محمد حسنین اشرف
حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے لیکن خود غامدی صاحب کے اس مشورے کی تحلیل ہونی چاہیے ورنہ یہ مشورہ نہایت خطرناک ہے۔ اس وقت سائنس کے ساتھ ہمارے ہاں بحمداللہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی تحلیل سیکھنے کے چکر میں ہو رہا ہے۔ مذہب پر جب بھی بات ہوگی تو غامدی صاحب یہ توجہ دلائیں گے کہ مذہبی متون تک رسائی کی “استعداد” پیدا کی جانی چاہیے۔ اس کے لیے وہ زبان سیکھنے سے لے کر مسلمانوں کی علمی میراث پر دسترس تک کو شامل کریں گے۔ یہی مشورہ نیچرل اور سماجی سائنس سے متعلق بھی دیا جانا چاہیے۔ ہمیں اچھے سائنسدان اور سائنسی علم کے ماہرین پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو بچوں کو سائنسی علم کی نوعیت سکھا سکیں۔ یہ مذہبی علما کا کام نہیں ہے اور وہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں خود اس میں راسخ ہونا چاہیے (علم کی نوعیت میں) نہ کہ چند چیزوں پر گفتگو کرنی چاہیے۔ بالکل جس طرح مذہبی علم کے لیے “استعداد” پیدا کرنا لازم ہے اسی طرح نیچرل سائنس اور سوشل سائنس کے لیے بھی اس “استعداد” کو لازمی ہونا چاہیے (ضروری نہیں کہ یہ استعداد کسی جامعہ میں بیٹھ کر حاصل کی جائے لیکن یہ استعداد لازم ہے)۔
اسی طرح غامدی جب چلتے چلتے نظریہ ارتقا سے متعلق کسی داخلی مسئلے پر تبصرہ یا کمنٹ کردیتے ہیں تو یہ تبصرہ نہایت خطرناک ہوجاتا ہے۔ اس سے سامعین میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے جیسے اس نوعیت کے نظریات محض کھیل کی چیز ہیں کیونکہ فلاں فاسل ملا تھا اور اس فاسل کے سمجھنے میں غلطی ہوگئی تھی یا فلاں ریاضیاتی غلطی ہوگئی جسے درست مان لیا گیا تھا اور اب غلطی پکڑی گئی ہے۔ سو سائنسدانوں نے کسی غلط شے پر قصر تعمیر کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ سائنسی علم کی نوعیت یہی ہے۔ اس غلطی کا پکڑا جانا اس کا ثبوت ہے کہ سائنسی دنیا سو نہیں رہی اور اس ایک غلطی سے پچھلی پوری عمارت زمیں بوس نہیں ہوجاتی! سو، جس طرح مذہب پر اس نوعیت کا تبصرہ خطرناک ہے اسی طرح سائنس پر بھی خطرناک ہے۔
جس طرح مذہب کے داخلی اختلافات کو مکمل تصویر سامنے رکھے بغیر اپروچ کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح سائنس کی پوری تصویر کو بیان کیے بغیر چلتے چلتے چند داخلی مسائل کا تذکرہ کرنا نہایت خطرناک ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں:۔
۔۱۔ مذہبی ذہن پوری طرح کارٹیزین طریق کار کے زیر اثر ہے۔ کارٹیزین طریق کار میں علم کی عمارت فوری زمیں بوس ہوجاتی ہے اگر کسی ایک بات میں تھوڑا سا بھی شک پیدا ہوجائے۔ سائنسی علم اس کے برعکس ہے۔ یہ جانے بغیر ان اختلافات کو اپروچ کرنا اصلا سائنسی طریق استدلال اور کارٹیزین طریق استدلال میں فرق کو نہ سمجھنا ہے۔ اس نوعیت کے نقد کے نتیجے میں کسی بھی بچے کے لیے سائنسی علم کی نوعیت کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے اور فرق کر پانا ممکن نہیں رہتا!۔
۔۲۔ ہماری علمیات اور خاص طور پر سائنسی طریق کار زیادہ دیر طبیعات اور ریاضیات کے زیر اثر رہا ہے۔ اس لیے ہم جس سائنسی طریق کار سے زیادہ اپنے آپ کو قریب پاتے ہیں وہ انہیں دو مضامین کا ہے۔ بیالوجی یا کیمسٹری سے فوری متوحش ہوجاتے ہیں کیونکہ وہاں جو طریق کار، کارفرما ہے اس پر ہمارے ہاں کبھی بات ہی نہیں ہوئی۔ اس لیے ہمارے ہاں کلاسکیل مکینکس اور کوانٹم مکینکس کے اختلافات کم زیر بحث ہوں گے۔ ہوں گے بھی تو ہم انہیں سائنس یا سائنسی طریق کار کے خلاف پیش نہیں کریں گے۔ لیکن نظریہ ارتقا میں ذرا سا کوئی مسئلہ آ جائے تو ہم اس کو اور اس سے سائنس کو غلط ثابت کرنے نکل پڑتے ہیں۔ یہ بھی غلط تاثر پیدا کرتا ہے!
