۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

Published On March 14, 2025
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب

علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب “فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی میں” سے دو صفحات کا عکس دیا گیا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ متکلمین ذات باری کے وجود پر دلائل قائم کرتے ہیں لیکن قرآن اس پر دلیل نہیں دیتا، قرآن کی نظر میں یہ مسئلہ ایسا اہم ہے ہی نہیں کہ اس پر دلائل دئیے جائیں اس لئے کہ قرآن کے مخاطبین بشمول مشرکین مکہ خدا کو مانتے تھے نیز خدا کو ماننا تو فطری ہے۔ یہاں آپ اس کے بدیہی بلکہ ابدہ البدیہیات ہونے کا دعوی فرمارہے ہیں۔ قابل غور بات یہاں یہ ہے کہ جو قرآنی آیت انہوں نے یہاں پیش کی ہے اس کا ان کی شہ سرخی کے دعوے سے کوئی تعلق نہیں۔ خود ان کے اپنے دعوے کے بقول اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ مشرکین مکہ خدا کو مانتے تھے۔ خدا کو ماننا ابدہ البدیہیات ہے، اس کے لئے انہوں نے کوئی عقلی و نقلی دلیل پیش نہیں کی۔ اس کے بعد آگے جاکر مولانا اصلاحی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ توحید کو ماننا فطری ہے، لیکن اس کے بہرحال انہوں نے اپنے تئیں قرآن سے دو دلائل بھی پیش کئے ہیں (نجانے یہ دلائل کیوں پیش کردئیے کیونکہ جو فطری تھا اس پر دلیل کی کیا ضرورت؟)۔ ان دونوں دلائل نیز “مشرکین خدا کو مانتے تھے” کے لئے جو آیات اور ان پر جو تبصرہ انہوں نے پیش کیا ہے اسے پڑھنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ذات باری کے وجود کے بھی دلائل ہیں جو قرآن نے دئیے ہیں لیکن انہوں نے انہیں اس موضوع سے اپنی “شہ سرخی کے زور پر” خارج کردیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے مضمون “خدا پر ایمان” میں خود جناب غامدی صاحب نے بھی وجود باری پر دلیل قائم کر رکھی ہے جسکی ساخت یہ ہے:
– انسان مخلوق ہے
– مخلوق کے لئے خالق ہوتا ہے
ان کی دلیل کی صحت ایک طرف، اگر اسے متکلمین کی لگی بندھی اصطلاح میں ڈھال دیا جائے تو یہ یوں ہے:
– انسان حادث ہے
– حادث کے لئے محدث ہوتا ہے
اب اس کا کیا کیا جائے کہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے نزدیک تو متکلمین کے برخلاف قرآن اس موضوع پر دلائل ہی قائم نہیں کرتا لیکن غامدی صاحب دلیل قائم کررہے ہیں اور وہ بھی متکلمین کے طرز پر! غامدی صاحب نے اس عزم کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ وہ الحاد کے مقدمے پر مفصل تبصرہ کریں گے۔ اگر اس کاوش میں وہ وجود باری پر قرآن سے دلیل لائے تو ان کے استاد محترم کے بقول یہ قرآن پر ایسی بات کہنا ہوگی جو قرآن میں ہے ہی نہیں کیونکہ قرآن نے تو اس موضوع پر دلائل ہی نہیں دئیے، بلکہ یہ مسئلہ ایسا ہے ہی نہیں کہ قرآن اس پر دلیل دے۔ چنانچہ اگر اصلاحی صاحب کی بات درست ہے تو غامدی صاحب کی جانب سے ایسے دلائل پیش کرنا گویا قرآن کو غور سے نہ پڑھنے کا نتیجہ ہوگا۔ پھر “فطری استدلال فطری استدلال” کہنے والوں سے یہ سوال ہے کہ اس صفحے پر مذکور آیت میں جو استدلال ہے، اس کے تام ہونے کے لئے کوئی قضیہ یا مقدمہ مفروض ہونا علمی شرط ہے یا نہیں؟ کیا وہ قضیہ بھی یہاں آیت میں لکھا ہوا ہے یا ایک متکلم کی طرح آپ اسے واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟ اور اگر آپ کی جانب سے اس وضاحت کے بعد بھی وہ قرآن کا فطری بیان ہی رہا تو متکلمین کی کاوش کے بعد وہ قرآن سے باہر اور غیر فطری کیسے ہوجاتا ہے؟
الغرض یہ ہے وہ خطابی گفتگو جو “قرآن کے فطری انداز” کے نام پر علم کلام کو لتاڑنے کے لئے کی جاتی ہے۔ قرآن کے بارے میں چونکہ مسلمانوں میں عقیدت پائی جاتی ہے تو علم کلام کے ناقدین اس عقیدت کو علم کلام کو لتاڑنے کے لئے خوب کیش کرتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…