بیانِ شریعت کو بیانِ فطرت قرار دینے سے کیا علمی و فقہی مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔ غامدی صاحب نے شراب کی حرمت کو بیانِ فطرت قرار دیا، حالانکہ قرآن مجید اِسے رجس قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید نے مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کو رجس قرار دیا۔ غامدی صاحب اسے بیانِ شریعت قرار دیتے ہیں۔ ان کی اس دوعملی کی کوئی توجیہ سرے سے ممکن نہیں۔ ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ سورہ انعام کی آیت نمبر ١٤٥ کا مدعا و غایت مشرکین کی بدعات کا تدارک ہے، نہ کہ محرماتِ طعام کو چار میں محصور کرنا، جو خود قرآن مجید کی دیگر تصریحات اور رسالت مآب ﷺ کی توضیحات سے واضح ہے۔ اس پس منظر میں ہم غامدی صاحب کے ایک اور دعویٰ کا علمی تجزیہ کرنا چاہتے ہیں، جو اُنھوں نے خور و نوش کے ضمن میں پیش کیا ہے۔
اُن کے اِس دعویٰ کی طرف آنے سے پہلے ہم یہ دیکھ لیں کہ اُنھوں نے خور و نوش کے موضوع کو کیسے قلم بند کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی کتاب ”میزان“ میں خور و نوش کے عنوان سے ایک مستقل باب رقم کیا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس باب کا آغاز اُنھوں نے سورہ انعام کی آیت نمبر ١٤٥ سے کیا ہے۔ ان دونوں باتوں کو یاد رکھنا اہم ہے۔ ہم اِس نکتہ کی طرف آپ کی توجہ بعد میں مبذول کروانا چاہیں گے۔ پھر اس آیہ مبارکہ کو رقم کرنے کے بعد غامدی صاحب نے اپنے موقف کو پیش کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ شریعت نے کھانے پینے کی چیزوں کی حلت و حرمت کو اصلاً انسانی فطرت کی رہنمائی پر چھوڑا ہے۔ اِس کے لیے اُنھوں نے قرآن مجید کی آیہ مبارکہ ’اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ‘ (تمھارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال ہیں) سے استدلال کیا ہے۔ اُن کے مطابق انسانی عقل جن چار چیزوں کی حرمت کو متعین کرنے میں غلطی کر سکتی تھی، شریعت نے محض اُن کی حرمت کو موضوع بنایا ہے۔ اِن کے علاوہ دوسری چیزیں اصلاً شریعت کا موضوع نہیں۔ اِس کی تائید میں اُنھوں نے سورہ انعام کی آیت نمبر ١٤٥ ہی کو پیش کیا ہے۔ پھر اُنھوں نے سورہ مائدہ کی آیت ٩٠ کو نقل کیا ہے۔ اّن کا کہنا ہے کہ شراب اور جوا وغیرہ جنہیں قرآن مجید نے رجس قرار دیا ہے، اُن سے اجتناب کا حکم بیانِ فطرت ہے۔ لکھتے ہیں: ”یہ سب بیانِ فطرت ہی ہے“. یہ بیانِ شریعت کیوں نہیں اور بیانِ فطرت کیوں ہے؟ اِس کا جواب اُن کی تحریر میں موجود نہیں۔ بہرحال اُنھوں نے یہاں بھی قرآن مجید کی آیت کو نقل کرتے ہوئے اپنے موقف کو پیش کیا ہے۔ بعد ازاں اُنھوں نے سورہ انعام کی مذکورہ آیت کے الفاظ ’عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ سے اپنے استدلال کو قائم کیا ہے۔ غامدی صاحب سورہ مائدہ کی آیت نمبر ٣ کو بھی زیر بحث لاتے ہیں، جس میں حرمتوں کی فہرست میں اضافہ کیا گیا ہے۔ غامدی صاحب اِس آیہ مبارکہ کے بارے میں اپنے فہم کو بیان کرتے ہیں۔ مزید برآں ’وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ‘، اور ’وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ‘ کو بھی زیرِ بحث لاتے ہیں۔
قرآن سے استشہاد، تو سنت کی طرف استناد کیسے؟
غرض یہ کہ غامدی صاحب نے غلط یا صحیح اپنے موقف کو قرآن مجید کے ارشادات سے ماخوذ دکھایا ہے۔ آپ اِس پورے باب کا مطالعہ کریں گے، آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ جگہ جگہ قرآن مجید سے استشہاد کرتے ہیں اور بہت سے مواقع پر پوری کی پوری آیت نقل کرتے ہیں اور اصلاحی صاحب کی تفسیر سے متعلقہ آیت کی شرح بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس تمھید کے بعد، اب ہم غامدی صاحب کے اُس دعویٰ کو پیش کرتے ہیں، جس کا تجزیہ اس تحریر میں کرنا مقصود ہے۔ غامدی صاحب ’اصول و مبادی‘ کے باب میں رقم طراز ہیں:
”سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ روایت بھی اُسی کا حصہ ہے۔ اِس ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے، وہ یہ ہے۔۔۔
خور و نوش
۱۔ سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت ۔ ۲۔ اپنا اور جانور کا ’رجس‘ دور کرنے کے لیےاللہ کا نام لے کراُس کا تذکیہ۔“
(میزان، جاوید احمد غامدی)