۔۳۔ دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے ہاں اس پیچیدگی کو نہ سمجھ پانا ہے جو اس وقت مضامین میں پیدا ہوچکی ہے۔ اس وقت کسی بھی میدان میں، اتنی تفصیل آچکی ہے کہ اس میدان کا ماہر اس کو
encompass
نہیں کرسکتا چہ جائیکہ میں اور آپ چند کتابیں پڑھنے کے بعد اس کمیونٹی کو بتانے نکل پڑیں کہ اُن سے کیا غلطی ہوئی ہے۔ پھر یہ بھی سوچیے کہ جس فاسل یا ثبوت کی غلط تفہیم کی گئی تھی اس تفہیم کو میں نے اور آپ نے نہیں پکڑا بلکہ اسی سائنسی کمیونٹی نے پکڑ کے ہمیں بتایا ہے اور اسی سائنسی کمیونٹی نے اپنی اس غلطی کو تسلیم کیا ہے۔ سو یا تو اتنی استعداد پیدا کی جائے کہ ہم ان پیچیدگیوں کو سمجھنے کا حق ادا کرسکیں بصورت دیگر ان اختلافات کو اس بڑے سائنسی پس منظر میں سمجھنا اور بیان کرنا چاہیے۔ خاص طور پر جب سامنے اس میدان کا ماہر موجود نہ ہو جو اس کا جواب دے سکے۔
۔۴۔ بہت سی سائنسی معلومات
counterintuitive
ہوتی ہیں۔ اسی لیے کوئی بھی شخص سادہ سی آبزوریشن سے اس کو احمقانہ ثابت کرسکتا ہے۔ یہ کام نہایت خطرناک ہے، اسی لیے سائنسی مسئلے کو مکمل پیش کرنا چاہیے۔ نقد ضرور کیجیے اور جی جان سے کیجیے لیکن ان مسائل کو پہلے سمجھ لیجیے۔ مثال لیجیے:
اگر کچھ دیر کو آپ یہ بھول جائیں کہ ہمیں سائنسی علم سے معلوم ہے کہ ہماری زمین گول ہے۔ کوئی شخص اگر آپ کو یہ کہے کہ ہماری زمین گول ہے تو کیا آپ اس کی بات قبول کرلیں گے؟ پھر اگر کوئی شخص بیٹھ کے یہ ثابت کرنا چاہے کہ زمین کے گول ہونے والی بات کس قدر احمقانہ ہے تو یہ دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ کیوں؟ کیونکہ آپ کے سامنے جو آبزوریشن ہے اس کو بالکل اور باآسانی میچ کر رہی ہے۔ اسی طرح نظریہ ارتقا سے متعلق جو ہماری آبزوریشن ہے اور جو سائنسی معلومات ہے اس میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ کسی ماہر کے ذریعے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔ اس پر مذہبی علما کے تبصرے اسی نوعیت کا نقصان کرتے ہیں جس نوعیت کا نقصان زمین کے گول یا فلیٹ ہونے سے متعلق ہوگا۔
نوٹ:۔
یہ
appeal to authority
نہیں ہے کیونکہ یہ نہیں کہا جا رہا کہ ماہر کی بات اس لیے مان لی جائے کہ وہ ماہر ہے۔ ماہر اس معلومات تک رسائی رکھتا ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ سو یہ کام ان پر چھوڑ دینا چاہیے، ہاں، مذہبی اداروں کو اچھے ماہرین اپنے ہاں بلانے چاہیں تاکہ ان سے سوالات کیے جاسکیں اور اس خلا کو پُر کیا جاسکے۔مذہبی علما اگر یہ تحلیل سکھانا چاہتے ہیں تو پورے سائنسی میکانزم کو سامنے رکھ کے سکھانا چاہیے۔ لٹریچر ریویو سے لے کر اس پورے سائنسی نظام کو
Navigate
کرنا بتانا چاہیے بصورت دیگر اس پر تبصرے
Counterproductive
ہیں۔ کسی بھی ایک دو یا دس پرچوں کو لٹریچر ریویو نہیں کہا جاتا اور نہ اس کی بنیاد پر اس قسم کے تبصرے کرنے چاہییں۔