے؟ اسی طرح یہ کہنا کہ ان امور میں بحث دین میں مطلوب ہی نہیں کیا یہ کوئی بامعنی بات ہوسکتی ہے جبکہ یہ سوالات “انسان مخلوق ہے” کی تصدیق سے متعلق ہیں؟ لوگوں کو لگتا ہے کہ متکلمین گویا ان بحثوں میں غیر ضروری طور پر پڑے رہے حالانکہ یہ “کائنات کے مخلوق” اور “خدا کے خالق ہونے” کے شرعی مفہوم سے متعلق گفتگو ہے کہ دین کا تقاضا اس حوالے کیا ہے نیز اس ضمن میں کس حد تک اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور کس حد کے بعد “انسان مخلوق ہے” کی تصدیق جاتی رہے گی۔

الغرض زیر بحث مقدمے میں صرف لسانیاتی زور پر انسان کا مخلوق ہونا ثابت کرلیا گیا ہے اور متعدد خالی جگہوں پر مبنی اس استدلال کو “قرآن کے فطری استدلال” کا عنوان بھی دے دیا جاتا ہے۔ اللہ کا کلام ایسی سادہ باتوں سے مبرا ہے۔

سمجھ رکھنا چاہئے کہ علم کلام کو قرآن سے وہی نسبت ہے جو فقہ کو قرآن سے ہے، فرق ہے تو اتنا کہ ایک عملی مسائل سے متعلق علم ہے اور دوسرا علمی و نظری۔ امام ابوحنیفہ نے بہت پہلے اس حقیقت کو یوں بیان کردیا تھا کہ فقہ کی دو اقسام ہیں: فقہ الاکبر اور فقہ الاصغر۔ علم کلام کو فقہ الاکبر کہتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…