غامدی صاحب کا یہ دعویٰ اور خور و نوش میں جو بحث اُنھوں نے رقم کی ہے، اُس کا سرسری سا موازنہ ہمیں چکا چوند کرنے کے لیے کافی ہے۔ خور و نوش کا مکمل باب یعنی اُس کا ایک ایک حرف اِس بات کی گواہی دیتا ہے کہ غامدی صاحب کا پورا فہم قرآن مجید سے ماخوذ اور اُس کی نصوص پر مبنی ہے۔ ابھی ہم یہ بحث نہیں کررہے کہ ان کا فہم صحیح ہے یا غلط۔ اُن کے فہم کی صریح غلطیوں کی نشان دہی ہم اپنی گذشتہ تحاریر میں کر چکے ہیں۔ فی الحال مقصود یہ ہے کہ ہم اپنے قارئین کو بتائیں کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ کہ اِن چار محرماتِ طعام کا حکم سنت متواترہ ہے اور ان کی پوری بحث جو انھوں نے خور و نوش کے باب میں رقم کی ہے، اُن کے مابین بُعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ اُنھوں نے جو موقف اپنی کتاب کے بالکل آغاز میں اختیار کیا اور پوری قطعیت سے پیش کیا، جب اُس عنوان پر لکھنے کا وقت آیا، تو وہ ایک لفظ بھی اُس کی تائید میں پیش کرنے سے قاصر رہے۔ کھانے پینے کی حلت و حرمت کو متعین کرنے کا قاعدہ و کلیہ کیا ہے، اِسے انھوں نے ’اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ‘ سے اخذ کیا۔ محرماتِ طعام کونسے ہیں اور کتنے ہیں، اِسے اُنھوں نے سورہ انعام کی مذکورہ آیت سے استخراج کیا۔ شراب کی حرمت ہو یا تھان استھان پر ذبح کیے والے جانوروں کا معاملہ، اِن سب امور میں اُن کا استشہاد قرآن مجید کی نصوص پر مبنی ہے۔ کسی ایک جگہ بھی اُنھوں نے سنت کا ذکرِ خیر نہیں فرمایا۔
سنت کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ محض متواترات تک محدود ہے۔ اسلاف سنت کو متواتر اور غیر متواتر دو اقسام پر مشتمل مانتے ہیں۔ غامدی صاحب کے اس تفرد سے قطع نظر، ایک طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس حکم کو وہ قرآن مجید کی بجائے متواتر سنت قرار دے رہے ہیں، کوئی ایک دلیل وہ اِس کے حق میں پیش فرمائیں گے۔ غامدی صاحب اپنی پوری بات قرآن مجید کی نصوص پر قائم فرماتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ یہ سنت کے احکامات ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مردار، خون، خنزیر کے گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانوروں کی حرمت کو قرآن مجید سے ماخوذ مانا گیا ہے۔ خود غامدی صاحب نے بھی خور و نوش کے باب میں بأمرِ مجبوری اسی روایت کو قائم رکھا ہے۔ لیکن جب وہ اصول و مبادی میں قرآن مجید کے ساتھ ساتھ سنت سے دین کے ملنے کا ذکر کرتے ہیں، تو جو چیزیں اُنھوں نے قرآن مجید سے اخذ کی ہیں، اُن کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں:
”اِس ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے ،وہ یہ ہے۔۔۔
خور و نوش
۱۔ سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت ۔ ۲۔ اپنا اور جانور کا ’رجس‘ دور کرنے کے لیےاللہ کا نام لے کراُس کا تذکیہ۔“
خور و نوش کے باب میں اُن کا پورا بیان قرآن مجید سے ماخوذ ہے اور یہاں دعویٰ یہ ہے کہ ”سنت کے ذریعہ سے جو دین ہمیں ملا ہے، وہ ’یہ‘ ہے“۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے؟ آپ خور و نوش کے باب میں سنت کے ذریعہ سے ملنے والے دین کو بیان کیوں نہیں کرتے۔ آپ خور و نوش کے باب کا آغاز سورہ انعام کی آیات سے کیوں کرتے ہیں۔ آپ کو بتانا چاہیے کہ سنت سے ہمیں یہ دین ملا ہے اور اس کے یہ شواہد ہیں۔ خور و نوش کے پورے باب میں سنت کا کوئی ذکر نہیں۔ اس پورے باب میں ہمیں قرآن مجید کی آیات اور ان آیات پر مبنی غامدی صاحب کا فہم دکھائی دیتا ہے۔ سنت فہم کی نوعیت کی کوئی چیز نہیں۔ سنت امت کے اجماع و تواتر سے منتقل ہوئی ہے۔ اگر یہ حکم بطور سنت امت کے اجماع و تواتر سے منتقل ہوا ہے، تو اجماع و تواتر کا ذکر ہونا چاہیے۔ سنت کی تعیین قرآن مجید سے کرنے کے کیا معنی ہیں؟ غامدی صاحب نے سنت کی تعیین کے سات اصول اپنی کتاب ’میزان‘ کے باب اصول و مبادی میں بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک اصول بھی قرآن مجید کی نصوص سے متعلق نہیں۔ کوئی ایک اصول بھی یہ نہیں بتاتا کہ سنت کو قرآن مجید کی نصوص سے متعین کیا جائے گا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب خور و نوش کے پورے باب کو قرآن مجید کی تصریحات پر قائم کرتے ہیں اور پھر خاموشی سے [١] ان کا انتساب سنت کی طرف کردیتے ہیں۔ غامدی صاحب کے موقف میں یہ کھلا تضاد ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی دوسرے تضادات اس فکر کا آئینہ دار ہیں۔
[١] کسی بھی بلند بانگ علمی دعویٰ کو بغیر دلیل و استدلال کے پیش کرنے کی جسارت کو (خاموشی سے) کہہ دیا جائے، تو اِس میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ یہ اس کی شناعت سے یک گونہ صرفِ نظر ہے۔